انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابوبکرؓ کو حکمِ امامت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو اپنی جگہ مسجد میں نمازوں کی امامت کے لئے مقرر فرمایا،حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ میرےباپ اس خدمت کو انجام نہ دے سکیں گے،کیونکہ وہ زیادہ رقیق القلب ہیں، آپ حضرت عمرؓ کو امام مقرر فرمائیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں،ابوبکرؓ ہی امامت کریں گے،حضرت ابوبکرؓ مسجد میں نماز پڑھا رہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ افاقہ محسوس ہوا اور مسجد میں تشریف لے آئے، حالتِ حالت نماز ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے آنے پر حضرت ابوبکرؓ نے امام کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خالی کرنے اور خود پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو مونڈھے کے پاس سے پکڑ کر وہیں قائم رکھاورخود ان کی اقتدا میں نماز ادا کی،صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ اپنے باپ اوربھائی کو بلاؤ کہ میں تمہارے باپ کے لئے خلافت نامہ لکھ دوں پھر فرمایا: اس کی ضرورت نہیں ہے؛کیونکہ مسلمان سوائے اُن کے دوسرے کو سردار مقرر نہ کریں گےاور خدا تعالیٰ کی مشیت یہی ہے اسی طرح صحیحین میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایک روز حالتِ مرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ اورقلم دوات طلب کیا چونکہ اس وقت عارضہ کی شدت تھی،حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت نہ دی جائے،ہمارے واسطے قرآن مجید ہی کافی ہے جیسا کہ آپ فرماچکے ہیں،بعض صحابہؓ نے فرمایا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کیا جائے اور پوچھا جائے کہ آپ کیا لکھواتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی باتیں کرنے کی آواز ناگوار معلوم ہوئی،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا لکھوانا چاہتے ہیں؟فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھے اسی حالت میں رہنے دو جس میں میں ہوں اورباہر چلے جاؤ اس وقت آپ کو درد کی سخت شدت واذیت تھی،اس لئے حضرت عمرؓ نہیں چاہتے تھے کہ ایسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف دی جائے،تھوڑی ہی دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ تخفیف ہوئی تو سب کو طلب فرمایا اورکہا کہ جب وفود آئیں تو اُن کو صلہ اور انعام سے ضرور خوش کیا کرو، مشرکین کو جزیرۃ العرب سے بالکل خارج کردینے کی کوشش کرو، اُسامہ ؓ کے لشکر کو ضرور روانہ کردینا،انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنااُن کی غلطیوں سے درگزر کرنا اپنی صحبت میں ابوبکرؓ سے افضل کسی کو نہیں جاننا، اس کے بعد پھر درد کی زیادتی ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسل پھر بے ہوش ہوگئے۔