انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اسلام میں علم وحکمت کا مرتبہ قرآن کریم میں علم کے اس اُونچے درجے کوجس میں گہرائی اور گیرائی دونوں درکار ہوں، حکمت Jurisprudence کہا گیا ہے اور یہی وہ خیر کثیر ہے جواس ا مت میں نبوت کے قائم مقام رکھی گئی تھی، قرآن کریم میں ہے: "وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا"۔ (البقرۃ:۲۶۹) ترجمہ: جسے حکمت ودانائی ملی پس تحقیق اسے بہت بڑی خیر ملی۔ حضورؐ نے اِس خیر کے حامل کو فقیہ Jurist ارشاد فرمایا ہے اور حق یہ ہے کہ فقہاء ہی شریعت کے حکماء ہیں، آپ فرماتے ہیں: "مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔ (مشکوٰۃ:۲۲، متفق علیہ) ترجمہ: اللہ تعالیٰ جس کے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں فقہ عطا فرمادیتا ہے۔ وہ حاملین حدیث نبوی جواس درجے میں شریعت کا مغز پاگئے کہ مسائلِ منصوصہ کے اصولوں میں تمام مسائلِ غیرمنصوصہ کا حکم دریافت کرسکیں وہ اس دریافت اور استخراج کے اصول بھی انہی نصوص میں پاگئے اور انہو ںنے انہیں بھی پوری دقتِ نظری سے استنباط کیا، یہ وہ مجتہدین کرام ہیں جن سے مسائل کے باب میں معلوم کرنا ضروری ٹھہرا، حقیقت میں یہی اہلِ علم ہیں جن کی طرف ان مسائل میں جوقرآن وحدیث میں صریحاًنہ ملتے ہوں رجوع کیا جاسکتا ہے، حضورﷺ نے حضرت عقبہ بن عامر کواس صورت میں اسی قاعدہ کی تعلیم دی تھی: "فاباح لہ النبی الاجتہاد بحضرتہ علی الوجہ الذی ذکرنا"۔ (احکام القرآن:۲/۲۱۳) اپنے سامنے اس طریق کے مطابق جوہم نے ذکر کیا پس آپ نے ان کے لیے اجتہاد کرنا جائز ٹھہرادیا؛ اِسی طرح حضرت معاذ بن جبلؓ بھی آپ سے اجتہاد کرنے کی اجازت پاچکے تھے، فقہاء حدیث کی کاوش رہی کہ احادیث سے زیادہ سے زیادہ احکام استنباط کریں اور شریعتِ اسلامی آنے والی ہرضرورت پر قابو پاسکے اور حق یہ ہے کہ اسی سے اسلام کی شان جامعیت ہردور میں اپنی وسعت سے نکھرتی رہی ہے، ظاہر ہے کہ ان حضرات کو دن رات حدیث سے واسطہ پڑتا تھا اور اس کے ردوقبول اور تحقیق وتنقیح میں انہیں پوری گہرائی میں جانا ہوتا تھا، اس سے انہیں اس فن کی پوری بصیرت حاصل ہوجاتی تھی اور وہ اس کے درجات اور احکام سے پوری طرح باخبر ہوتے تھے؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ اُن کی محنتیں زیادہ ترحدیث کی روایت پر نہیں اس کے فہم ودرایت پر صرف ہوتی تھیں، حدیث اُن کے پاس آکر اس بحرِ بے کراں کی طرح اچھلتی تھی جس کے نیچے بے شمار موتی دبے ہوں، یہ فقہاء حدیث کبھی اپنے تلامذہ واحباب میں حدیث کی سند بھی روایت کردیتے؛ لیکن تحدیث زیادہ تران کا موضوع نہ تھا، وہ احادیث کے معانی میں غوطے لگاتے تھے اور فہم حدیث کے پہلو سے ائمہ حدیث اور حفاظ حدیث میں شمار ہوتے تھے، یہ بات اپنی جگہ محتاجِ دلیل نہیں کہ حدیث میں کامل دست گاہ کے بغیر کوئی شخص مجتہد نہ ہوسکتا تھا؛ البتہ یہ صحیح ہے کہ نادان لوگ ان کی مرویات کوکم دیکھ کر ان کی صحیح قدر کرنے سے محروم رہے اور خود اپنے آپ کو ہی کاٹتے رہے، اس طبقے میں ہم امام ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ)، امام اوزاعیؒ (۱۵۷ھ)، سفیان ثوریؒ (۱۶۱ھ)، امام مالکؒ (۱۷۹)، امام ابویوسفؒ (۲۴۱ھ)، امام محمدؒ (۱۸۹ھ)، امام شافعیؒ (۲۰۴ھ)، اسحاق بن رہویہؒ(۲۳۸ھ)،امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) کا تذکرہ کریں گے، امام احمد سے گوروایتِ حدیث کا سلسلہ بھی خوب چلا؛ تاہم ایک مجتہد کی حیثیت سے ان کا تذکرہ اسی باب میں ہوگا۔