انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** علامہ عبدالرحمن ابن الجوزیؒ (م:۵۹۷ھ) ۱۔جس نے ہرکام کے شروع میں اپنی نگاہ بصیرت سے اس کا انجام دیکھ لیا وہ ان کاموں کے خیر کو پا گیا اوران کے شر سے محفوظ رہا اور جس نے انجام کو نہیں سوچا اس پر طبیعت غالب رہی،پھر وہ ان چیزوں سے رنج اٹھاتا ہے جن سے سستی کا طالب ہوتا ہے اوران چیزوں سے مشقت پاتا ہے جن سے راحت کا امیدوار ہوتا ہے۔ (صید الخاطر:۱/۱۵) ۲۔سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ سزا پانے والے کو اس سزا کا احساس نہ ہو اور اس سے سخت یہ ہے کہ ایسے امور پر مسرور ہو جو درحقیقت سزا ہوں جیسے مال حرام کماکر خوش ہو اورگناہوں پر قابو پاکر اترائے اورجس کی یہ حالت ہوجائے وہ کبھی طاعت میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ (صدی الخاطر:۱/۱۷) ۳۔عقل کے کامل ہونے کی علامت یہ ہے کہ انسان بلند ہمت ہو اور جو پستی پر راضی ومطمئن ہو وہ پست حوصلہ ہے۔ (صید الخاطر:۱/۱۸) ۴۔میں نے علماء کے درمیان پائے جانے والے عام مرض حسد کے بارے میں غور کیا تو مجھے اس کا منشاء حب دنیا معلوم ہوئی کیونکہ علمائے آخرت تو آپس میں محبت اور مؤدت کا برتاؤ رکھتے ہیں ایک دوسرے سے حسد نہیں کرتے۔ (صید الخاطر:۱/۲۱) ۵۔میں نے شیطان کا بڑا مکر اوراس کی چالبازی یہ دیکھی کہ وہ ارباب دولت کو طرح طرح کی آرزوؤں میں گھیرے رہتا ہے اورایسی لذات میں مشغول کئے رہتا ہے جو انہیں آخرت کی یاد اوراس کے اعمال سے پھیرے رہیں، پھر جب مال جمع کرنے پر آمادہ کرکے مال سے ان کا تعلق جوڑدیتا ہے تو ان میں بخل پیدا کرنے کے لئے مشورہ دیتا ہے کہ اس کو بچابچا کر خرچ کرو،یہ اس کا مضبوط حیلہ اور قوی مکر ہے۔ (صید الخاطر:۱/۲۸) ۶۔ایک دن اس پر غور کیا کہ انسان کو جس چیز سے روکا جاتا ہے اس کے اندر اس کے کرنے کی حرص پیدا ہوجاتی ہے اوریہ بھی اندازہ ہوا کہ اسے جتنی قوت سے منع کیا جاتا ہے اسی قدر حرص بھی بڑھتی جاتی ہے،جب اس کے سبب کو تلاش کیا تو دو سبب معلوم ہوئے ایک یہ کہ نفس قید پر صبر نہیں کر پاتا وہ تو یونہی جسم کی قید میں ہے پھر جب کسی رکاوٹ کے سبب معنوی قید میں پھنستا ہے تو اس کا طیش بڑھتا ہے،دوسرا سبب یہ ہے کہ نفس کو کسی حکم کے تحت آنا بڑا شاق ہوتا ہے اسی لئے اسے حرام چیزوں میں بہت لذت ملتی ہے اور مباح میں وہ لذت نہیں پاتا۔ (صید الخطاطر:۱/۵۶) ۷۔میں نے اللہ تعالی کی طرف راہ نمائی کرنے والے دلائل پر نظر ڈالی تو انہیں تعداد میں ریت سے زیادہ پایا ان میں ایک دلچسپ دلیل یہ نظر آئی کہ انسان اپنی غلط حرکتوں کو چھپانا چاہتا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ اسے ظاہر فرمادیتے ہیں اگر چہ کچھ مدت بعد سہی اورلوگوں کی زبانوں پر اس کا تذکرہ آجاتا ہے اگرچہ سب نے ان کا مشاہدہ نہیں کیا ہوتا۔ (صید الخاطر:۱/۷۷) ۸۔جو شخص کسی مصیبت اوربلاء میں گرفتار ہو اوراسے ختم کرنا چاہتا ہو وہ اس مصیبت کو اس قدر بڑھا کر تصور میں لائے کہ پیش آمدہ مصیبت ہلکی معلوم ہونے لگے، اسی طرح اس کے ثواب کو سوچے اوراس سے بڑی کسی مصیبت کے آجانے کا تصور کرے تب اسے درپیش مصیبت غنیمت معلوم ہونے لگے گی اوراس کے جلدی ہی ختم ہوجانے کے وقت پر نگاہ رکھے۔ (صید الخاطر:۱/۱۰۱) ۹۔ساری موجودات میں علم سے اشرف کوئی چیز نہیں اور کیوں نہ ہوجبکہ وہی رہبر ہے اورجب نہ ہوگا تو لوگ بھٹک جائیں گے۔ (صید الخاطر:۱/۱۴۰) ۱۰۔مؤ من گناہوں پر اصرار نہیں کرسکتا ہاں کبھی خواہش غالب ہوجاتی ہے اور شہوت کی آگ بھڑک جاتی ہے تو ذرا اپنے مرتبہ سے نیچے اتر آتا ہے؛کیونکہ اس کے پاس ایسا ایمان ہے جو گناہوں سے بغض پیدا کرتا ہے، لہذا نہ اس سے گناہوں کا پختہ ارادہ ہوسکتا ہے اورنہ فراغت کے بعد دوبارہ کرنے کا عزم ہوسکتا ہے،وہ اگر کسی سے ناراض ہوتا ہے تو زیادہ انتقام نہیں لیتا اورلغزشوں سے پہلے ہی توبہ کی نیت رکھتا ہے۔ (صید الخاطر:۱/۱۶۰) ۱۱۔سب سے افضل مشغلہ علم میں اضافہ کرنا ہے کیونکہ جو شخص اپنے علم پر اکتفاء کرلیتا ہے اوراس کو کافی سمجھ لیتا ہے وہ خودرائے ہوجاتا ہے اوراپنی تعظیم اس کے لئے استفادہ سے مانع ہوجاتی ہے،پھر مذاکرہ وبیان کے وقت اس کی خطائیں ظاہر ہوتی ہیں،اب اگر وہ لوگوں کے نزدیک معزز بھی ہو تو دوسروں کو اس کی غلطی پر ٹوکنے کی جرأت نہیں ہو پاتی۔ (لہذا وہ جاہل ہی رہ جاتا ہے) (صید الخاطر:۱/۱۶۱) ۱۲۔میں نے ایک عجیب حالت پر غور کیا وہ یہ کہ مؤمن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ دعاء کرتا ہے پھر مزید الحاح کے ساتھ دعا کرتا ہے لیکن قبولیت کاکچھ اثر نہیں دیکھتا،پھر جب مایوسی کے قریب ہونے لگتا ہے تو اس کے دل کی طرف دیکھا جاتا ہے اگر وہ تقدیر کے فیصلوں پر راضی ہو اوراللہ عزوجل کے فضل سے نا امید نہیں ہوا ہوتا تو اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے، اس لئے کہ یہی وہ موقع ہے جہاں ایمان شیطان کودبادے اورایسے ہی موقع پر لوگوں کے مرتبے ظاہر ہوتےہیں۔ (صید الخاطر:۱/۱۸۰) ۱۳۔سمجھدار شخص ہر حال میں اپنے مولی کا دامن تھامے رہنا چاہیےاور اس کے فضل کے دامن سے لپٹا رہنا چاہئے خواہ کسی نافرمانی کا صدور ہوجائے خواہ کوئی طاعت ہو،خلوت میں اس سے انس حاصل کرنے کی کوشش کرے اوراگر وحشت معلوم ہو تو اس کے سبب کے ختم کرنے کی کوشش کرے۔ (سید الخاطر:۱/۱۸۴) ۱۴۔جس شخص پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں زیادہ ہوں اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ ان میں سے اتنی ہی نعمتوں کا اظہار ہونے دے جتنی خود سے ظاہر ہوجائیں ساری نعمتیں نہ کھول کر رکھ دے، اگرچہ نعمت ودولت کے اظہار میں بڑی لذت ہے؛ لیکن حزم واحتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ظاہر نہ کیا جائے کیونکہ نظر بد کا لگنا حق ہے۔ (صید الخاطر:۱/۱۹۰) ۱۵۔گناہوں کی سچی لذت تو غفلت میں مدہوش شخص ہی پاسکتا ہے،مؤمن کو سچی لذت نہیں مل پاتی کیونکہ معصیت سے لطف اندوزی کے وقت ساتھ ساتھ اس کی حرمت کا علم اور سزا سے بچنے کا خیال بھی تصور میں آجاتا ہے۔ (سید الخاطر:۱/۱۹۰) ۱۶۔ہر سمجھدار شخص کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں کے انجام سے بچنے کی کوشش کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی اورانسان کے درمیان کوئی قرابت اوررشتہ داری نہیں ہے،وہ تو انصاف کی ترازو لگانے والا اورٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے اگرچہ اس کا حلم گناہوں سے بڑھ کر ہے مگر وہ قادر مطلق ہے جب چاہے گا بڑے سے بڑے گناہ معاف کردے گا اور اگر آفت کرنا چاہے گا تو معمولی گناہ پر گرفت فرمالے گا،لہذا اس سے ڈرتے رہو۔ ۱۷۔میں نے بہت سے مال داروں کو دیکھا کہ وہ ظلم اورظاہری وباطنی ہر طرح کے گناہ میں مبتلارہتے ہیں پھر ایسے طریقوں سے برباد کردیئے جاتے ہیں جن کا انہیں تصور بھی نہیں ہوتا، ان کی جڑیں تک اکھڑ گئیں اوروہ تعمیریں ٹوٹ پھوٹ گئیں جن کو انہوں نے اپنی آل اولاد کے لئے بنایا اورمضبوط کیا تھا۔ (صید الخاطر:۱/۱۹۵) ۱۸۔جوان مرد وہ نہیں ہے جس نے امن وسلامتی کے زمانے میں اللہ عزوجل کے ساتھ حسن معاملہ کے ساتھ زندگی گزاری ہاں اگر اس پر مصیبتوں کے ایام میں زمانہ کی گردشیں سہل ہوجائیں تو یہ ہے کسوٹی! بادشاہ مطلق ایک چیز بناتا ہے اوراسے توڑ دیتا ہے کچھ دیتا ہے اوراسے چھین لیتا ہے ایسے وقت میں اس کے ساتھ حسن معاملہ اور اس کے فیصلہ پر رضا مندی سے انسان کا مرتبہ ظاہر ہوگا؛کیونکہ جس پر مسلسل نعمتیں ہی برستی رہتی ہوں وہ نعمتوں کے تسلسل کی وجہ سے راضی اورخوش عیش ہے،اور اگربلاوآزمائش کا اسے ایک جھونکا بھی پہنچ جائے تو وہ اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتا۔ (صید الخاطر:۱/۲۰۲) ۱۹۔علم اوراس کی طرف رغبت اوراس کے شغل کے متعلق سوچا تو اندازہ ہوا کہ اس سے قلب کو ایسی تقویت ملتی ہے جو اسے قساوت کی طرف لے جاتی ہے اورواقعی اگر دل کے اندر وہ قوت اورلمبی آرزوئیں نہ ہوتیں تو علم کا شغل نہایت دشوار ہوتا کیونکہ میں حدیث اس امید پر لکھتا ہوں کہ اس کی روایت کروں گا اورتصنیف اس توقع پر شروع کرتا ہوں کہ اس کو مکمل کرلوں گا، اس کے برخلاف جب عبادت وریاضت کے باب میں غور کرتا ہوں تو آرزوئیں کم ہونے لگتی ہیں دل نرم ہوجاتا ہے آنسو جاری ہوجاتے ہیں مناجات بھلی معلوم ہونے لگتی ہیں سکینہ چھا جاتی ہے گویا میں خدا کے مراقبہ میں پہنچ جاتا ہوں۔ (صید الخاطر:۱/۲۱۴) ۲۰۔مصیبت اورآلام کے ختم ہونے کی مدت اللہ تعالی کے نزدیک متعین ہے،لہذا مبتلاء مصیبت وآلام کو مصیبت کا وقت ختم ہونے تک صبر کرنا چاہیئے اگر وقت سےپہلے چیخنا چلانا شروع کرے گا تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ (صید الخاطر:۱/۲۲۹) ۲۱۔تمام موجودات میں سب سے مشکل چیز صبر ہے جو کبھی محبوب وپسندیدہ چیزوں کے چھوٹنے پر کرنا پڑتا ہے اورکبھی ناپسندیدہ اورتکلیف دہ حالات کے پیش آنے پر،خصوصاً جبکہ تکلیف دہ حالات کا زمانہ طویل ہوجائے اورکشادگی وفراخی سے ناامیدی ہونے لگے،ایسے وقت میں مصیبت زدہ کو ایسے توشہ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے اس کا سفر قطع ہوسکے۔ (صید الخاطر:۱/۲۳۱) ۲۲۔اس شخص کے لئے جس نے کسی تنگی میں مبتلا ہوکر دعا کی ہو مناسب یہ ہے کہ قبولیت اور عدم قبولیت کے متعلق زیادہ خلجان نہ کرے،اس لئے کہ اس کے ذمہ صرف دعا کرنا تھا اب جس سے دعا کی گئی ہے وہ مالک ہے اورحکیم ہے،اگر اس نے دعا قبول نہیں کی تو اپنی ملکیت میں جو چاہا کیا اوراگر تاخیر سے قبول کی تو اپنی حکمت کے تقاضا پر عمل کیا،لہذا اس کے اسرار کے متعلق اس پر اعتراض کرنے والا بندگی کی صفت سے خارج ہے اورحق دار کے مرتبہ سے ٹکرانے والا ہے۔ (صید الخاطر:۱/۲۳۲) ۲۳۔جو اپنی صاف ستھری فکر کو استعمال کرے گا اس کی فکر اسے اعلی مرتبوں کے حاصل کرنے پر ابھارے گی اور کسی بھی حالت میں نقص یعنی کمی پر راضی ہونے سے باز رکھے گی۔ (صید الخاطر:۱/۲۳۶) ۲۴۔ہر طرح کے لوگوں پر اعتماد اورہر طرح کے دوستوں سے بے تکلفی سب سے بڑی حماقت ہے؛ کیونکہ سب سے سخت اورسب سے تکلیف دہ وہ دوست ہوتا ہے جو دشمن ہوگیا ہو اس لئے کہ وہ پوشیدہ رازوں سے واقف ہوتا ہے۔ (صید الخاطر:۱/۲۴۵) ۲۵۔خوب سمجھ لوکہ لوگوں کے اندر دوسروں کی نعمت پر حسد کا جذبہ رکھا گیاہےیا کم از کم رشک اور اپنی رفعت کی خواہش ،لہذا جب وہ شخص جو تمہیں اپنے برابر سمجھتا ہے دیکھے گا کہ تم اس سے اوپر پہنچ گئے ہو تو لا محالہ متاثر ہوگا اورممکن ہے کہ حسد شروع کردے،حضرت یوسف علیہ السلام کا جو واقعہ ہوا وہ اسی قبیل کا ہے۔ (صید الخاطر:۱/۲۴۶) ۲۶۔بعض لوگ ایسے ہیں جو کتابیں اکٹھی کرتے ہیں،انہیں سنتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ ان کتابوں میں کیا ہے نہ ان کی صحت کی خبر رکھتے ہیں اور نہ ان کے معانی سمجھتے ہیں تم انہیں دیکھو گے کہ وہ کہتے ہیں ‘‘فلاں کتاب میری سنی ہوئی ہے اورمیرے پاس اس کا نسخہ موجود ہے اور فلاں فلاں کتاب میرے پاس ہے’’ لیکن جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا ہے ان میں صحیح و سقیم کے امتیاز کے اعتبار سے ان کو کچھ خبر نہیں ہوتی اور ان کتابوں کی مشغولی انہیں اہم علوم کی طرف توجہ سے روکے رہتی ہے۔ (صید الخاطر:۱/۲۵۱) ۲۷۔جس شخص کو یہ پتہ نہ ہو کہ اسے کب موت آجائے گی، اس کو موت کے لئے تیاری کئے رہنا ضروری ہے،جوانی اورصحت سے دھوکہ نہ کھائے؛ کیونکہ بوڑھے ہوکر مرنے والوں کی تعداد کم ہے اور جوانی میں مرجانے والوں کی تعداد زیادہ ہے،اسی لئے بوڑھے لوگ کم ہوتے ہیں۔ (صید الخاطر:۱/۲۸۸) ۲۸۔زمانے کے تجربات نے مجھے بتلایا کہ حتی الامکان کسی سے دشمنی کا اظہار نہ کرنا چاہئے؛ کیونکہ کبھی اس شخص سے ضرورت پیش آسکتی ہے خواہ وہ کسی درجہ کا آدمی ہو۔ (صید الخاطر:۱/۳۲۵) ۲۹۔ہمارے اس دین کے اندر علم اور عمل دونوں طرف سے داخل ہونے والی بدعتوں پر میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ایسے راستوں سے داخل ہوئی ہیں جو ا س دین سے پہلے موجود تھے اور لوگوں کے دل ان سے مانوس تھے؛چنانچہ علم اوراعتقاد میں آنے والی بدعتیں فلسفہ کے راستہ سے آئی ہیں اور عمل کے باب میں داخل ہونے والی بدعتیں رہبانیت کے راستے سے آئی ہیں۔ (صید الخاطر:۲/۱) ۳۰۔میں اس رائے کو درست سمجھتا ہوں کہ تصانیف کا نفع تدریس کے نفع سے زیادہ ہے ؛کیونکہ میں پوری زندگی میں چند ہی طلبہ کو پڑھاسکتا ہوں جبکہ اپنی تصنیفات کے ذریعہ بے شمار مخلوقات کو تعلیم دوں گا جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ لوگ جتنا علم اسلاف کی کتابوں سے پاتے ہیں اتنا اپنے اساتذہ اورمشائخ سے نہیں حاصل کرسکتے، لہذا علم کے لئے مناسب ہے کہ اگر اسے مفید تصنیف کی توفیق ملے تو تصنیف کا کام خوب کرے،مفید کی قید اس لئے زیادہ کردی کیونکہ ہر لکھنے والا شخص مصنف نہیں ہوجاتا ؛کیونکہ مقصود کسی چیز کو صرف جمع کردینا نہیں ہے خواہ کچھ بھی ہو کسی طرح بھی ہو ؛بلکہ مضامین درحقیقت اللہ تعالیٰ کے راز ہوتے ہیں جن پر وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے مطلع کرتا ہے اور اس کو ان کے بیان کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ (صید الخاطر:۲/۴) ۳۱۔تصنیف وتالیف کے لئے درمیانی عمر کو غنیمت سمجھنا چاہئے ؛کیونکہ ابتدائی عمر طلب علم کا زمانہ ہے اورآخر عمر حواس کےبے کار ہوجانے کا وقت ہے۔ (صید الخاطر:۲/۴) ۳۲۔میں نے اچھے اوربُرے لوگوں کے حالات میں غور کیا تو اندازہ ہوا کہ اچھے لوگوں کی نیکی کا سبب عقل و نظر کا استعمال ہے جبکہ بُرے لوگوں کے بگاڑ کی وجہ عقل کا استعمال نہ کرنا ہے۔ (صید الخاطر:۲/۳۵) ۳۳۔عقل مند وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حق کا خیال رکھتا ہے اگرچہ مخلوق ناراض ہی ہوجائے؛کیونکہ جو شخص بھی مخلوق کے حق کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا حق ضائع کردیتا ہے اللہ تعالی اس شخص کے دل جو جس کی رضا و خوشنودی کے لئے ایسا کیا گیا ہے پلٹ دیتے ہیں لہذا وہ خوش ہونے کے بجائے ناراض ہوجاتا ہے۔ (صید الخاطر:۲/۴۲) ۳۴۔سمجھ دار آدمی جو کسی کو اپنا دوست،اپنا ساتھی یا اپنا شریک بنانا چاہتا ہو یا کسی سے نکاح کا ارادہ رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ پہلے اس کے خاندان اورحسب نسب کو دیکھ لے اس کے بعد اس کی شکل وصورت بھی دیکھے؛کیونکہ اچھی صورت باطن کی درستگی پر دلالت کرتی ہے،نسب اورخاندان کا معاملہ تو یہ ہے کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے اور جس کی کوئی اصل نہ ہو اس سے کسی خوبی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ (صید الخاطر:۲/۴۶) ۳۵۔