انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتح تکریت وجزیرہ مذکورہ بالا واقعات کے پڑھنے سے جب ۲۶ ھ تک کی اسلامی تاریخ جو شام وعراق سے تعلق رکھتی ہے،ہماری نظر سے گزر گئی ہے،اب آگے روم وایران کے واقعات میں سے کسی ایک کے سلسلہ کو شروع کرنے سے پیشتر تکریب کی فتح اور صوبۂ جزیرہ پر لشکر اسلام کے قبضہ کا حال اس لئے بیان کرنا ضروری ہے کہ تکریب میں رومیوں اور ایرانیوں نے مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا،اسی طرح جزیرہ کے قبضہ میں لانے کا باعث مسلمانوں کی عراقی و شامی دونوں فوجیں ہوئی ہیں نیز یہ کہ مذکورہ بالا واقعات کے بعد ہی تکریت والجزیرہ کے واقعات وقوع پزیر ہوئے ہیں۔ تکریت میں ایک ایرانی صوبہ دار رہا کرتا تھا،اُس نے جب سُنا کہ مدائن پر مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا ہے،تو اُس نے رومیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، رومی لوگوں پر بھی چونکہ اسلامی فوجوں کی ضربیں پڑ رہی تھیں،وہ بہت آسانی سے اس سرحدی صوبے دار کی اعانت پر آمادہ ہوگئے،ساتھ ہی ایاد تغلب،نمروغیرہ عرب قبائل جو عیسائی تھے،رومیوں کی ترغیب سے مرزبان تکریت کے ساتھ شریک ہوگئے،فاروق اعظمؓ کی ہدایت کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے عبداللہ بن المعتم کو پانچ ہزار کی جمعیت کے ساتھ تکریت کی جانب روانہ کیا اسلامی لشکر نے جاکر تکریت کا محاصرہ کرلیا بڑی خونریز جنگ کے بعد رومیوں اورایرانیوں کو شکست فاش حاصل ہوئی،عرب قبائل میں سے اکثر نے دین اسلام قبول کرلیا، بہت ہی تھوڑے ایرانی اوررومی جان بچا کر بھاگ سکے،باقی سب وہیں مقتول ہوئے،اس لڑائی میں مال غنیمت اس قد رہا تھ آیا کہ جب خمس نکال کر لشکر پر تقسیم کیا گیا تو ایک ایک سوار کے حصے میں تین تین ہزار درہم آئے۔ صوبہ جزیرہ بھی شام وعراق کے درمیان کبھی رومی سلطنت کے زیر اثر ہوتا کبھی ایرانی سلطنت کی ماتحتی میں آجاتا تھا، اہل جزیرہ نے اسلامی فتوحات کے نقشے دیکھ دیکھ کر ہر قل کو لکھا کہ آپ شام کے مشرقی شہروں کی طرف حفاظتی افواج بھیجیں،ہم سب مل کر آ پ کی اورآپ کی فوجوں کی مدد کریں گے ہرقل نے اہل جزیرہ کی اس درخواست کو تائید غیبی سمجھ کر شام کے مشرقی شہروں کی طرف فوجیں روانہ کیں فاروق اعظمؓ نے ان حالات سے واقف ہوکر ایک طرف حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو لکھا کہ اہل جزیرہ کو ان کی حدود سے باہر مت نکلنے دو،دوسری طرف حضرت ابو عبیدہؓ کو لکھا، کہ قیصر کی فوجوں کو حمص و قنسرین کی طرف بڑھنے سے روکو،چنانچہ عراقی وشامی ہر دو افواج نے اپنا اپنا کام عمدگی سے انجام دیا اور تمام صوبہ جزیرہ حضرت عیاض بن غنمؓ کے ہاتھ پر بہت سی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے بعد ایک سرے سے دوسرے سرے تک محفوظ ہوگیا،یہ واقعہ ۱۷ ھ کا ہے۔