انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عبداللہ کی عملی جدوجہد ادھر عبداللہ بن مروان نے انھیں ایام میں اشبیلیہ کے خود مختار رئیس ابراھیم بن حجاج سے صلح کرکے اپنی طاقت کوبڑھانے کی کوشش کی، سلطان عبداللہ نے اس فتح کے نتائج دیکھ کر ابن مروان کازور توڑنا اور اس پر حملہ کرناضروری سمجھا وزیرالسلطنت احمد بن ابی عبیدہ کو فوج دے کر ابن مروان کی طرف بھیجا گیا، ابن مروان نے ابرہیم بن حجاج والیٔ اشبیلیہ سے امداد طلب کی ،چنانچہ ابرھیم بن حجاج بھی ابن مروان کی کمک پر تیار ہوگیا، دونوں نے ملکر احمد بن ابی عبیدہ کا مقابلہ کیا اس معرکہ میں بھی رعب سلطنت نے اپنا کام کیا اور باغیوں کو شکست کے بعد ابراہیم بن حجاج نے اطاعت وفرماں برداری کا اظہار کیا اور سلطان عبداللہ نے اس کو اشبیلیہ کا عامل مقرر کردیا اس لڑائی کا نتیجہ پہلے لڑائی سے بھی زیادہ مفید برآمد ہوا اور سلطنت کےساتھ ہی وقار سلطنت نے بھی پہلے سے زیادہ ترقی کی اس واقعہ کےچند ہی روز بعد عبدالرحمن بن مروان کا انتقال ہوگیا اور اس کے بیٹوں نے طلیطلہ وغیرہ میں حکومت شروع کی ادھر ابراہیم بن حجاج حاکم اشبیلیہ نے اس ملک کا اکثر حصہ اپنی حکومت میں شامل کرلیا،عمر بن حفصون نے سلطان عبداللہ سے شکست کھاکر پہاڑوں میں پناہ لی تھی،جب سلطان دارلسلطنت کی طرف واپس ہوا عمر بن حفصون نے بتدریج اپنی طاقت کو بڑھانا اور اپنی حالت کو سدھارنا شروع کیا۔ بادشاہ ایسٹریاس مسمی الفانسو اور اس کے بھائی میں لرائی شروع ہوئی الفانسو نے اپنی تسکین خاطر کے لیے سلطان عبداللہ سے خط وکتابت کرکے تجدید صلح کی خواہش ظاہر کی ،سلطان نے فوراً رضامندی ظاہر کرکے ان شرائط پر صلح کرلی کہ نہ بادشاہ ایسٹریاس اپنی موجودہ حدود سلطنت سے باہر قدم رکھنے نہ اسلامی فوجیں اس کی حدود میں داخل ہوں ،یہ صلح الفانسو کے لیے بہر نہج مفید اور نفع رسں تھی کیونکہ مسلمان اس تمام ملک کو جو اس کے قبضے میں تھا اپنا ملک سمجھتے تھے اور اس پر قبضہ کرنے کادعوی رکھتے تھے لیکن اب سلطان عبداللہ نے اس کی حکومت کو تسلیم کرکے اس کی اولوالعزمی کو تقویت پہنچادی۔ ادھر آئے دن کی لرائیوں اوربغاوتوں سے رعایا تنگ آچکی تھی اور یہ بدامنی کاسلسلہ بہت ہی طویل ہوگیا تھا ،لہذا خود بخود لوگوں کی توجہ اس طرف مائل ہوئی کہ دربار قرطبہ کے خلاف بغاوت کرنا کسی طرح مفید نہیں ہے اورایسے باغیوں کا ساتھ دینا اور انکی مدد کرنا گناہ عظیم ہے لہذا یہ صورت جو پیدا ہوچکی تھی دیر تک قائم رہی ،اشبیلیہ ایک خود مختار اور طاقتور ریاست مشرق میں قائم تھی ،ان کے علاوہ باقی اکثر حصہ ملک کا اسی قسم کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا اور سب اپنی اپنی جگہ حکومت کرتے اور دربار قرطبہ کی ظاہری تکریم بجالاتے تھے۔ عیسائی ریاستوں میں جانشینیوں کے متعلق اتفاقاً سخت پیچیدگیاں پیدا ہوگئی تھیں اوران کو اپنے اندرونی جھگڑوں سے اتنی فرصت ہی نہ تھی کہ حکومت اسلامیہ پر حملہ آور ہوتے،خدا شرے بر انگیزد کہ خیر مادراں باشد۔