انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عمروبنؓ حزم نام ونسب عمرو نام، ابو الضحاک کنیت،خاندان نجار سےہیں،نسب نامہ یہ ہے،عمرو بن حزم بن زید بن لوذان بن عمرو بن عبد مناف بن غنم بن مالک بن نجار، حضرت عمارہ بن ؓ حزم جو بیعت عقبہ میں شریک تھے، ان کے برادر علاتی ہیں ان کی ماں خاندان ساعدہ سے تھیں۔ اسلام ابتدائے اسلام اورہجرت کے زمانہ تک کم سن تھے، اس بناء پر زمانۂ اسلام کی صحیح تعیین نہیں ہوسکتی، غالباً اپنے گھر والوں کے ساتھ مسلمان ہوئے ہوں گے۔ غزوات کم عمری کی وجہ سے بدر اوراحد میں شرکت کے قابل نہ تھے، جب غزوہ خندق واقع ہوا تو پانزدہ سالہ تھے، اس لئے غزوہ میں شریک ہوئے،اس کے بعد اور بھی غزوات میں شرکت کی۔ ۱۰ ھ میں آنحضرتﷺ نے خالد بن ؓ ولید کو نجران بھیجا تھا، وہاں کے لوگ مسلمان ہوئے تو حضرت عمروؓ کو حاکم بنا کر روانہ فرمایا اورایک یاداشت لکھوا کر حوالہ کی جس میں فرائض سنن، صدقات، دیات اوربہت سے احکام درج تھے، چنانچہ کاروبار حکومت کے ساتھ ساتھ محکمۂ مذہبی بھی انہی کی زیر نگرانی تھا، یعنی تعلیم اورتبلیغ کا مذہبی فرض بھی انجام دیتے تھے، صاحب استیعاب لکھتے ہیں: استعملہ رسول اللہ ﷺ علی نجران لیفقھھم فی الدین ویعلم القرآن ویاخذ صدقاتھم۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے ان کو فقہ قرآن کی تعلیم اور صدقات کی تحصیل پر مامور فرمایا تھا۔ اس وقت ان کا سن عام روایت کے لحاظ سے ۱۷ سال کا تھا؛ لیکن ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں،کیونکہ غزوہ خندق ۵ھ میں واقع ہوا، اوراس وقت وہ پانزدہ سالہ تھے اس بنا پر ۱۰ ھ میں ان کا سن کسی حال میں ۲۰ سال سے کم نہیں ہوسکتا ،مدینہ سے روانگی کے وقت بیوی کو جن کا نام عمرہ تھا ہمراہ لے گئے تھے،چنانچہ نجران پہنچ کر اسی سال ایک لڑکا پیدا ہوا،جس کا نام انہوں نے محمد اور ابو سلیمان کنیت رکھی،لیکن پھر آنحضرتﷺ کو مطلع کیا، تو آنحضرتﷺ نے لکھا کہ محمد نام اور ابو عبدالملک کنیت رکھو، آنحضرتﷺ کے بعد غالبا ًمدینہ ہی میں مقیم رہے۔ وفات اور یہیں ۵۱ ھ میں وفات پائی ،مؤرخین نے سنہ وفات میں سخت اختلاف کیا ہے ؛لیکن صحیح یہی ہے کہ سنہ بچاس کے بعد انتقال کیا۔ اہل وعیال دو بیویاں تھیں، پہلی کا نام عمرہ تھا اور عبداللہ بن حارث غسانی کی بیٹی تھیں جو قبیلۂ ساعدہ کے حلیف تھے، (طبقات ابن سعد:۵/۵۰) دوسری کا نام سودہ بنت حارثہ تھا، (تہذیب التہذیب :۸/۲۰) اوریہ ان کے اخیر وقت تک زندہ تھیں۔ اولاد کی صحیح تعداد معلوم نہیں محمد البتہ مشہور ہیں جو عہد نبوت میں پیدا ہوئے حضرت عمرؓ وغیرہ سے حدیث سنی ۶۳ھ یوم حرہ میں لشکر شام سے مقابلہ ہوا اور اسی میں شہادت حاصل کی اس موقع پر قبیلہ خزرج کا علم انہی کے ہاتھ میں تھا، قاضی ابوبکر فقہیہ جو روایت واجتہاد دونوں کے مالک تھے،انہی کے بیٹے ہیں۔ فضل وکمال علمی قابلیت ،اصابت رائے ،قوت فیصلہ ،احکام شریعت پر عبور کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو نجران کا حاکم مقرر کیا تھا، ۲۰ سال کی عمر میں حکومت کے ایک عہدہ جلیلہ کی انجام دہی اورپھر قرآن و فقہ کی تعلیم ان کی غیر معمولی قابلیت کا بین ثبوت ہے۔ احادیث نبویﷺ بھی ان سے روایت کی گئی ہیں جن میں وہ کتاب بھی ہے جو آنحضرتﷺ نے ان کو لکھوا کر دی تھی، اس کو ابوداؤد ،نسائی، ابن حبان، دارمی، اور دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔ راویان حدیث کے زمرہ میں ان کی بیوی اوربیٹے کے علاوہ پوتے ابوبکر اور نضر بن عبداللہ سلمی اور زیاد بن نعیم حضرمی بھی داخل ہیں۔ اخلاق حضرت عمروؓ کے معدن اخلاق میں حق گوئی سب سے نمایاں جوہر ہے، حضرت عمار بن یاسرؓ کے متعلق آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ ان کو باغی گروہ قتل کرے گا اس بناء پر جب جنگ صفین میں وہ حضرت علیؓ کی طرف سے شہید ہوئے تو انہوں نے حضرت امیر معاویہ اورحضرت عمرو بن عاصؓ کو یہ حدیث یاد دلائی۔ ایک مرتبہ امیر معاویہؓ کے پاس گئے تو کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ بادشاہ سے رعیت کے متعلق قیامت میں سوال ہوگا۔ امیر معاویہؓ نے جب یزید کی خلافت کے لئے تمام ملک سے بیعت لی تو انہوں نے امیر معاویہؓ سے نہایت سخت گفتگو ک