ضروری ہے کہ سمجھ دار آدمی انجام پر نظر رکھنا نہ چھوڑے اورجن چیزوں سے بچنا ممکن ہو ان سے بچنے کی کوشش کرے،یہ بڑی بھول ہے کہ آدمی اپنے جسم کی صحت اوراپنے معاش کی موافقت کو دیکھ کر اسی حالت میں مست ہوجائے کیونکہ یہ چیزیں ہمیشہ نہیں رہ سکتیں اس لئے ان کے ختم ہوجانے کا اندیشہ بھی رکھنا چاہئے اوراحوال کے بدلنے کے لئے تیار بھی رہنا چاہئے۔ (سید الخاطر:۲/۴۸) ۳۶۔میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے راز کے اظہار پر قابو نہیں رکھتے اور جب لوگوں پر ظاہر ہوجاتا ہے تو پھر ان لوگوں پر خفا ہوتے ہیں جن سے اظہار کیا تھا،کیسی عجیب بات ہے کہ خود تو اس کے روکنے پر قادر نہیں ہوسکے اوران کو ملامت کرتے ہیں جنہوں نے اس کو پھیلایا،حدیث شریف میں ہے: ((استیعنوا علی قضاء امور کم بلکتمان)) "اپنے امور کی انجام دہی میں اخفاء اورپوشیدگی کے ذریعہ مدد حاصل کرو" سچی بات یہ ہے کہ نفس پر کسی راز کو چھپائے رکھنا بڑا شاق ہوتا ہے اس لئے وہ اس کے ظاہر کردینے کو راحت خیال کرتا ہے خصوصاً جب کہ بیماری ،غم یا عشق کا معاملہ ہو۔ (صید الخاطر:۲/۵۱) ۳۷۔طالبان دنیا،دنیا کی سچی لذت سے غافل ہیں؛ کیونکہ سچی لذت تو علم کے شرف میں ہے، عفت کی خوبی میں ہے،پرہیز کی خودداری میں ہے،قناعت کی عزت میں ہے اورمخلوق پر احسان وکرم کرنے کی شیرینی میں ہے،رہاکھانے اور نکاح سے لذت کا حصول تو یہ لذت سے ناواقف شخص کا کام ہے ؛کیونکہ نکاح اورکھانا خود مقصود نہیں ہوتے (یعنی ان میں کوئی ذاتی خوبی نہیں ہوتی )؛بلکہ یہ بدن میں طاقت اوراولاد کے لئے ہوتے ہیں۔ (صید الخاطر:۲/۶۱) ۳۸۔لوگوں کے ساتھ اجتماع وہی پسند کرسکتا ہے جو خالی ہو؛ کیونکہ جس کا دل حق تعالیٰ میں مشغول ہوتا ہے وہ مخلوق سے بھاگتا ہے،جب دل اللہ تعالیٰ کی معرفت سے خالی ہوجاتا ہے تو مخلوق کے خیال سے بھر جاتا ہے پھر آدمی مخلوق ہی کے لئے عمل کرتا ہے مخلوق ہی کی وجہ سے کرتا ہے اورریا کے ذریعہ ہلاک ہوجاتا ہے اس حال میں کہ اسے اپنی ہلاکت کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ (صید الخاطر:۲/۸۰) ۳۹۔جب تم اپنے ساتھی کو دیکھو کہ غصہ میں نامناسب باتیں بکنے لگا ہے تو تم کو چاہئے کہ اس کی باتوں کا کچھ لحاظ نہ کرو اور ان باتوں کی وجہ سے اس کا مؤاخذہ بھی نہ کرو؛ کیونکہ اس کی حالت نشہ میں مست آدمی کی طرح ہوگئی ہے اب جو کچھ اس کی زبان پر آرہا ہے اس کو اس کی خبر نہیں ہے ؛بلکہ تم اس کے ابال پر صبر سے کام لو اور اس کو کچھ اہمیت مت دو؛کیونکہ اس پر شیطان غالب آگیا ہے طبیعت میں ہیجان پیدا ہوگیا ہے اورعقل روپوش ہوگئی ہے،اگرتم بھی اس پر غصہ کرنے لگے یا اس کے برتاؤ کے مطابق جواب دینے لگے تو تمہاری مثال اس ذی ہوش کی طرح ہوجائے گی جو کسی پاگل کے منہ لگے یا اس صحت مند کی طرح ہوگی جو کسی بے ہوش پر غصہ کرے لہذا قصور تمہارا ہی ہوگا۔ (صید الخاطر:۲/۸۷) ۴۰۔دنیا میں اس سے بڑا بے وقوف کوئی شخص نہیں ہے جو کسی کے ساتھ کوئی ایسا برا سلوک کرے جس کے بارے میں جانتا ہو کہ اس کی تکلیف اس شخص کے دل میں اتر گئی ہے پھر دونوں بظاہر صلح کرلیں تو یہ شخص دل میں یہ سوچے کہ صلح کی وجہ سے اس بد سلوکی کا اثر مٹ گیا، خصوصاً بادشاہوں کے معاملہ میں یہ سوچ کر مطمئن ہوجانا اول درجہ کی بے وقوفی ہے ؛کیونکہ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص ان سے بلند نہ ہوسکے اوران کی غرض اور خواہش ٹوٹنے نہ پائے، لہذا جب اس طرح کا کوئی معا ملہ ہوتا ہے تو جب تک وہ بدلہ نہ لے لیں ختم نہیں ہوتا۔ (صید الخاطر:۲/۸۸) ۴۱۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی طبیعت میں مال کی محبت داخل ہے ؛کیونکہ مال ہی ان جسموں کے باقی رہنے کا ذریعہ ہے لیکن بعض لوگوں میں مال کی محبت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وسیلہ کے بجائے بذات خود مقصد بن کر رہ جاتا ہے؛چنانچہ تم بخیل کو دیکھتے ہو کہ اپنی ذات پر طرح طرح کی مشقتیں جھیل جاتا ہے؛ لیکن اپنے نفس کو لذتوں سے محروم کئے رہتا ہے ؛بلکہ اس کو ساری لذت مال جمع کرنے میں ملنے لگتی ہے اور یہ صفت بہت سے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ (صید الخاطر:۲/۱۰۰) ۴۲۔میں نے دیکھا کہ تمام فکر وغم کا سبب اللہ تعالیٰ سے بے رخی اوردنیا کی طرف میلان ہے ؛کیونکہ جب بھی دنیا کا کوئی مقصد فوت ہوتا ہے تو اس پر غم ہونے لگتا ہے،لیکن جو شخص اللہ کی معرفت سے حصہ پائے ہوئے ہے وہ ہر حالت میں راحت میں رہتا ہے کیونکہ وہ تقدیر پر راضی رہنے کی وجہ سے دنیا سے بے نیاز ہوجاتا ہے لہذا جب بھی کوئی فیصلہ نافذ ہوا وہ اس پر راضی ہوگیا، اگر دعا کی قبولیت کا اثر نہیں پایا تو اس کے دل میں اعتراض نہیں کھٹکتا، اس لئے کہ وہ ایک مدبر مالک کا غلام ہے لہذا اس کی توجہ خالق کی خدمت اورطاعت ہی میں رہتی ہے۔ (سید الخاطر:۲/۱۶۴) ۴۳۔وہ شخص سب سے بڑا احمق ہے جو صرف موجودہ حالت پر نظر رکھے کہ نہ اس کے بدلنے کا تصور کرے نہ آئندہ پیش آنے والے حالات کو دل میں جگہ دے۔ (صید الخاطر:۲/۱۷۴) ۴۴۔کسی شخص سے اگر تم کسی وجہ سے نفرت کرتے ہو تو اپنی نفرت کو ظاہر نہ ہونے دو؛ کیونکہ پھر تم اس کو اپنےسے محتاط کردو گے اورمقابلہ کی دعوت دے دو گے پھر وہ تم سے جنگ اورتمہارے خلاف سازش شروع کردے گا، اس لئے مناسب یہ ہے کہ اگر تم سے ہوسکے تو اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اورجہاں تک ہوسکے اس کو سابقہ تعلقات پر واپس لانے کی کوشش کرو یہاں تک کہ تمہاری دشمنی سے شرمندہ ہوکر اس کی مخالفت اور دشمنی ٹوٹ جائے اوراگر تم سے نہ ہوسکے تو خوش اسلوبی سے علیحدہ ہوجاؤ یعنی کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے اس کو تکلیف ہو۔ (صید الخاطر:۲/۱۹۳) ۴۵۔جب میں نے غور کیا کہ باوجود اس کے کہ عقیدہ درست ہے اور پھر عمل کیوں سست ہے؟ تو اس کے تین اسباب معلوم ہوئے (۱)ایک تو فوری لذت اور خواہش کی طرف نظر کرنا،کیونکہ لذت پر نظر غلطی کو سوچنے سے روک دیتی ہے . (۲)دوسرا سبب توبہ میں ٹال مٹول ہے؛حالانکہ اگر عقل سے کام لے تو تاخیر کے نقصانات سے بچ جائے؛کیونکہ موت اچانک آپڑتی ہے اورتوبہ حاصل نہیں ہوتی. (۳)تیسرا سبب رحمت کی امید ہے؛چنانچہ گناہ گار سوچتا ہے کہ میرا رب رحیم ہے اوریہ بھول جاتا ہے کہ وہ سخت عذاب والا ہے۔ (صید الخاطر:۲/۲۰۱) ۴۶۔جو شخص چاہتا ہو کہ فکر میں انتشار نہ ہو اور اپنے دل کی اصلاح کرے اس کو زمانہ میں لوگوں کے میل جول سے سخت پرہیز کرنا چاہئے؛کیونکہ پہلے لوگ جو اکٹھا ہوتے تھے تو ایسی چیزوں کا تذکرہ کرتے تھے جو مفید ہوں، لیکن اب صرف وہی باتیں ہوتی ہیں جو نقصان دہ ہوں۔ (صید الخاطر:۲/۲۰۳) ۴۷۔تعجب ہے اس شخص پر جو یہ کہتا ہے کہ میں قبروں میں جاکر گل سڑجانے والے جسموں سے عبرت حاصل کرتا ہوں،حالانکہ اگر سمجھ سے کام لیتا تو اس کو معلوم ہوجاتا کہ وہ خود ایک قبر ہے اورخود اپنے اندر جو عبرت کے مواقع موجود ہیں وہ دوسری چیزوں سے عبرت حاصل کرنے سے بے نیاز کرنے والے ہیں، خاص کروہ شخص جس کی عمر زیادہ ہوچکی ہو،کیونکہ ابھی شہوت کمزور ہوگئی ہے ،طاقت اورقوت گھٹ گئی ہے حو اس سست پڑچکے ہیں،نشاط ختم ہوچکا ہے اوربال سفید ہوچکے ہیں،لہذا اس کو چاہئے کہ خود اپنی ہی کھوئی ہوئی چیزوں سے عبرت پکڑے اورکھوجانے اورختم ہوجانے والے افراد سے بے نیاز ہو جائے؛کیونکہ جو کچھ اس کے پاس موجود ہے اس کے ہوتے ہوئے دوسروں پر نظر ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (صید الخاطر:۲/۲۲۱) ۴۸۔