انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دسویں شہادت (۱۰)"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا"۔ (الاحزاب:۲۱) ترجمہ: بے شک تم لوگوں کے لیے اس رسول میں ایک عمدہ نمونہ موجود ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کے پاس حاضر ہونے کا یقین اورآخرت کے دن کی امید رکھتا ہو اورخدا کو کثرت سے یاد کرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہر کار خیر میں نمونہ ٹھہرے تو اب مومن کا ہر کام رسول مقبولﷺ کی تابعداری سے مشروط ہوگیا، نماز و زکوٰۃ کی ہر ادا عمل رسول اورحکم رسول کے تحت آگئی، نماز کا طریقہ اورزکوۃ کا نصاب کسےمعلوم تھا؟ ان احکام پر عمل کی راہیں کس مسلمانوں کو معلوم تھیں؟ ظاہرہے کسی کو معلوم نہ تھیں، یہ عمل رسول اورحکم رسول ہی تھا جسے نماز اورزکوٰۃ کو لائق عمل بنایا، اطاعت رسول کے بغیر یہ دونوں حکم ناقابل عمل تھے،اس لیے نماز اورزکوٰۃ کے ساتھ اطاعت رسول کی ہدایت کی گئی۔ "وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ"۔ (النور:۵۶) ترجمہ :اور نماز قائم کرو اورزکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی فرمانبرداری کر؛ تاکہ تم پر مہربانی ہو۔ یہاں اطیعواللہ کا ذکر نہیں، اللہ کے دو حکم نماز اورزکوٰۃ کے مذکور تھے، ان پر عمل کی راہ بجز اطاعت رسول کے کوئی نہ تھی،اس لیے اس آیت میں صرف اطیعوالرسول کہا؛ تاکہ نماز اورزکوٰۃ کی راہ تمھیں معلوم ہوجائے معلوم ہوا جس طرح نماز وزکوٰۃ خدا کے حکم ہیں، اطاعت رسول بھی اسی طرح بالاستقلال ایک حکم ہے۔ آیت "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ" اپنے عموم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کو شامل ہے اورآپﷺ اپنے تمام اقوال و اعمال میں ہمارے لیے عمدہ نمونہ ہیں،اس پر صحابہ کرامؓ اوراکابر تابعین کی نہایت عمدہ شہادتیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ حضرت قتادہؓ (۱۱۸ھ) کہتے ہیں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے،یمنی چادر کے استعمال سے منع کرنا چاہا،ایک شخص نے کہا: کیا اللہ تعالی نے نہیں فرمایا "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَة" فرمایا: کیوں نہیں؟ (آپ اس کپڑے کو کسی اورمصلحت سے منع کرنا چاہتے تھے یہ نہیں کہ اسے ناجائز سمجھتے تھے) اس پر آپ نے اس ارادے کو ترک فرمادیا۔ (المصنف لعبدالرزاق:۱/۳۸۲،حدیث نمبر:۱۴۹۳) ۲۔ یعلی بن امیہ حنظلی صحابی کہتے ہیں : میں عمرؓ کے ساتھ طواف کررہا تھا،آپ نے حجر اسود کو بوسہ دیا، میں بیت اللہ کی جانب تھا اورحضرت عمرؓ میرے ساتھ ساتھ تھے جب ہم رکن غربی کے پاس پہنچے تومیں نے آپ کا ہاتھ کھینچا کہ آپ رکن غربی کا استلام کریں، آپ نے پوچھا تجھے کیا ہوا، میں نے کہا: کیا آپ استلام نہیں کریں گے؟ آپ ؓ نے فرمایا: کیا تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طواف نہیں کیا؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ تونے آپ کو ان غربی رکنوں کا استلام کرتے دیکھا؟ میں نے کہا نہیں آپ ؓنے فرمایا: "اليس لك في رسول اللهﷺ حسنة ؟ قلت : بلى، قال : فابعد عنك"۔ (مصنف عبدالرزاق:۸/۴۶۰۔ مسنداحمد، حدیث یعلی بن امیۃ، حدیث نمبر:۱۷۹۸۰، صفحہ نمبر:۴/۲۲۲، شاملہ) ترجمہ: کیا تمہارے لیے حضورﷺ کی ذات گرامی میں اسوۂ حسنہ نہیں؟ میں نے کہا کیوں نہیں! آپ نے فرمایا: پھر اس سے دوررہو۔ ۳۔ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے زیادہ قرآن سمجھنے والا کون ہوگا، آپ سے زیادہ قرآن کریم کے سیاق و سباق پر کس کی نظر تھی،آپ نے جب یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ اگر کوئی شخص قسم کے ساتھ اپنے اوپر وہ چیز حرام کرے جو اللہ نے اس کے لیے حرام نہیں فرمائی تو اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا، یہ کفارۂ یمین ہے، وہ چیز اس پرحرام نہ ہوسکے گی، اس پر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔ (بخاری:۲/۷۲۹) ۴۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے یہ بھی فرمایا: "من نذر أن ينحر نفسه أو ولده، فليذبح كبشا،ثم تلا لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة"۔ (مصنف عبدالرزاق:۴۶۰/۸) ترجمہ: جس نے نذر مانی کہ اللہ کے لیے اپنے آپ کو یا اپنے بیٹے کو ذبح کرے گا اسے اس کے لیے ایک مینڈھا قربانی میں دینا ہوگا (اپنے آپ کو یا اپنے بیٹے کو ذبح نہ کرے) اس پر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔ ۵۔ اسوۃ الکاملین عمدۃ العارفین حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سفر میں تھے، آپ نے بعض لوگوں کو سفر میں سنتیں پڑھتے دیکھا،آپ نے پوچھا یہ کیا پڑھ رہے ہیں؟ عرض کیا گیا سنتیں پڑھ رہے ہیں،آپ نے کہا: اگر تم کوسنتیں پڑھنی ہوتیں تو فرض نماز میں قصر کا حکم کیوں ہوتا؟۔ "حججت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان لايسبح بالنهار، وحججت مع أبي بكر، فكان لايسبح بالنهار، وحججت مع عمر، فكان لايسبح بالنهار، وحججت مع عثمان، فكان لايسبح بالنهار، ثم قال ابن عمر: لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة"۔ (مصنف عبدالرزاق:۵۵۷/۲) ترجمہ: میں نے حضورﷺ کے ساتھ سفر حج کیا ہے، آپ دن کو سنتیں نہ پڑہتے تھے، میں نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ بھی حج کیا ہے، آپ بھی دن کو سنتیں نہ پڑہتے، میں نے حضرت عمرؓ کے ساتھ حج کیا، وہ بھی دن کو سنتیں نہ پڑہتے تھے، میں نے حضرت عثمانؓ کے ساتھ بھی حج کیا، وہ بھی دن کو سنتیں نہ پڑہتے تھے،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔ اور ابنِ ماجہ میں ہے: "صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ فِي السَّفَرِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ ثُمَّ صَحِبْتُ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ صَحِبْتُ عُمَرَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ صَحِبْتُ عُثْمَانَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُمْ اللَّهُ وَاللَّهُ يَقُولُ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔ (سنن ابن ماجہ،باب التطوع فی السفر،حدیث نمبر:۱۰۶۱) ترجمہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں، آپ سفر میں ہمیشہ دوگانہ پڑہتے، کچھ اورنہ پڑہتے؛ یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوئی،پھر میں حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ رہا،آپ بھی سفر میں دو رکعت ہی پڑھیں،پھر میں حضرت عثمانؓ کے ساتھ رہا، آپ نے بھی سفر میں دورکعت پر کبھی زیادتی نہ کی؛ یہاں تک کہ یہ سب حضرات دنیا سے اٹھ گئے، اللہ تعالی بجا فرماتے ہیں: بیشک تمہارے لیے حضورﷺ کے عمل میں عمدہ نمونہ موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے صرف حضورﷺ کے عمل کو ذکر نہیں فرمایا، اس عمل کے امت میں باقی رہنے کو بھی ذکر کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ سنت میں تسلسلِ امت سے قوت قائم ہوتی ہے کہ اب اس میں کسی نسخ اورضعف کا احتمال نہیں رہتا۔ ۶۔حضرت نافع کہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس سال جس سال حجاج نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ پر چڑھائی کی حج کے لیے نکلے، آپ سے گذارش کی گئی: جنگ ہونے والی ہے، کہیں آپ اس کی زد میں نہ آجائیں، وہ آپ کو روک نہ دیں، آپ نے فرمایا: "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ إِذًا أَصْنَعَ كَمَا صَنَعَ"۔ (بخاری،باب من اشتری ھدیہ من الطریق وقلدھا،حدیث نمبر:۱۵۹۳) ترجمہ: بیشک تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی ذات عالی میں اسوہ حسنہ (عمدہ نمونہ) موجود ہے، میں اسی طرح کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب وہ یہ حدیبیہ کے مقام پر مکہ جانے سے پہلے روک دیے گئے تھے) کیا تھا۔ ۷۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں ہم نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مسئلہ پوچھا کہ اگر کسی شخص نے عمرہ میں بیت اللہ شریف کا طواف توکرلیا ؛لیکن صفا مروہ کی سعی نہ کی، کیا وہ حلال ہوسکتا ہے؟آپ نے فرمایانہیں حضورﷺ نے طواف کے بعد دورکعت پڑھیں اورساتھ ہی صفا ومروہ کی سعی کی؛ پھرآیت باری: "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ" کی تلاوت فرمائی۔ (بخاری،باب قول اللہ تعالی واتخذوا من مقام،حدیث نمبر:۳۸۱) ۸۔ ایک شخص نے حجراسود کے بوسہ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا، آپ نے فرمایا: میں نے آنحضرتﷺ کو استلام کرتے اور بوسہ دیتے دیکھا ہے،اس نے پوچھا اگر ہجوم زیادہ ہو بھیڑ ہو اوراستلام مشکل ہوتو؟ آپ نے فرمایا: "اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ"۔ (بخاری،باب تقبیل الحضر،حدیث نمبر:۱۵۰۷) ترجمہ: اگر کو تو یمن میں پھینک، میں نے تو حضور اکرمﷺ کوحجر اسود کا استلام کرتے اوربوسہ دیتے دیکھا ہے۔ ۹۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا گیا، ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ہمیشہ روزہ رکھے گا، اتفاق سے اس کےبعد فورا عید آگئی کیا وہ عید کے دنوں میں روزہ رکھے،آپ نے فرمایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید کا روزہ نہ رکھتے تھے، نہ اسے پسند فرماتے تھے،حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس موقعہ پر پھر یہ آیت تلاوت فرمائی "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔ (بخاری:۱/۲۹۲) ۱۰۔ امام زین العابدین نے اپنی ایک صاحبزادی کا نکاح اپنے ایک آزاد کردہ غلام سے کردیا اوراپنی ایک کنیز کو آزاد کرکے خود اس سے نکاح کرلیا، خلیفہ عبدالملک نے انہیں ایک خط لکھا اورخاندانی شرافت یاد کرائی، آپ نے اسے لکھا: "لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة، قد أعتق رسول الله، صلى الله عليه وسلم ، صفية بنت حيي وتزوجها، وأعتق زيد بن حارثة وزوجه ابنة عمته زينب بنت جحش"۔ ترجمہ:لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة:بےشک تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی ذات عالی میں اسوۂ حسنہ موجود ہے ،رسول اللہﷺ نے حضرت صفیہ کو آزاد کیا پھر ان سے نکاح فرمایا اور زید بن حارثہ کو آزاد فرمایا اور ان کا نکاح اپنی پھوپی کی لڑکی حضرت زینب بنت جحش سے فرمایا۔ (الطبقات الکبری لابن سعد،باب ابو سعید بن عبدالرحمن:۵/۲۱۴) اس قسم کی متعدد مثالیں کتب حدیث میں موجود ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ و تابعین نے اس آیت کو کسی ایک واقعہ یاصورت حال سے خاص نہیں کیا؛ بلکہ اسے آنحضرتﷺ کی جملہ تعلیمات وہدایات کے لیے ایک کلیدی آیت سمجھا ہے، آپﷺ کی ساری شریعت اورجملہ اوامر ونواہی اس آیت کے تحت امت کے لیے ایک عمدہ نمونہ عمل ہیں، صحابہ کرامؓ نے آنحضرتﷺ کے ایک ایک عمل کواپنے لیے دلیل قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو دیکھا: حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اورفرماتے ہیں، میں نے اگر حضورﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے ہر گز بوسہ نہ دیتا۔ (صحیح بخاری:۱/۲۱۸) زیاد بن جبیر کہتے ہیں ایک شخص اونٹ کو بٹھا کر نحر کررہا تھا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ وہاں سے گزرے اورآپ نے اسے ایسا کرتے دیکھا، آپ نے فرمایا: اسے کھڑا کرکے نحرکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی تھا۔ (صحیح بخاری:۱/۲۳۱) قرآن کریم کے اس کھلے حکم(کہ حضورﷺ کی ذات گرامی میں تمہارے لیے اسوہ حسنہ اورقابل اعتماد نمونہ ہے ) سے تنگ آکر منکرین حدیث ایک نئی چال چلے اور عمل رسول اور اسوہ رسول میں فرق کردیا، اس موڑ کا سنگ میل حافظ اسلم جیر اجپوری ہیں،وہ کہتے ہیں اسوہ رسول متواتر ہے اور عمل رسول کے لیے متواتر ہونا ضروری نہیں۔ قرآن کریم کی اس آیت (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) کو جس طرح صحابہؓ سمجھے اس کے تحت حضورﷺ کا ہر ہر عمل امت کے لیے قابل اعتماد نمونہ ہے،قرون ثلثہ مشہود لہا بالخیر میں کبھی اس میں کسی قسم کی تفصیل نہیں کی گئی،تمام امور میں آپ کو اسوۂ حسنہ کہا گیا ہے،جو احکام مجمل تھے،حضورﷺ اپنے عمل میں ان کے تشکیل دہندہ تھے، ان تفصیلات کے ثبوت میں تو درجے ہوسکتے ہیں کہ متواتر ہے یا خبر واحد، مگر اس میں کہیں کوئی فرق نہیں ملتا کہ فلاں امور میں عملی تشکیل حضورﷺ کے ذمہ تھی اور فلاں فلاں باتوں کی تفصیل اب مسلمانوں کی مرکزی اسمبلی طے کرے گی،حافظ اسلم صاحب خود لکھتے ہیں۔ بے شک قرآن کریم نے ان تفصیلات کو اپنے ذمہ نہیں لیا؛ مگراس نے اپنے احکام کی عملی تشکیل رسول اللہﷺ کے سپرد کی ہے، وہ عملی نمونے بسلسلہ تواتر چلے آرہے ہیں اوربالکل یقینی ہیں۔ (علم حدیث:۳۴) یہاں سوال یہ ہے کہ جن احکام کی تشکیل آنحضرتﷺ کے سپرد کی گئی تھی وہ شریعت کے کسی خاص بات سے متعلق تھی یاتمام ابواب سے، پہلی صورت میں بتلائیے کہ بقیہ ابواب کی تشکیل آخر کس کے سپرد رہی،جس موضوع کی تشکیل آنحضرتﷺ نے کی(جیسا کہ اسلم صاحب کا خیال ہے نماز وغیرہ کی) تو کیا یہ تمام تشکیل بطریق تواتر ہم تک منقول ہے؟ اگر تمام کی تمام بطریق تواتر منقول نہیں تو جو رہ گئی اس کی تکمیل کی اب کیا صورت آپ تجویز کریں گے؟ کیا یہ حق آپ قومی اسمبلی کودیں گے؟ اورکیا ہر ملک کی قومی اسمبلی اپنے اپنے ہاں ایک امت کے علیحدہ علیحدہ فیصلے کرے گی؟ دوسری صورت میں اگر تمام ابواب عمل کی تشکیل ہم تک بطریق تواتر نہیں پہنچی تو پھر آپ سوچیں کہ آپ کا مفروضہ ہی تو کہیں غلط نہیں ہوگیا جو اسوہ حسنہ کو تواتر سے خاص کررہا ہے ہمارے نزدیک شریعت کی ہر ہر بات کی عملی تشکیل کا تواتر بہت زیادہ تامل کا محتاج ہے،تمام ابواب تو درکنار ایک نماز ہی کو لیجئے، رکعات، فرائض اورقیام و رکوع وسجود کی ترتیب کے علاوہ اس کی کسی ایک صورت عمل کے متعلق تواتر کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ محدث کبیر حضرت مولانا بدر عالم مدنی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بعد لکھتےہیں: نماز کو چھوڑ کر اب ذرا زکوٰۃ کی طرف توجہ فرمائیے، یہاں وہ کون سی تشکیل ہے جس کو عہد نبوت سے لے کر آج تک برابر متواتر کہا جاسکتا ہے،مدتیں ہو گئیں کہ حیوانات کی زکوٰۃ، عشر وخراج کے مسائل کا تخم ہی مٹ چکا ہے؛ حتی کہ آج ہندوستان میں کسی کو یاد نہیں رہا کہ شریعت میں کبھی حیوانات کی زکوٰۃ بھی لی گئی تھی،اکثر مسائل طلاق، عدت، نفقہ وسکنی اور ایلاء کی عملی تشکیل کا حال بھی یہی ہے؛ اسی طرح جہاد کا تمام باب، غنائم کی سب تفصیلات فدیہ اورقیدیوں کے جملہ احکام،تدبیر وکتابت،ام ولد اورعتق کے سب مسائل کا ہندوستان میں نام و نشان تک نابود ہوچکا ہے، تواتر تو کجا، یہی حال معاملات میں بیع و شراء،رہن وقف کا ہے،حدود تعزیرات کا تو (ماسوائے سعودی عرب کے) دینا کے کسی خطہ میں نفاذ ہی نہیں؛ بلکہ خود مسلمان کہلانے والوں کوکفار کی اتباع میں ان کی مشروعیت پر اعتراض ہے، اسلم صاحب تو دین کی بنیاد متواتر اسوہ حسنہ پر قائم کرنا چاہتے ہیں؛ مگریہاں ہمیں تواترکی بجائے آج اس کا وجود ہی نظر نہیں آتا، امت محمدیہ اگر اس اسوہ حسنہ پر تواتر کے ساتھ نہ سہی متفرقاً ہی عمل کرتی تو مسلمانوں کو اپنے زوال کا یہ روز بددیکھنا نہ ہوتا، پس یا تو اسلم صاحب کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ قرآن خود اپنا بیان آپ ہے،اس کو کسی اوربیان کی احتیاج ہی نہیں اور اگر یہ احتیاج مسلم ہے تو پھر اس کوکسی ایک باب کے ساتھ مقید کرنا صحیح نہیں اور اگر مخصوص کیا ہے تو اس کے تواتر کا دعویٰ صحیح نہیں، جو شخص دین کی تشکیل کے متعلق تواتر کا دعویٰ کرنا چاہتا ہے اس کے یہ خوشنما اور خوش کن الفاظ موجودہ دین کی صورت عمل کے لیے تخریب کا کام توکرسکتے ہیں؛ لیکن مسلمانوں کے لیے کسی انداز فکر میں کارآمدنہیں ہوسکتے۔ (ترجمان السنہ:۱/۱۶۷، بتغییر یسیر اسلم صاحب جیراجپوری نے عمل رسول اوراسوۂ رسول میں فرق کرکے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، بلکہ دین کے ثبوت میں تشکیک کے ایسے کانٹے بکھیرے ہیں کہ مسلمانوں کے اس خصوصی امتیاز کو ہی مٹادیا ہے،جو بقول اسپنگر اس امت کو دوسری امتوں کے بالمقابل حاصل تھا۔