انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تابعین کے اقوال تابعین سے مراد وہ حضرات ہیں جنھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیا ،اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ تفسیرمیں تابعین کا قول حجت ہے یا نہیں ؟حافظ بن کثیررحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں بہترین محاکمہ کیا ہے ،ان کے ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ تابعی اگر کوئی تفسیر کسی صحابی سے نقل کررہا ہے تو اس کا حکم وہی ہے جو صحابہ کرام کی تفسیر کا ہے اور اگر خود اپنا قول بیان کرے تو دیکھا جائے گا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول اس کے خلاف ہے یا نہیں ؟اگر کوئی قول اس کے خلاف موجود ہوتو اس وقت تابعی کا قول حجت نہیں ہوگا؛ بلکہ اس آیت کی تفسیر کے لیے قرآنِ کریم ،لغتِ عرب،احادیثِ نبویہ ،آثارِ صحابہ اور دوسرے شرعی دلائل پر غور کرکے کوئی فیصلہ کیا جائے گا اور اگر تابعین کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہو تو اس صورت میں بلا شبہ ان کی تفسیر حجت اور واجب الاتباع ہوگی ۔ (علوم القرآن:۳۴۰) واضح ہونا چاہئے کہ تابعین سے مراد تمام ہی تابعین نہیں ہیں؛ بلکہ وہ حضرات تابعین جنہوں نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کی صحبت اٹھائی ہواور انکی صحبت سے علمی استفادہ کیا ہو، اہل علم میں اس بات پربھی اختلاف ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے میں اقوال تابعین حجت ہیں یا نہیں،اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ اگر کوئی تابعی کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے تفسیر نقل کررہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہوگا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیان کریں تو دیکھا جائےگا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف میں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیا جائےگا؛ بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثارصحابہ رضی اللہ عنہم اورلغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کرکے فیصلہ کیا جائےگا،ہاں اگر تابعین کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہوتو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اورواجب الاتباع قراردیا جائے گا۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر،ا-۵،مطبوعہ المکتبہ التجاریۃ الکبری)