انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** محمد بن عامر کے کارنامے خلیفہ حکم کی وفات اور مغیرہ کےقتل کے بعد جب ہشام تخت نشان ہوا تو تمام کاروبارسلطنت وزیر جعفر کے ہاتھ میں آگیا سپہ سالار غالب بظاہر وزیر جعفر کارقیب سمجھاجاتا تھا ملکہ صبح پہلے سے زیادہ امور سلطنت میں دخیل اور حادی ہوگئی تھی،اس کی سب عزت کرتے تھے اور محمد بن ابی عامر پر زیادہ مہربان تھی محمد بن ابی عامر نےوزیر جعفر اور سپہ سالار غالب کو مشورے دےکر سب سے پہلے خواجہ سراؤں کے زور کو تڑوادیا،فایق کو میورقہ میں جلاوطن کردیا جہاں وہ گم نامی کے عالم میں فوت ہوا جوذر کو استعفا دینے پر مجبورکیاگیا اس کی جماعت کےلوگوں کو منتشر کردیاگیا، اسی حالت میں شمالی عیسائیوں کے حملہ آور ہونے اور خراج کی ادائیگی سے انکار کرنے کی خبریں پہنچیں،وزیر جعفر نے محمد بن ابی عامر کو فوج دےکر عیسائیوں کے مقابلہ اور سرکوبی کے لیے روانہ کیا محمد بن ابی عامر نے شمالی حدود میں پہنچ کر عیسائیوں کو پہیم اور عبرت آموز شکستیں دیں اور وہاں سے سالماً غانماً واپس آیا ان فتوحات کی خبریں پہلے ہی قرطبہ میں پہنچ چکی تھیں اور محمد بن ابی عامر کی مقبولیت وعظمت ولوں میں بہت بڑھ گئی تھی اہل قرطبہ نے اس ککا شان دار استقبال کیا اور دربار میں قدرتی طور پر اس کا اثر وار اختیار پہلے سے دوچند ہوگیا اب محمد بن ابی عامر نےغالب ک واپنا شریک وہم خیال بناکر مصحفی کو وزارت سے معزول اور ذلیل کرادیا یہاں تک کہ اس کو قید کردیا اسی حالت میں فوت ہوا۔ غالب چونکہ تمام افواج اندلس میں محبوب وہر دلعزیز تھا لہذا اس پر ہاتھ ڈالنا آسان کام نہ تھا،محمد بن عامر نے فوجی بھرتی جاری رکھی جس میں شمال کے پہاڑی عیسائیوں اور مراقش وطرابلس الغرب کےبربریوں کو بھرتی کیا ،ابن ابی عامر اب تنہاوزیر اعظم تھا ،غالب کی خاطر مدارات اور تعظیم وتکریم حد سے زیادہ پسند کرتا تھا ،غالب کی بیٹی سے اس نے شادی کرلی تھی، اس لیے غالب کی طرف سے اس کو کوئی خطرہ نہ تھا ،مگر چونکہ ابن ابی عامر میں اولولعزمی حد سے بڑھی ہوئی تھی اور وہ مطلق العنان فرماں روا کی حیثیت سے اندلس میں حکومت نہیں کرسکتا تھا، لہذا اس نے پرانی فوج کے ایک حصہ کو موقوف کردیا،باقی کو غیر اہم اور مناسب موقع پر مامور کرکے فوج کی قومی جماعت بندیوں کو درہم برہم کردیا نئی فوج کی تعداد بتدریج بڑھاکر زیادہ قواعد دان اور مضبوط بنالیا او راس طرح بڑی ہوشیاری کے ساتھ غالب کی قوت کو کمزور کردیا اس کے بعد غالب کو بھی اس نے بآسانی اپنے راستے سے ہٹادیا اور کسی قسم کا کوئی فتنہ برپا نہ ہوا غالب اور ابن ابی عامر کی کسی موقع پر تیز گفتگو ہوئی ،سخت کلامی کے بعد زبان تیغ سے کام لینے تک نوبت پہنچی نتیجہ یہہوا کہ ابن ابی عامر کسی قدر زخمی ہوا اور غالب بھاگ کر عیسائی بادشاہ لیون کےپاس چلاگیا اسی طرح حریفوں سے میدان خالی کراکر ابن ابی عامر نے ملکہ صبح کے اقتدار کو امور سلطنت سے بالکل خارج کردیا اور ہشام ثانی کو قصر خلافت کے اندر اپنے مسرر کردہ خدام میں گویا نظر بند کرکے بٹھادیا۔ ہشام قصر خلافت سے آگے نہیں نکل سکتا تھا ،محل کے اندر عیش وعشرت اور لہو ولعب کے تمام سامان فراہم تھے اوروہ اپنی اسی حالت پر قانع اورمطمئن تھا ،بغیر ابن ابی عامر کے حکم کے کوئی شخص ہشام سے مل بھی نہیں سکتا تھا ابن عامر نے ہر طرح مضبوط ہوکر فوجی اصلاح وترتیب کی طرف توجہ کی اور بہت جلد وہ اپنی بہادر اور جرار فوج میں محبوب وہر دلعزیز بن گیا۔