انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۷۸۔وہب بن منبہؒ نام ونسب وہب نام،ابو عبداللہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے،وہب بن منبہ بن کامل بن شیخ اس ذی کناز یمنی صنعانی،ایک روایت یہ ہے کہ وہب عجمی النسل تھے، ان کے والد منبہ، کسریٰ کے زمانہ میں جب اس نے سیف بن ذی یزن حمیری کی قیادت میں حبشہ پر مہم بھیجی تھی،یمن آئے تھے اورپھر یہیں آباد ہوگئےاور عہد نبوی میں مشرف باسلام ہوئے۔ پیدائش ۳۴ میں پیدا ہوئے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۸) فضل وکمال اسلامی علوم میں وہب کا کوئی خاص درجہ نہ تھا،لیکن دوسرے مذاہب کے صحیفوں کے عالم تھے،تاہم ان سے وہ بے گانہ بھی نہ تھے اورتابعین میں ممتاز شخصیت کے مالک تھے،علامہ نووی لکھتے ہیں کہ وہ جلیل القدر تابعی ہیں،ان کی توثیق پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۴۹) حدیث حدیث میں متعدد صحابہ سے فیض یاب ہوئے تھے،حضرت ابوہریرہؓ،جابرؓ بن عبداللہ،عبداللہ بن عباسؓ،عبداللہ بن عمروؓ بن العاص،ابو سعید خدریؓ، انس بن مالکؓ اور نعمان بن بشیرؓسے ان کی روایات ملتی ہیں۔ (تہذیب التہذیب :۱۱/۲۶۷) ان کے صاحبزادے عبداللہ وعبدالرحمن اوربھتیجے عبدالصمد اورعقیل اورعام لوگوں میں عمروبن دینار سماک بن فضل اوراسرائیل وغیرہ نے ان سے سماع حدیث کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۶۷) فقہ ان کے تفقہ کے سلسلہ میں صرف اس قدر معلوم ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں صنعاء کے عہدہ قضاء پر تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱۸۹) غیر مذاہب کے صحیفوں کا علم وہب دوسرے مذاہب کے صحیفوں کے بڑے نامور عالم تھے اوراس میں ان کی جماعت میں ان کا کوئی مقابل نہ تھا،امام نووی لکھتے ہیں کہ وہ گذشتہ کتابوں کے علم ومعرفت میں مشہور ہیں، حافظ ذہبی لکھتےہیں کہ وہ بڑے وسیع العلم تھے اوراپنے زمانہ میں کعب احبار کی نظیر مانے جاتے تھے۔ مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بانوے الہامی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا جن میں سے بعض ایسی تھیں جن کے متعلق لوگوں کو کم واقفیت ہے، داؤد بن قیس صنعانی کا بیان ہے کہ میں نے وہب سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے بانوے آسمانی کتابیں پڑھیں جن سے بہتر کینسون میں اورلوگوں کے پاس موجود ہیں اور بائیس کتابوں کا علم بہت کم لوگوں کو ہے،ان تمام کتابوں میں یہ مضمون مشترک ہے کہ جو انسان مشیت کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے وہ کافر ہے،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تیس کتابیں ایسی پڑھی تھیں جو تیس نبیوں پر اتری تھیں ، ان دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے؛بلکہ دونوں صحیح ہیں، تیس کتابیں ایسی نہ رہی ہوں گی جن کی حیثیت مصاحف کی ہوگی اوربقیہ مستقل کتابیں رہی ہوں گی۔ اس قدر مسلم ہے کہ وہ کتبِ ماضیہ کے سب سے بڑے عالم تھے اورقدیم صحیفوں کے مشہور اورنامور علماء کعب احبار اورعبداللہ بن سلام دونوں کا مجموعی علم ان کی تنہا ذات میں جمع تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۹) تاریخ وہب مورخ بھی تھے،سلاطین حمیر کے حالات میں انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی۔ (شذرات الذہب :۱/۱۵) فضائل اخلاق فطرۃ نہایت صالح تھے ان کتابوں کے مطالعہ نے ان کو اورزیادہ حلیم اور عبادت گزار بنادیا تھا،وہ عابد شب زندہ دار تھے، ساری ساری رات عبادت کرتے تھے،کامل بیس سال تک انہوں نے عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی (ابن سعد:۳۹۶) طبیعت میں نرمی اس قدر تھی کہ کسی ذی روح کے لیے ان کی زبان سے گالی یادرشت کلمہ نہ نکلا۔ (ایضاً) غیر معتبر روایات لیکن کعب احبار کی طرح ان کے ذریعہ بھی مسلمانوں میں غیر معتبر اسرائیلیات کی اشاعت ہوئی۔ وفات ہشام بن عبدالملک کے عہد ۱۱۰ میں صنعاء میں وفات پائی۔ (ایضاً)