انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام ابوحنیفہ ؒ اور اُن کے محدثین رفقاء فقہ حنفی پر عام طور سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ رائے اور قیاس پر مبنی ہے، اس میں نصوص شرعیہ سے چشم پوشی کی گئی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خود امام ابوحنیفہؒ جو اس فقہ کے بانی ہیں اور ان کے رفقاء جنہو ں نے اس سلسلہ میں ان کا تعاون کیا ہے وہ علم حدیث سے بے بہرہ تھے اور بعض ناعاقبت اندیش نے تو یہاں تک لکھدیا کہ امام ابوحنیفہؒ کو صرف سترہ احادیث یاد تھیں، ظاہر ہے کہ جوفقہ حنفی کا مطالعہ کرے گا یامسانید امام ابوحنیفہؒ کو دیکھے گا تو وہ پکار اٹھے گا" َماھَذَا إِلَّابُھْتَانٌ عَظِیْمٌ"۔ ذیل میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ جس شہر (کوفہ) میں آپ پلے بڑھے، جوان ہوئے اور فقہ کی تدوین کی خود اس شہر کا علم حدیث میں کیا مقام تھا اور آپ علم حدیث میں کیا درک رکھتے تھے، آپ کے رُفقا ءمیں حدیث سے کیا شغف تھا، یہ عنوان بڑا طویل ہے؛ لیکن اختصار کے ساتھ ان امور پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کوفہ کی علمی حیثیت کوفہ کی تعمیرسنہ۱۷ھ میں حضرت عمرؓ کے حکم سے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فاتح عراق نے کی، اس کے اطراف وجوانب فصحائے عرب آباد کئے گئے، اس شہر کے آباد ہونے کے بعد بڑی تعداد میں جلیل القدر صحابۂ کرام یہاں تشریف لائے، علامہ ابن سعد (م:۲۳۰ھ) فرماتے ہیں کہ ستر(۷۰) بدری اور بیعتِ رضوان میں شریک ہونے والے تین سوصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوفہ تشریف لائے (طبقات ابن سعد:۶/۹) حافظ ابوبشردولابی (م۳۱۰ھ) حضرت قتادہؓ سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے صحابہ میں سے ایک ہزار پچاس افراد اور چوبیس وہ بزرگ جو غزوۂ بدر میں آپ کے ہمرکاب تھے کوفہ میں آکر فروکش ہوئے تھے (کتاب الکنی والاسماء:۱/۱۷۴) امام ابوالحسن احمد بن عبداللہ عجلی (م۲۶۱ھ) فرماتے ہیں کہ کوفہ میں ڈیڑھ ہزار صحابہ کرام قیام پذیر ہوئے (فتح القدیر لابن ہمام:۱/۹۱) کوفہ کے بارے میں حضرت عمرؓ کا یہ تاثر ہے: "بِالْکُوْفَۃِ وُجُوْہِ النَّاسِ"۔ (فتوح البلدان بلاذری: ۲۸۷) کوفہ میں بڑے لوگ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بناء کوفہ سے لے کر حضرت عثمان غنیؓ کی خلافت کے اخیر دور تک اہل کوفہ کی تعلیم وتعلم میں مشغول رہے، اس کارِخیر میں متعدد جلیل القدر علماء مثلاً سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حذیفہؓ، عمار بن یاسرؓ، سلمان فارسیؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ بھی شریک تھے، حضرت علیؓ جب کوفہ منتقل ہوئے تو اس شہر کے فقہاء کی کثرت کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا: "رحم اللّه ابْن أم عبد، قد مَلأ هَذِه الْقرْيَة علما"۔ (المحدث الفاصل:۵) اللہ تعالی ابن ام عبد(عبداللہ بن مسعود)پر رحم فرمائےانہوں نے اس شہر کو علم سے بھردیا۔ طبقات بن سعد میں پوری ایک چھٹی جلد میں علماء کوفہ کا تذکرہ ہے، اس کتاب میں کوفہ کے علماء کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے، جب کہ دوسرے شہر کے علماء کی تعداد اس کے عشرعشیر بھی نہیں ہے، سفیان بن عیینہ کہتے تھے: "خذوا المناسك عن أهل مكة وخذوا القراءة عن أهل المدينة وخذوا الحلال والحرام عن أهل الكوفة"۔ (معجم البلدان:۴/۴۹۳) حضرت عمرؓ جب اہل کوفہ کو خط لکھتے تھے تو "إلی رأس الاسلام" لکھتے تھے اور اہلِ کوفہ کو "رمح اللہ کنزالایمان، جمجمۃ العرب" کہا کرتے تھے، حضرت سلمان فارسیؓ کہتےہیں: "الکوفۃ قبۃ الاسلام"۔ (فتوح البلدان بلاذری:۲۸۷) امام حاکم (م۴۰۵ھ) نے اپنی کتاب (معرفۃ الحدیث) میں اسلامی شہروں کے نامور محدثین کا تذکرہ کیا ہے، اس کتاب میں پورے ساڑھے تین صفحات پر صرف کوفہ کے ائمہ حدیث کا ذکر ہے، جب کہ دوسرے شہروں میں سے کسی بھی شہر کے محدثین کا تذکرہ اس کتاب میں ایک صفحہ سے زائد نہیں ہے (فتوح البلدان بلاذری:۲۸۷) امام احمدبن حنبلؒ اور امام عفان بن مسلمؒ استاذ امام بخاریؒ (م۲۲۰ھ) فرماتے ہیں کہ جب ہم کوفہ آئے تو ہم نے وہاں چارماہ قیام کیا؛ اگرہم چاہتے کہ ایک لاکھ حدیثیں لکھ لیں تو لکھ سکتے تھے؛ مگرہم نے صرف پچاس ہزار حدیثیں لکھیں، ہم کسی سے املاء کے بغیر راضی نہیں ہوئے، سوائے شریک کے کہ انہوں نے ہم سے انکار کردیا اور ہم نے کوفہ میں کسی ایک شخص کو نہیں دیکھا جوعربیت میں غلطی کرے اور اس کو روارکھے (المحدث الفاصل:۵۵۹) حافظ ابوبکر عبداللہ بن ابی داؤد (م۳۱۶ھ) فرماتے ہیں کہ جب میں کوفہ آیا تو میں نے ابوسعید الأشج سے ایک ماہ میں تیس ہزار حدیثیں لکھ لیں، جن میں مقطوع اور مرسل بھی شامل ہیں (طبقات الشامیہ:۳/۳۰۸) امام احمدبن حنبلؒ سے جب ان کے صاحبزادہ نے دریافت کیا کہ علم حدیث کسی ایک استاذ کی خدمت میں رہ کر حاصل کرنا چاہیے یاسفر کرکے مختلف اساتذہ سے حاصل کرنا چاہیے تو آپ نے سفر کرنے کو فرمایا اور سب سے پہلے انہوں نے کوفہ کا تذکرہ کیا اور فرمایا: "یرحل ویکتب من الکوفیین والبصریین واھل المدینۃ ومکۃ"۔ (تدریب الراوی:۲/۸۵) عبدالجبارؒ کے والد عباسؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عطاء جو مکہ مکرمہ کے محدث ہیں ان کی خدمت میں بیٹھا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ تو میں نے کہا کہ میرا مکان کوفہ ہے، توانہوں نے فرمایا: "مایاتینا العلم إلا من عندکم" (ابن سعد:۶/۱۱) ہمیں توتمہارے یہاں سے علم ملا ہے۔ کوفہ میں علم حدیث کا جس قدر غلغلہ تھا اس کی بناء پر خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو تحصیل علم حدیث کے لیے بے شمار مرتبہ کوفہ جانا پڑا (ہدی الساری:۴۷۸) یہی وجہ ہے کہ بخاری کی رواۃ میں سب سے زیادہ تعداد کوفہ کے راویوں کی ہے، اسی کے ساتھ بخاری شریف میں پچاسوں سندیں ایسی ہیں جن کے کل کے کل راوی کوفی ہیں (غیرمقلدین امام بخاری کی عدالت میں:۳۷) امام بخاریؒ نے بخاری شریف میں براہِ راست جن شیوخ سے روایات نقل کی ہیں ان کی تعداد تین سودس ہیں، جن میں پونے دوسو کے قریب عراقی راوی ہیں؛ پھرعراقیین میں ۴۵/کوفی ہیں، ۵۰/بصری ہیں اور باقی دیگر شہروں کے۔ (ہدی الساری:۲۱۱) اس علمی شہر (کوفہ) میں امام ابوحنیفہؒ پیدا ہوئے اور یہیں آپ نے وہ کارنامہ انجام دیا جسے دنیا فقۂ حنفی کے نام سے جانتی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور علم حدیث امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہؒ سے زیادہ حدیث جاننے والا کسی کو نہیں دیکھا، یزید بن ہارون کا کہنا ہے کہ میں ایک ہزار آدمی کے پاس زانوئے تلمذ طے کیا اور ان میں سے اکثر سے علم کو قلمبند کیا، میں نے سب سے زیادہ فقیہ، سب سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ علم رکھنے والا پانچ کو پایا، جن میں سب سے پہلا مقام ابوحنیفہؒ کا ہے (الجواھرالمضیۃ:۱/۲۹) شداد بن حکم کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہؒ سے زیادہ علم والا کسی کو نہیں دیکھا، خطیب نے محمد بن سعد الکاتب سے روایت کیا؛ انہوں نے فرمایا کہ میں عبداللہ بن داؤدالخریبی کو فرماتے ہوئے سنا کہ اہل اسلام پر امام ابوحنیفہؒ کے لیے نمازوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا واجب ہے؛ پھرکہا کہ وہ حافظِ سنن وفقہ تھے (اعلاء السنن:۱/۹) شقیق بلخی فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ لوگوں میں زیادہ متقی وپرہیزگار سب سے زیادہ صاحب علم اور عبادت گزار تھے اور حضرت عکرمہ مخزومی فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہؒ سے زیادہ متقی، زاہد اور صاحب علم نہیں دیکھا، عبداللہ بن مبارکؒ کہتے ہیں کہ میں کوفہ گیا تو میں نے وہاں کے علماء کے سلسلہ میں لوگوں سے دریافت کیا اور میں نے کہا: "آپ کے شہر میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے کون صاحب ہیں؟ سارے لوگوں نے بیک زبان جواب دیا، ابوحنیفہؒ ہیں، میں نے ان حضرات سے ان کے اخلاق کے متعلق پوچھا تو سبھوں نے یہی کہا کہ ہمارے علم میں ابوحنیفہؒ سے زیادہ بااخلاق کوئی نہیں ہے۔ (المیزان للشعرانی:۵۸) ابن جریج کو جب امام ابوحنیفہؒ کے انتقال کی خبر پہونچی تو آپ نے إِنَّالِلّٰہِ پڑھا اور فرمایا: "آہ! علم چلاگیا" (تبییض الصحیفۃ:۱۶) اور جب شعبہ کے پاس آپ کے انتقال کی خبر پہونچی تو آپ نے فرمایا: "کوفہ سے علم کا نور بجھ گیا، لوگ ان جیسا کبھی نہیں پائیں گے"۔ (الخیرات الحسان:۷۱) یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ اس زمانے میں علم کا اطلاق صرف علم قرآن وحدیث پر ہوتا تھا، جیسا کہ علامہ حافظ ذہبیؒ نے "تذکرۃ الحفاظ" میں فرمایا ہے کہ: "خدا کی قسم! علم منطق جدل اور حکمت صحابہؓ، تابعینؒ، اوزاعیؒ، ثوریؒ، مالکؒ اور امام ابوحنیفہؒ کا علم نہیں تھا؛ بلکہ ان حضرات کا علم صرف قرآن وحدیث اور ان کے مشابہ علم تھا"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۲) اس زمانہ میں سب سے زیادہ جاننے والا اور صاحب علم وہ شخص ہوتا تھا جسے قرآن وحدیث کا علم ہوتا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ سب سے زیادہ علم حدیث سے شغف رکھنے والے تھے اور آپ کو اس میں یدطولیٰ حاصل تھا۔ علامہ ذہبیؒ نے امام ابوحنیفہؒ کو حفاظِ حدیث میں شمار کیا ہے؛ انہوں نے اپنے افتتاحیہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ یہ علم نبوی کے حامل اور عادل کا تذکرہ ہے اور جن کے اجتہاد کی جانب توثیق، تضعیف، تصحیح اور تزئیف میں رجوع کیا جاتا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲) علامہ ذہبیؒ کا کلام امام ابوحنیفہؒ کے عادل اور علم نبوی کے حامل ہونے پر بین دلیل ہے او ران کے کلام سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کو رجال کی توثیق، تضعیف اور تصحیح احادیث وتزئیف حدیث میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ خطیبؒ نے اسرائیل بن یونس کا قول نقل کیا ہے کہ: "نعمان (امام ابوحنیفہؒ) اچھے آدمی ہیں، انہوں نے جس حدیث کوبھی یاد کیا اس میں فقہ کا پہلو ہے اور وہ انتہائی درجہ حدیث کے سلسلہ میں کھود کرید کرنے والے تھے اور جس حدیث میں فقہ کا پہلو ہو اسے وہ خوب جاننے والے تھے" (مقدمہ اعلاء السنن:۱۲) علامہ ابن قیمؒ، یحییٰ بن آدم کا قول نقل کرتے ہیں کہ: "نعمانؒ نے اپنے شہر کی تمام احادیث کو جمع کرلیا"۔ (اعلام الموقعین:۱۰۱) ابن حجرؒ نے حسن بن صالح کا قول نقل کیا ہے کہ "حضرت امام ابوحنیفہؒ ناسخ ومنسوخ کے تعلق سے بہت زیادہ کھودکرید کرتے تھے، اہل کوفہ کی حدیث کو جانتے تھے اور جواحادیث وآثار ان کے شہر تک پہونچے ان کے حافظ تھے" (الخیرات الحسان:۳۰) اور یہ بات بھی مخفی نہیں کہ اس وقت کوفہ علم حدیث کا مرکز تھا، اس میں محدثین کی بہت بڑی جماعت تھی، جیسے ابن عیینہؒ، سفیان ثوریؒ، حفص بن غیاثؒ، اعمشؒ، وکیعؒ اور ابن مبارکؒ وغیرہ، امام ابوحنیفہؒ نے ان تمام کی احادیث کو اکٹھا کرلیا تھا، بھلاحدیث میں ان کے رتبہ کا کون ہوسکتا ہے؟"۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۳/۱۲) ملاعلی قاریؒ نے مناقب امام اعظمؒ میں محمد بن سماعہ سے نقل کیا ہے کہ "امام اعظمؒ نے اپنی تصنیفات میں سترہ ہزار سے زیادہ احادیث کا تذکرہ کیا ہے اور چالیس ہزار احادیث میں سے آثار کا انتخاب کیا ہے اور وہ مسائل جس میں قیاس کو چھوڑ کر اثر کی جانب رجوع ہوتے ہیں وہ بہت ہیں؛ کیونکہ اس پرشدت سے عمل تھا"۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۱۵) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کم روایت ہونے کی وجہ ان تفصیلات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے جن مسائل کا بھی استنباط واستخراج کیا ہے وہ سب احادیث کے موافق ہیں یاان کے قریب قریب ہیں؛مگرانہوں نے شدتِ احتیاط کی وجہ سے "قال رسول اللہ" نہیں فرمایا ہے جیسا کہ حضرت عمر، علی، ابن مسعود، ابوموسیٰ اشعری اور براء بن عازبؓ کاطرزرہا ہے؛ حالانکہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ان حضرات کومتوسطین میں شمار فرمایا ہے (ازالۃ الخفاء مقصد: ۲/۲۱۴) پھرکچھ آگے انہوں نے ان حضرات کو مکثرین فرمایا کیونکہ ان کی اکثرباتیں احادیث مرفوعہ کے موافق ہوئیں، اس لیے امام ابوحنیفہؒ بھی مکثرین میں سے ہیں؛ کیونکہ ان کے بہت سے اقوال، مسائل، مرفوعات کے موافق ہیں؛ اسی وجہ سے ابن مبارکؒ نے فرمایا کہ "یہ نہ کہو کہ امام ابوحنیفہؒ کی رائے ہے؛ بلکہ یہ کہو کہ یہ حدیث کی تفسیر ہے"۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۱۷) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ثقاہت اوران کا کمالِ حفظ حضرت ابن معین فرماتے ہیں کہ "امام ابوحنیفہؒ ثقہ تھے وہ جن احادیث کو یاد کرتے انہیں کو بیان کرتے تھے اور جن کو یاد نہیں کرتے انہیں بیان نہیں کرتے تھے" (تہذیب:۱۰/۴۵۰) حافظ ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں کہ "جن لوگوں نے امام ابوحنیفہؒ سے روایت کی ہے اور ان کی توثیق کی ہے ان کی تعداد ان لوگوں سے زیادہ ہے جنہوں نے ان کے سلسلہ میں کلام کیا ہے (التعلیق الحسن:۱/۸۸) علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ "حضرت امام ابوحنیفہؒ سے امام ثوریؒ، ابن مبارکؒ نے روایت کیا ہے؛ جبکہ وہ ثقہ اور لابأس بہ ہیں"۔ (التعلیق الحسن:۱/۸۸) اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ابن معین امام جرح وتعدیل ہیں اسی طرح علی بن مدینی حافظ حدیث ہیں، ان حضرات کی توثیق امام ابوحنیفہؒ کے حافظ حدیث اور ثقہ ہونے پر شاہد ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذۂ حدیث اساتذۂ حدیث اور شیوخ کی کثرت بھی علم کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے، ایک محتاط انداز کے مطابق آپ کے اساتذۂ حدیث کی تعداد چار ہزار بتلائی جاتی ہے (مقدمہ جامع المسانید:۱/۳۰) ظاہر ہے کہ جن کے اساتذہ کی تعداد ہزاروں تک پہونچتی ہو ان کے پاس احادیث کا کس قدر ذخیرہ ہوگا اور اس سلسلہ میں وہ کیسا نمایاں مقام رکھتے ہوں گے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث سے دلچسپی نصربن محمدقریشی المروزی جو امام صاحب کے شاگرد ہیں فرماتے ہیں کہ: "یحییٰ بن سعید انصاری، ہشام بن عروۃ اور سعد بن عروبہ جب کوفہ تشریف لائے تو امام صاحب نے ہم سے فرمایا: ان سب حضرات کو دیکھو! کیا ان کے پا س کوئی ایسی حدیث ہے جسے ہم نے نہیں سنی"۔ (الجواھرالمضییۃ:۲/۲۰۱) اور یہ توآپ کا دستور ہی تھا کہ جب بھی کوئی محدث کوفہ تشریف لاتے تو ان سے حدیث سننے کے لیے آپ بے تاب ہوجاتے؛ باوجودیکہ آپ طلبِ حدیث کے لیے مکہ، مدینہ، بصرہ اور اپنے بڑے اور چھوٹے سے حدیث کا علم حاصل کرچکے تھے۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۳/۶۹) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ناقد حدیث اور صاحبِ جرح وتعدیل تھے حضرت امام ابوحنیفہؒ صرف حدیث کا ہی علم نہیں رکھتے تھے؛ بلکہ آپ کو حدیث کو جانچنے اور پرکھنے کا بھی سلیقہ تھا، آپ صاحب جرح وتعدیل تھے، اور آپ کی بات قبول کی جاتی تھی، ائمہ فن نے آپ کی باتوں کو اپنی کتابوں میں بطورِ دلیل بیان کیا ہے، جیسے لوگوں نے امام احمدؒ، بخاریؒ، ابن معینؒ، ابن مدینیؒ وغیرہ شیوخ سے جرح وتعدیل کے قول کو نقل کیا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کو حدیث میں غیرمعمولی مقام حاصل تھا۔ جابرجعفی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جرح امام ترمذیؒ نے کتاب العلل میں امام ابوحنیفہؒ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے جابرجعفی سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں دیکھا اور حضرت عطاء سے زیاہ کسی کوبہتر نہیں پایا۔ (تہذیب التہذیب:۲/۴۸) امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے تعدیل ابوقطن حضرت ابوحنیفہؒ سے روایت کرتے ہیں کہ شعبہ بہت اچھے ہیں۔ (تہذیب:۴/۳۴۴) امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق امام بیہقی نے مدخل میں ذکر کیا ہے کہ "ابوسعد صنعانی نے امام ابوحنیفہؒ سے پوچھا کہ امام ثوریؒ سے حدیث روایت کرنے کے سلسلہ میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ان سے حدیث لکھو؛ کیونکہ وہ ثقہ ہیں۔ (الجواھر المضییۃ:۱/۳۰) زید بن عیاش رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جرح زید بن عیاش کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ یہ مجہول ہے (تہذیب التہذیب:۳/۴۲۴) اس کی تائید ابن عبدالبرؒ، ابن جزمؒ، طبریؒ، عبدالحقؒ اور طحاویؒ نے بھی کی ہے (التلخیص الحبیر:۲/۲۳۵) اسی طرح طلق بن حبیب، عمر بن عبید اور جہم بن صفوان اور مقاتل بن سلیمان وغیرہ پر بھی جرح کیا ہے، تفصیل کے لیے جواہر مضیہ کا مطالعہ کیجئے، حدیث کے سلسلہ میں آپ کا جو ذوق تھا وہ آپ کے شاگردوں میں بھی تھا اور یہ ذوق ان میں پیدا ہونا بھی چاہیے تھا؛ کیونکہ استاذ کا اثر شاگردوں پر پڑا ہی کرتا ہے امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ آپ کے شاگردوں میں امام ابویوسفؒ بہت ہی مشہور ہیں اور اپنی خدماتِ جلیلہ کی بناء پراہل علم میں متعارف بھی ہیں، ان کے بارے میں یحییٰ بن معین نے فرمایا کہ: "امام ابویوسفؒ صاحب حدیث اور صاحب سنت ہیں"۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۶۹،۷۰) عمروناقد کہتے ہیں کہ امام ابویوسفؒ صاحب سنت تھے اور وہ ان سے احادیث لکھا کرتے تھے (لسان المیزان:۶/۳۰۱) محمد بن غیلان کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن ہارون سے کہا کہ آپ ابویوسفؒ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا میں ان سے روایت کرتا ہوں (لسان المیزان: ۶/۳۰۱) امام نسائی نے کتاب الطبقات میں ذکر کیا ہے کہ قاضی ابویوسفؒ ثقہ ہیں (کتاب الطبقات:۳۵) امام بیہقیؒ نے بھی ان کی توثیق کی ہے (الجوھرالنقی:۱/۱۰۲) ابن مدینی نے بھی امام ابویوسفؒ کی توثیق کی ہے (مقدمہ:۷۲) ان حضرات کے علاوہ اور دیگر محدثین نے امام ابویوسفؒ کے علم حدیث میں درک کو تسلیم کیا ہے اور ان کے متعلق توصیفی کلمات کہے ہیں۔ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ حضرت امام محمدؒ بھی امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں ہیں، آپ بڑے فقیہ ہونے کے ساتھ بہت بڑے محدث تھے، آپ نے حصولِ علم حدیث کے لیے مختلف شہروں کا سفر کیا اور مختلف محدثین سے حدیث کوحاصل کیا؛ چنانچہ آپ نے سفیان ثوریؒ، قیس بن ربیعؒ، عمر بن ذرؒ، مسعرؒ وغیرہ سے حدیث سنی؛ اسی طرح ملکِ شام میں امام اوزاعیؒ سے اور مدینہ میں امام مالکؒ سے حدیث سنی ہے، آپ سے روایت کرنے والے بھی بہت سے حضرات ہیں؛ چنانچہ آپ سے امام شافعیؒ، ابوعبید قاسم بن سلامؒ، ہشام بن عبیداللہ رازیؒ، ابوسلیمان جوزجانیؒ، ابوجعفر احمد بن محمد بن مہرانؒ اور علی بن مسلمؒ وغیرہ نے روایت کی ہے۔ (مقدمہ:۳/۷۳) امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام محمدؒ نے فرمایا کہ میں نے تین سال تک امام مالکؒ کے پاس قیام کیا اور ان سے بالمشافہ سات سو احادیث سنیں، امام مالکؒ زبانی بہت کم علم بیان کرتے تھے؛ اگرامام محمدؒ ان کے پاس زیادہ دن قیام نہ کرتے تو یہ چیز ان کو حاصل نہ ہوتی؛ جب کہ وہ امام مالکؒ سے مؤطا کے راوی بھی ہیں، علی بن مدینی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ امام محمدؒ "صدوق" ہیں، دارِقطنی نے فرمایا کہ وہ متروک نہیں ہیں۔ (تعجیل المنفعۃ لابن حجر:۳۶۲،۳۶۱) علامہ نوویؒ نے خطیب بغدادی سے نقل کیا ہے کہ امام محمدؒ نے حدیث کو طلب کیا اور انہوں نے بہت زیادہ احادیث سنیں، وہ فرماتے ہیں کہ جب امام محمدؒ امام مالکؒ کے حوالے سے حدیث بیان کرتے توان کا گھر کثرت اژدہام کی وجہ سے بھرجاتا، لوگ اس قدر جمع ہوجاتے کہ جگہ تنگ پڑجاتی (تہذیب الاسماء واللغات:۳۰) امام محمدؒ کی توثیق ابن خلکان، یافعی، سمعان، ذہبی وغیرہ نے بھی کی ہے۔ (الفوائد البہیۃ:۶۶) امام زفر رحمۃ اللہ علیہ امام زفرؒکا شمار بھی امام ابوحنیفہؒ کے مخصوص شاگردوں میں ہوتا ہے، آپ بھی حافظِ حدیث تھے، ابواسحاق شیرازی فرماتے ہیں کہ امام زفرؒ اصحاب حدیث میں تھے (طبقات الفقہاء:۲/۴۶۰) میزان میں ہے کہ آپ صدوق تھے اور بہت سے لوگوں نے آپ کوثقہ کہا ہے، ابن معین نے بھی آپ کو ثقہ کہا ہے، ابونعیم فضل بن دکین کے پاس جب امام زفرؒ کا تذکرہ ہوا توآپ نے فرمایا کہ وہ ثقہ اور مامون ہیں، امام زفرؒ سے ابونعیم اور مسلم بن ابراہیم نے روایت کی ہے؛ اسی طرح حکیم بن ایوب اور نعمان بن عبدالسلام نے بھی ان سے روایت کیا ہے، علامہ ابن حجرؒ نے فرمایا ہے کہ ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے اور فرمایا وہ متقن اور حافظ تھے۔ (میزان:۲/۴۷۶۔۴۷۸) عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ امام ابو حنیفہؒ کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں، ان کا بھی علم حدیث میں بڑا مقام تھا، آپ کے اساتذہ میں نامور محدثین مثلاً سلیمان تمیمی، عاصم احول، حمید طویل، خالد حزاء، یزید بن عبداللہ بن ابی بردۃ وغیرہ ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی:۱/۲۵۳) اور آپ کے شاگردوں میں عبدالرحمن بن مہدی، یحییٰ بن معین، حبان بن موسیٰ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ان کے بھائی عثمان، احمدبن منبع، احمد بن حنبلؒ وغیرہ حضرات قابل ذکر ہیں؛ نیز ان سے محمدحسن نے بھی روایت کی ہے۔ (مقدمہ:۲/۸۲) حضرت ابواسامہؒ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارکؒ امیرالمؤمنین فی الحدیث تھے، ابن معینؒ کا کہنا ہے کہ وہ ثقہ اور متقن تھے، حضرت عباس بن مصعبؒ کہتے ہیں کہ ان کے اساتذہ میں سے آٹھ سوشیوخ مجھے ملے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۲۵۴،۲۵۶) یحییٰ بن زکریا بن أبی زائدہ رحمۃ اللہ علیہ علامہ ذہبیؒ کا کہنا ہے کہ یہ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد ہیں، جو حافظ ومتقن ہیں، انہوں نے اپنے والد، عاصم احول، داؤد بن ابی ہند، ہشام بن عروۃ، عبیداللہ بن عمر، لیث بن سعد، وغیرہ حضرات سے روایت لی ہے، علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ سفیان ثوریؒ کے بعد کوفہ میں یحییٰ بن زکریا سے "اثبت" کوئی نہ تھا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۴۶،۲۴۷) ابوحاتم فرماتے ہیں کہ وہ مستقیم الحدیث، ثقہ اور صدوق تھے، امام نسائی اور امام عجلیؒ نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۸۵،۸۶) یحییٰ بن سعید قطانؒ یہ بھی حضرت امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں ہیں، ابن حبانؒ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے میں حافظہ، ورع، علم، سمجھ، فضیلت اور دیانت میں نمایاں مقام رکھتے تھے، ثقہ کے کھود کرید اور ضعیف راوی کو چھوڑنے میں انہوں نے بہت مبالغہ کیا ہے، ان سے امام احمد، یحییٰ بن معین، علی بن مدینی نے علم حدیث حاصل کیا، ابن سعد نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں، مامون اور صاحب حجت تھے، امام عجلیؒ نے فرمایا وہ بصری اور ثقہ فی الحدیث تھے، وہ صرف ثقہ سے روایت لیتے تھے، ابوزرعہ، ابوحاتم اور امام نسائی نے بھی ان کو ثقہ کہا ہے، اسحاق بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں نے یحییٰ قطان کو دیکھا کہ وہ عصر کی نماز پڑھ کر ٹیک لگاکر بیٹھ جاتے اور علی بن مدینی، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، شاذکوفی، عمرو بن علی ان سے حدیث حاصل کرتے تھے اور یہ حضرات ان کی ہیبت کی وجہ سے کھڑے رہتے۔ (تہذیب:۱۱/۲۱۹،۲۲۰) وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ امام ذہبیؒ نے فرمایا ہے کہ وہ حدیث کے امام، حافظ اور عراق کے محدث تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸۲) ابن معین کا کہنا تھا کہ میں نے وکیع سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا، وہ امام ابوحنیفہؒ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے؛ انہوں نے امام صاحب کی ساری احادیث کو حفظ کرلیا تھا، آپ نے امام صاحب سے نوسواحادیث روایت کی ہیں، قاضی صمیری نے ان کو ان لوگوں میں ذکر کیا ہے جو امام صاحبؒ سے علم حاصل کرتے اور ان کے قول پر فتویٰ دیتے تھے۔ (الجواھرالمضییۃ:۲/۲۰۸) یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں کہ وکیعؒ اپنے زمانے میں ایسے ہیں جیسے امام اوزاعیؒ اپنے زمانے میں تھے، امام احمدؒ نے فرمایا: میں نے وکیعؒ سے زیادہ حافظ حدیث کسی کو نہیں دیکھا، وکیع کے زمانے میں ان سے زیادہ فقیہ اور حدیث کا جاننے والا کوئی نہ تھا۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۳/۸۷،۸۸) حفص بن غیاث رحمۃ اللہ علیہ امام ذہبیؒ نے فرمایا: حفص بن غیاث امام حافظ حدیث تھے، انہوں نے اپنے دادا طلق بن معاویہ، عاصم احول، ہشام بن عروہ، اعمش، عبیداللہ، ابن عمر اور بہت سے حضرات سے روایت لیے ہیں، خودان سے ان کے صاحبزادے عمرو بن حفص، احمد، اسحاق، علی بن مدینی اور ابن معین وغیرہ نے روایت لی ہے، یحییٰ قطانؒ نے فرمایا:اعمش کے شاگردوں میں حفص سب سے زیادہ ثقہ راوی ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۴) حافظ مزنی رحمہ اللہ نے حفص بن غیاث کو امام صاحبؒ کے شاگردوں اور ان کے راویوں میں شمار کیا ہے (مقدمہ:۳/۸۹) خطیبؒ نے فرمایا: حفص حافظ حدیث اور "ثبت" تھے، یحییٰ بن معین وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے۔ (طبقات الحنفیہ:۱/۲۲۲،۲۲۳) مسعر بن کدام رحمۃ اللہ علیہ آپ بھی امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں ہیں، امام ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں فرمایا ہے کہ وہ امام حافظ اور بڑے لوگوں میں سے تھے؛ انہوں نے علی بن ثابت، حکم بن عتبہ، قتادہ، عمروبن مرہ، وغیرہ سے حدیث روایت کی ہے اور خود ان سے سفیان بن عیینہ، یحییٰ قطان، محمدبن بشر، یحییٰ بن آدم، ابونعیم اور بہت سے لوگوں نے روایت لی ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۷۔ مقدمہ:۸۹) یحییٰ قطان نے فرمایا: میں مسعر سے زیادہ "اثبت" کسی کو نہیں دیکھا، امام احمدبن حنبلؒ نے فرمایا: مسعر ثقہ ہیں، امام وکیع نے فرمایا: مسعر کا شک دوسروں کے یقین کی طرح ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۷) سفیان ثوریؒ سے مسعر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: مسعر اعلی اسناد اور صحیح حدیث والے ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۱۵) مکی بن ابراہیم بلخی رحمۃ اللہ علیہ یہ بھی امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد ہیں، انہوں نے یزید بن أبی عبید، جعفر صادق،بہز بن حکیم، ہشام بن حسان، ابن جریج اور بہت سے حضرات سےحدیث لی ہے اور ان سے امام بخاری، احمد بن معین، ذہلی، عباس دوری وغیرہ روایت کرتے ہیں، عبدالصمد بن فضل بلخی نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے سترہ تابعین سے حدیث لکھی ہے، ابن سعد اور دارِقطنی فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ اور مامون ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۲) امام مزنی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہؒ کے راویوں میں ان کا تذکرہ کیا ہے (تبییض الصحیفۃ:۱۳۰) وہ امام بخاری کے بڑے شیوخ میں سے ہیں، اکثر ثلاثیات بخاری انہی سے مروی ہیں۔ (مقدمہ اعلاء السنن:۳/۹۱) ابوعاصم نبیل رحمۃ اللہ علیہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: وہ حافظ حدیث اور شیخ الاسلام تھے؛ انہوں نے جعفر بن محمد، یزید بن ابی عبید، سلیمان تیمی، ابن جریج، بہزبن حکیم وغیرہ بڑے بڑے محدثین سے حدیث سنی ہے او ران سے احمد، بندار، دارمی، بخاری وغیرہ نے روایت کی ہے، وہ ہمیشہ اپنے حافظہ سے حدیث بیان کرتے تھے، عمرو بن شیبہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم میں نے ان کے جیسا کسی کو نہیں دیکھا، ابن سعدؒ نے فرمایا ثقہ اور فقیہ تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۱۴) ابوعاصمؒ بھی امام بخاریؒ کے اساتذہ میں ہیں، بعض ثلاثیات ان سے بھی مروی ہیں، امام مزنی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں ان کو بھی شمار کیا ہے۔ (تبییض الصحیفۃ:۱۲) فضل بن دکین رحمۃ اللہ علیہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ فضل بن دکینؒ حافظِ حدیث تھے؛ انہوں نے اعمش، زکریا بن ابی زائدہ، عمروبن ذر، شعبہ اوردیگر محدثین سے حدیث سنی ہے اور ان سے امام احمد، اسحاق، یحیی بن معین، ذہلی، بخاری، دارمی وغیرہ نے روایت کی ہے، امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ وہ رجال اور ان کے انساب کو زیادہ جانتے تھے، احمد بن صالح نے فرمایا کہ میں کسی محدث کو ابونعیم سے زیادہ سچا نہیں دیکھا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۸) امام ترمذیؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے راویوں میں ان کا بھی ذکر کیا ہے۔ (تبییض الصحیفۃ:۱۳) فضل بن موسی سینانی رحمۃ اللہ علیہ امام ذہبیؒ نے ذکر کیا ہے کہ آپ حافظِ حدیث تھے؛ انہوں نے ہشام بن عروۃ، خثم بن عراک، معمر، حسین معلم اور ان کے طبقات سے روایت لی ہے او ران سے روایت کرنے والے اسحاق بن راہویہ، علی بن حجر، علی بن خشرم، محمد بن غیلان وغیرہ ہیں، امام وکیعؒ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ ثقہ صاحب سند تھے، اسحاق بن راہویہ نے یہ فرمایا کہ میں فضل بن موسیٰ سے زیادہ ثقہ راوی اپنے علم کے مطابق کسی کو نہیں دیکھا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۳) امام مزنی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ (تبییض الصحیفۃ للسیوطی:۱۳) سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ امام ذہبیؒ نے فرمایا کہ وہ شیخ الاسلام اور سیدالحفاظ ہیں؛ انہوں نے اپنے والد زبید بن حارث، حبیب بن ابی ثابت، اسود بن قیس، زیاد بن علاقہ، محارب بن دثار وغیرہ سے حدیث حاصل کی ہے اور ان سے روایت کرنے والے ابن مبارکؒ، یحییٰ قطانؒ، ابن وھبؒ، وکیعؒ، فریابیؒ، قبیصہؒ، ابونعیمؒ ہیں، شعبہ اور یحییٰ بن معین نے فرمایا: سفیان امیرالمؤمنین فی الحدیث تھے، امام احمد فرماتے ہیں: میرے دل میں ان سے بہتر کوئی نہیں گذرا، قطان فرماتے ہیں میں نے ان سے زیادہ حافظہ والا نہیں دیکھا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۱) وہ اس جلالت شان اور علومرتبت کے باوجود امام ابوحنیفہؒ سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ ابن حجر مکیؒ نے فرمایا: یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا کہ کیا سفیان ثوریؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! وہ فقہ اور حدیث میں صدوق اور ثقہ تھے (الخیرات الحسان:۳۱) ابن عبدالبرؒ نے علی بن مدینیؒ کا قول نقل کیا ہے کہ ابوحنیفہؒ سے ثوری نے روایت کیا ہے، وہ ثقہ لابأ س بہ ہیں۔ (التعلیق الحسن للنیموی:۱/۸۸) ابراہیم بن طہمان رحمۃ اللہ علیہ آپ نے سماک بن حرب، عمروبن دینار، ابوحمزہ، ثابت بنانی سے حدیث حاصل کی ہے اور آپ سے روایت کرنے والے ابن مبارک، معن بن عیسیٰ، ابوحذیفہ نہدی وغیرہ ہیں اور ان کے شیوخ میں صفوان بن سلیم اور امام ابوحنیفہؒ ہیں، اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں کہ وہ صحیح الحدیث تھے، خراسان میں ان سے زیادہ حدیث والا کوئی نہیں تھی، ابوحاتم نے فرمایا وہ ثقہ ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۹) امام مزنی رحمہ اللہ نے انہیں امام ابوحنیفہؒ کے راویوں میں ذکر کیا ہے۔ (تبییض الصحیفۃ للسیوطی:۱۱) جریر بن عبدالحمید رحمۃ اللہ علیہ آپ نے منصور بن معتمر، حصین بن عبدالرحمن، اعمش اور بہت سے لوگوں سے حدیث سنی ہے اور ان سے روایت کرنے والے علی بن مدینیؒ، اسحاق، قتیبہ، احمد بن حنبل وغیرہ ہیں، ان کی ثقاہت، حافظہ اور علم میں گہرائی کی بنیاد پر محدثین حضرات سفر کر کے ان کے پاس آتے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۰) جامع المسانید میں ہے کہ وہ ان حضرات میں سے ہیں جو امام ابوحنیفہؒ سے روایت کرتے تھے۔ (جامع المسانید:۲/۴۲۰) یزید بن ہارون واسطی رحمۃ اللہ علیہ آپ نے عاصم احول، یحییٰ بن سعید، سلیمان تیمی، داؤد بن ابی ہند اور دیگر حضرات سے روایت سنی ہے، آپ کے شاگردوں میں احمد، ابن مدینی، ابوبکر بن ابی شیبہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں، ابن مدینی نے فرمایا: ابن ہارون سے زیادہ حافظہ والا میں نے نہیں دیکھا، امام احمدؒ نے فرمایا وہ ثقہ اور متقن تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۲۹۲۔۲۹۳) امام مزنی رحمہ اللہ نے ان کو بھی امام ابوحنیفہؒ کے راویوں میں ذکر کیا ہے۔ (تبییض الصحیفۃ للسیوطی:۱۳) عبداللہ بن یزید مقری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے اساتذہ میں امام ابوحنیفہ، ابن عون، شعبہ وغیرہ ہیں، صحاحِ ستہ میں ان کی احادیث ہیں، آپ کے شاگردوں میں امام احمد، بخاری، اسحاق اور دوسرے حضرات شامل ہیں، امام نسائی وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے (مقدمہ:۳/۹۷) امام مزنی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہؒ کے راویوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ (تبییض الصحیفۃ للسیوطی:۱۲) علی بن مسہر رحمۃ اللہ علیہ آپ کے اساتذہ داؤد بن ابی ہند، زکریا بن ابی زائدہ، عاصم احول وغیرہ ہیں اور شاگردوں میں بشر بن آدم، سوید بن سعد، ابن ابی شیبہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں، عجلی نے فرمایا کہ وہ ثقہ ہیں، یحییٰ بن معین نے کہا کہ وہ "ثبت" ہیں، ان سے امام بخاریؒ ومسلمؒ وغیرہ نے روایت کی ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶۸) حمیری نے فرمایا کہ ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں علی بن مسہر ہیں، یہ وہ شخص ہیں جن سے سفیان ثوریؒ نے ابوحنیفہؒ کا علم حاصل کیا اور ان سے ایک کتاب لکھی۔ (الجواہر المضییۃ:۱/۳۷۸) قاسم بن معین بن عبدالرحمن مسعودی رحمۃ اللہ علیہ امام ذہبیؒ نے یہ لکھا ہے کہ ان کے اساتذہ میں عبدالملک بن عمیر، منصور بن معمر، ہشام بن عروہ وغیرہ ہیں اور ان کے شاگردوں میں عبدالرحمن بن مہدی، ابونعیم، ابوغسان ہندی وغیرہ داخل ہیں، ابوحاتم نے فرمایا: وہ ثقہ تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ حدیث روایت کرنے والے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲) امام نسائی نے امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں ان کا شمار کیا ہے۔ (کتاب الطبقات:۳۵) حماد بن زید رحمۃ اللہ علیہ آپ ابوعمران جونی، انس بن سیرین، عمرو بن دینار، ثابت بنانی سے حدیث حاصل کی ہے اور آپ سے حدیث حاصل کرنے والوں میں عبدالرحمن بن مہدی، مسدد، علی بن مدینی اور دیگر حضرات ہیں، ابن مہدی نے فرمایا: میں نے ان سے زیادہ سنت کو جاننے والا کسی کو نہیں دیکھا، یحییٰ بن معین کا کہنا ہے کہ حماد بن زید سے زیادہ اثبت کوئی نہیں ہے، ابوحاتم بن حبان نے فرمایا کہ انہوں نے ساری احادیث کو یاد کرلیا تھا، ابن خراش فرماتے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی حدیث میں غلطی نہیں کی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۱۱،۳۱۲) حدیث میں اتنے بڑے مقام اور حافظہ کے باوجود انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی شاگردی اختیار کی، قرشی فرماتے ہیں کہ انہوں نے امام ابوحنیفہؒ سے فقہ حاصل کیا۔ (الجواہرالمضیٔہ:۱/۲۵۵) مغیرۃ بن مقسم ظبی رحمۃ اللہ علیہ ذہبی نے ذکر کیا ہے کہ وہ حافظ حدیث ہیں؛ انہوں نے ابووائل، شعبی، ابراہیم نخعی اور بہت سے حضرات سے روایت لی ہے اور ان سے روایت کرنے والے شعبہ، ثوری، زائدہ، اسرائیل وغیرہ ہیں، امام احمد نے فرمایا کہ وہ ذہین، حافظ اور صاحب سنت تھے، احمد عباس نے بھی ثقہ کہا ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱۳۵) اور جامع المسانید میں ہے کہ وہ اعلیٰ مقام رکھتے اور امام ابوحنیفہؒ سے سترہ سال پہلے انتقال کرجانے کے باوجود مسانید میں ان سے روایت کی ہے (جامع المسانید:۲/۵۵۵) یحییٰ بن معین نے فرمایا کہ وہ ثقہ اور مامون ہیں، ان سے ایک جماعت نے روایت کی ہے۔ (الجواہر المضییۃ:۲/۱۷۹) فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ انہوں نے منصور بن معتمر، بیان بن بشر، عطاء بن سائب اور ان کے طبقات سے کوفہ میں روایت کی ہے اور ان سے روایت کرنے والے ابن مبارک، یحییٰ قطان، امام شافعیؒ وغیرہ ہیں، ابن سعد نے فرمایا کہ آپ ثقہ اور کثیرالحدیث تھے، امام نسائی نے بھی ان کو ثقہ فرمایا ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۲۶) اتنے مرتبے کے باوجود انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی شاگردی اختیار کی ہے،صمیری نے امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں ان کا شمار کیا ہے۔ (مناقب القاری:۳۸۹) معانی بن عمران موصلی رحمۃ اللہ علیہ علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ ان کے اساتذہ میں ابن جریج، سعید بن ابی عروبہ اوزاعی اور دیگر نامور محدثین شامل ہیں اور ان کے شاگردوں میں بشر حافی، محمدبن جعفر، ابراہیم بن عبداللہ وغیرہ ہیں، ابنِ معین نے انہیں ثقہ کہا ہے، ابن سعد کا کہنا ہے کہ وہ ثقہ صاحب فضل اور صاحب سنت تھے، ثوریؒ نے ان کا نام "یاقوت العلماء" رکھا تھا، بشر نے فرمایا: امام بخاریؒ، ابوداؤدؒ اور نسائی رحمہ اللہ نے ان سے روایت لی ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶۴) مزنی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ (تبییض الصحیفۃ للسیوطی:۱۳) عبدالرزاق بن ہمام رحمۃ اللہ علیہ یہ صنعاء نامی مقام کے رہنے والے تھے، ان کے اساتذہ حدیث میں عبیداللہ بن عمر، ابن جریج، معمر، اوزاعی، ثوری وغیرہ ہیں اور ان سے روایت کرنے والے امام احمد، اسحاق، ابن معین، ذہلی اور ان کے علاوہ بہت سے حضرات ہیں، امام احمد نے فرمایا: عبدالرزاق معمر کی حدیث یاد کیا کرتے تھے، کئی حضرات نے ان کی توثیق کی، ان کی حدیث صحاحِ ستہ میں بھی ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۱) ملاعلی قاری نے کردری سے نقل کیا ہے کہ وہ امام صاحب سے بہت سی روایات نقل کرتے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۵۵۰) مزنی رحمہ اللہ نے بھی امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں میں شمار کیا ہے۔ (تبییض الصححیفۃ:۱۲) عبدالحمید بن عبدالرحمن حمانی رحمۃ اللہ علیہ انہوں نے اعمش، سفیان ثوریؒ، سفیان بن عیینہ اور امام ابوحنیفہؒ سے روایت کی ہے اور ان سے روایت لینے والے ابوبکر، عثمان بن ابی شیبہ، سفیان بن وکیع وغیرہ ہیں، ابن معین نے انہیں ثقہ کہا ہے، ابن قانع نے بھی ان کی توثیق کی ہے (تہذیب التہذیب:۶/۱۳۰) ان کے علاوہ عمروبن ہشیم، مالک بن مغول، ابوحمزہ سکری، محمدبن عبداللہ وغیرہ جو امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ میں سے ہیں، یہ حضرات بھی علم حدیث میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ یہ چند نام بطورِ مثال ذکر کئے گئے ہیں؛ ورنہ امام ابوحنیفہؒ کے بے شمار شاگرد ہیں؛ جنہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی شاگردی علم حدیث میں اختیار کی ہے اور جو کبارِمحدثین میں شمار ہوتے ہیں؛ لہٰذا یہ کہنا کہ امام ابوحنیفہؒ کو علم حدیث سے بہت کم واسطہ تھا اور وہ اس میدان کے شہسوار نہیں تھے، یہ یاتو عدمِ واقفیت کی بناء پر ہے یاپھرتعصب وعناد کی وجہ سے؛ کیونکہ تفصیل مذکور سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کو حدیث میں نمایاں مقام حاصل تھا اور وہ حضرات علمِ حدیث میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