انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قواعدالحدیث بات کی قبولیت کے فطری اصول حدیث قبول کیسے کی گئی؟ وہ کون سے اصول تھے جن پر حدیث قبول کی جاتی رہی؟ جوکچھ کسی نے کہہ دیا بس لے لیا جاتا رہا یاروایت قبول کرنے کے لیے واقعی کچھ اصول کارفرمارہے؟ اور کہاں کہاں ان قواعد میں نرمی اختیار کرنے کی گنجائش رہی؟ اس نرمی کا تدارک پھرکس طرح قرائن سے کیا جاتا رہا؟ پھر ایسے بھی کئی مواقع تھےکہ روایت اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود لکھ لی گئی؛ کیونکہ ہوسکتا تھا کہ آئندہ اس کے بارے میں کوئی اور بات کھلے اور یہ کمزور روایت اس بات کے قرائن میں شمار ہوجائے یاکہیں اس سے اعتبار کا کام لیا جائے؛ گواحتجاج نہ کیا جائے؛ بہرحال یہ ایک نہایت عمیق موضوع ہے، جس کی گہرائی میں وہی لوگ جاسکتے ہیں جنہو ںنے حدیث پڑھنے پڑھانے میں زندگیاں صرف کی ہوں، ان حاذقین کا ذوق بولتا ہے کہ بات کہاں قابل اعتماد ہے اور کہاں اس کے اعتماد میں جھول ہے اور ہے تووہ کتنا ہے، قواعد کا سرسری مطالعہ یااصولِ حدیث کی چند کتابوں کا پیشِ نظر ہونا اس فن کی پیراکی کے لیے کافی نہیں۔ اس وقت ہمیں اس فن کی گہرائی میں اُترنا نہیں، صرف اس موضوع کا کچھ تعارف کراناہے، اس میں اس فن کا کچھ تاریخی تجزیہ بھی ہوجائے گا اور یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ فنِ روایت Science of transmission وہ نیاباب علم ہے جس سے دنیا قبل ازاسلام ناآشنا تھی، فنِ تاریخ اور فنِ روایت کومسلمانوں نے جوتازگی اور پختگی بخشی، اس کی مثال اقوامِ عالم اور مللِ سابقہ میں کہیں نہ ملے گی، محدث نے حدیث کویونہی جمع نہیں کرلیا کہ جوکچھ کسی نے کہہ دیا اُنہوں نے سن لیا قبول کرلیا اور لکھ لیا، ان کے سامنے روایت قبول کرنے اور اسے آگے نقل کرنے کے کچھ قواعد تھے اور ان قواعد کے ساتھ روایات پر رداً یاقبولاً بحث ہوتی تھی، جتنا کوئی باب نکھرتا جاتا اس کے بارے میں پختگی اور وثوق بڑھتا جاتا اور سند کے مراتب بدلتے جاتے؛ یہاں تک کہ بعض روایات متواتر ہوجاتیں، قوت سند کے انہی مراتب سے احادیث کی مختلف قسمیں ہوتی گئیں اور اس دور میں جوکمزور روایتیں قبول کی گئیں وہ بدستور ان کمزوریوں کی حامل رہیں، انہی اسانید کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا اور انہیں بالکل نظرانداز اس لیے نہ کیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی آنے والا محقق اس باب میں کوئی اور انکشاف کرے اور یہ روایت کسی دوسری روایت یاتعامل کی تائید بن جائے، ایک رائے یاچندآراء کے ساتھ علم کے کسی گوشے کوکلیۃ دفن کردینا قرین مصلحت نہ تھا۔ اسلام دینِ فطرت ہے اس کے اُصول فطرت کے پیمانوں میں ڈھلتے اور اُبھرتے ہیں، حدیث قبول کرنے میں بنیادی اصول تقریباً وہی ہیں، جوفطری تقاضوں کے مطابق کسی بات کوقبول کرنے یانہ کرنے کے ہوسکتے ہیں؛ لیکن ان کا تعین ہرشخص کی اپنی فطرت پر موقوف نہیں؛ اہلِ فن کے تجربات اور فیصلوں سے ہی ہوتا آیا ہے