انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضور اکرمﷺ کی مکہ سے روانگی رسول اﷲ ﷺ کو جب ہوازن و ثقیف کی پیش قدمی کی خبریں ملیں تو آپﷺ ۶شوال ۸ ہجری ہفتہ کو مکّہ سے حنین کی طرف روانہ ہوئے، آپﷺ کے ہمراہ بارہ ہزارکی فوج تھی جس میں دس ہزار اہلِ مدینہ تھے اور دو ہزار اہل مکّہ ، جن میں اکثریت نو مسلموں کی تھی، صفوان بن اُمیہ جو مکّہ کا رئیس اعظم اور مہمان نوازی میں مشہورتھا؛ لیکن اب تک اسلام نہیں لایاتھااس سے حضور اکرم ﷺ نے اسلحہ جنگ مستعار مانگے، اس نے سو زرہیں اور ان کے لوازما ت پیش کئے( شبلی نعمانی) اس کے بعد اس سرو سامان سے حنین کی طرف فوجیں بڑھیں کہ بعض صحابہ کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ" آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے" لیکن بارگاہ ایزدی میں یہ نازش نا پسند تھی ، سورۂ توبہ کی آیت ۴ میں اس کا ذکر ہے : (ترجمہ ) " بجز ان مشرکو ں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے اورانہوں نے تمہیں ذرا سا نقصان پہنچایا نہ کسی کی تمہارے خلاف مددکی ہے تو تم بھی ان کے معاہدہ کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو، اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو دوست رکھتاہے " ( سورہ ٔ توبہ : ۴ ) ابوسفیان بن حرب بھی شریک غزوہ تھے، مسلمان سپاہیوں کی زرہوں کی چمک دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کررہی تھی، مقدمہ فوج میں گھڑسواروں کا دستہ تھاجس کی نگرانی میں رسد کے باربردار اونٹ بھی تھے ، عرب نے اتنا بڑا لشکر آج تک نہیں دیکھا تھا، دوپہر میں ایک سوار نے آکر بتایاکہ میں نے فلاں پہاڑ پر چڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بنو ہوازن پورے کے پورے آگئے ہیں، ان کے بال بچے اور مویشی بھی ساتھ ہیں ، حضور اکرم ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا " انشااﷲ ! یہ سب کل مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوگا" رات میں حضرت انسؓ بن ابی مرثد نے رضاکارانہ طور پر سنتری کے فرائض انجام دئیے،