جب عقل کامل ہوجاتی ہے تو دنیاوی لذتیں ختم ہوکر رہ جاتی ہیں،پھر جسم لاغر ہوجاتا ہے،بیماری بڑھ جاتی ہے اورغم زیادہ ہوجاتا ہے،اس لئے عقل جب نتائج کو دیکھتی ہے تو دنیا سے رخ پھر لیتی ہے اورنظر آنے والے منظر کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اس کو وقتی کسی بھی چیز سے لذت نہیں ملتی، لذت تو وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو آخرت سے غافل ہیں، بھلا ان کو کیا لذت جن کی عقل کامل ہے؟ یہی وجہ ہے کہ عقل مند آدمی لوگوں سے میل جول کی سکت نہیں رکھتا؛ کیونکہ عام لوگ اس کو غیر جنس معلوم ہوتے ہیں۔ (صید الخاطر:۲/۲۲۲) ۴۹۔سمجھ دار آدمی کو حتی الامکان احتیاط کرنا چاہئے،پھر اگر احتیاط کے باوجود تقدیر کا فیصلہ غالب آجائے تو کوئی ملامت کی بات نہیں ہے اور احتیاط ہر ایسے خطرہ سے کرے جس کا واقع ہوجانا ممکن ہو؛بلکہ اس کے لئے پہلے سے تیاری رکھنا ضروری ہے۔ (صید الخاطر:۲/۲۳۰) ۵۰۔جب کوئی اہم معاملہ پیش آئے تومہلت کے ساتھ غور وفکر سے زیادہ قابل اعتماد کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ آدمی جب کسی معاملہ میں بغیر انجام کو سوچے سمجھے عمل کرتا ہے عام طور پر شرمندگی پیش آتی ہے،اسی لئے مشورہ کا حکم دیا گیا ہے ،وجہ یہ ہے کہ انسان کو ٹھہر کر کام کرنے کی وجہ سے زیادہ سوچنے کا موقع مل جاتا ہے، جس میں وہ تمام پہلوؤں کو سامنے لاسکتا ہے تو گویا اس نے خود ہی مشورہ کرلیا۔ (صید الخاطر:۲/۲۳۳) ۵۱۔میں نے زیادہ تر لوگوں کی عبادتوں کو غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ عبادت کے بجائے عادت ہیں،جبکہ بیدار طبیعت لوگوں کی عادتیں بھی عبادت ہوجاتی ہیں؛چنانچہ غافل عادتاً "سبحان اللہ" کہتا ہے اورہوش مند عجیب عجیب مخلوقات اورخالق کی عظمت کو سوچتا رہتا ہے،یہاں تک کہ متحیر ہوکر بول اٹھتا ہے، "سبحان اللہ" (صید الخاطر:۲/۲۶۷) ۵۲۔جو شخص بادشاہوں اورحکمرانوں کو نصیحت کرنا چاہے اس کو بے حد نرمی اختیار کرنے کی ضرورت ہے،ان کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کہہ دے،جس سے ان کا ظالم ہونا ظاہر ہو، کیونکہ بادشاہوں کو اپنے دبدبہ اورغلبہ کا بڑا خیال ہوتا ہے، اس لئے اگر ڈانٹ اورتوبیخ سے کام لے گا تو اس میں ان کی ذلت ہے اوروہ لوگ ذلت کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ (صید الخاطر:۲/۲۷۵) ۵۳۔ایک حدیث میں آیا ہے ((اللھم ارنا الاشیاء کما ھی )) "اے اللہ ! ہم کو تمام چیزوں کی حقیقت دکھادے"یہ جملہ نہایت عمدہ ہے اوریہ دعا بہت اہم ہے کیونکہ اکثر لوگ چیزوں کی حقیقت اوران کی صحیح معرفت نہیں رکھتے ،جو چیز فنا ہوجانے والی ہے،اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرتےہیں جیسے وہ باقی رہنے والی ہے اوریہ خیال بھی نہیں لاتے کہ جن دنیاوی نعمتوں میں وہ پل رہے ہیں وہ کبھی زائل بھی ہوجائیں گی، اگرچہ اس کا علم رکھتے ہوں مگر محسوسات کو دیکھنے والی نگاہ موجود کو دیکھنے میں مشغول رہتی ہے۔ (صید الخاطر:۲/۲۹۵) ۵۴۔کسی کی بڑبڑاہٹ سن کر یا اس کو نماز،روزہ اورصدقہ و خیرات کرتے ہوئے اورمخلوق سے کنارہ کش دیکھ کر دھوکہ نہ کھانا چاہئے، "مرد کامل" وہی ہے جو دو باتوں کی رعایت کرتا ہو، ایک تو"حدود کی حفاظت" دوسرے عمل میں"اخلاص"۔ (صید الخاطر:۲/۳۰۳) ۵۵۔مومن کا ایمان آزمائش کے وقت ظاہر ہوتا ہے؛ کیونکہ اس وقت خوب دعائیں کرتا ہے؛ لیکن قبولیت کا اثر نہیں دیکھتا تو اس یقین کی وجہ سے کہ اللہ تعالی مصلحتوں سے زیادہ واقف ہیں نہ اس کی امید ختم ہوتی ہے اور نہ تمنا میں فرق آتا ہے اگرچہ مایوسی کے اسباب بہت قوی ہوں، یا یہ سوچتا ہے کہ مجھ سے صبر یا ایمان کا امتحان مقصود ہے جس ذات نے اس آزمائش کا فیصلہ کیا ہے وہ مجھ سے یا تو صبر کا امتحان کرنے کے لئے تسلیم ورضا دیکھنا چاہتا ہے یا ایمان کا امتحان لینے کے لئے اپنے دربار میں دعا اور فریاد کی کثرت سے دیکھنا چاہتا ہے۔ (صید الخاطر:۲/۳۱۱) ۵۶۔علم کی طلب میں آگے وہی بڑھتا ہے جسے علم سے عشق ہو اور عاشق کو محبوب کی راہ میں پیش آنے والی تکالیف پر صبر ہی کرنا چاہئے۔ (صید الخاطر:۲/۲۴۲) ۵۷۔کسی شخص کے لئے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ اپنے بدن کے ساتھ ناقابل برداشت سلوک کرے،بدن کی مثال تو ایک سواری کے جانور جیسی ہے کہ اگر اس کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا جائے تو سوار کو منزل تک نہیں پہنچاتی۔ (صید الخاطر:۲/۳۴۷) ۵۸۔مخلوق سے الگ ہوکر گوشہ نشین ہوجانا خوشگوار زندگی کا ذریعہ ہے مگر چونکہ میل جول کے بغیر چارہ نہیں ہے اس لئے دشمن کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو؛بلکہ اس سے معافی کی درخواست بھی کرتے رہو ؛کیونکہ کبھی تمہارے خلاف سازش کرکے تمہیں ہلاک بھی کرسکتا ہے، جو تم سے بدسلوکی کرے اس سے حسن سلوک سے پیش آؤ،اپنے ارادوں کی تکمیل میں راز داری سے کام لو اورلوگوں کو صرف جان پہچان والے لوگوں کے درجہ میں رکھو کسی کو سچا دوست بنانے کی آرزو مت کرو؛ کیونکہ سچے دوست کا وجود سب سے زیادہ نادر ہے۔ (صید الخاطر:۲/۳۵۳) ۵۹۔جس کے پاس تھوڑی سی عقل یا دین داری ہو اس پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا سوچ کر حاکموں سے میل جول کو اختیار کرتا ہے؟ کیونکہ ان کے میل جول یا ان کے ساتھ رہ کر حکومت میں حصہ لینے سے ہمیشہ معزولی یا قتل یا کھانے میں زہر کا خطرہ لگا رہتا ہے اوریہ ممکن نہیں ہوتا کہ ان کے حکم اور مرضی کے خلاف کوئی کام کیا جاسکے؛ چنانچہ اگر وہ کوئی ناجائز کام کرنے کو کہیں تو اسے پہلو تہی کی قدرت نہیں ہوتی۔ (صید الخاطر:۲/۳۶۰) ۶۰۔سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات سے خوش رہے اور اپنے علم پر اکتفاء کئے رہے، جبکہ یہ مصیبت اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ (صید الخاطر:۲/۳۶۷) ۶۱۔خوب سمجھ لو کہ خواہ نیکی ہو یا برائی بدلہ گھات میں ہے،یہ دھوکہ کی بات ہے کہ گناہ گار اگر گناہ کے بعد سزا کا اثر نہ دیکھے تو سمجھ لے کہ اس کو معاف کردیا گیا جبکہ سزا کبھی کچھ مدت بعد بھی آجاتی ہے اور کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کسی نے گناہ کیا ہو اور اسے اس کے عوض سزا نہ ملی ہو، اللہ تعالی نے فرمایا"من یعمل سوء یجزبہ" "جس نے بھی کوئی برائی کی اس کا بدلہ دیا جائے گا" (صید الخاطر:۲/۳۶۹) ۶۲۔عقل کو جو فضیلت حاصل ہے وہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ انجام پر نگاہ رکھتی ہے؛کیونکہ بے وقوف کم عقل صرف موجودہ حالت کو دیکھتا ہے اورانجام کو نہیں سوچتا،مثلاً چور چوری کرتے وقت یہ دیکھتا ہے کہ اتنا مال ملے گا اوریہ بھول جاتا ہے کہ ہاتھ بھی کٹ سکتا ہے۔ (صید الخاطر:۲/۳۹۵) ۶۳۔امام ابن الجوزیؒ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا: ((واعلم یا بنی ان الایام تبسط ساعات والساعت تبسط انفاسا وکل نفس خزانۃ فاحذر ان یذھب نفس بغیر شی ء فتری فی القیامۃ خزانۃ فارغۃ فتندم،وانظر کل ساعۃ من ساعاتک بما ذا تذھب،فلا تودعھا الا الی اشرف مایمکن ولا تھمل نفسک،وعودھا اشرف مایکون من العمل واحسنہ،وابعث الی صندوق القبر مایسرک یوم الوصول الیہ)) بیٹے !زندگی کے دن چند گھنٹوں اورگھنٹے چند گھڑیوں سے عبارت ہیں،زندگی کا ہر سانس گنجینہ ایزدی ہے،ایک ایک سانس کی قدر کیجئے کہ کہیں بغیر فائدہ کے نہ گذرے تاکہ کل قیامت میں زندگی کا دفینہ خالی پاکر اشک ندامت نہ بہانے پڑیں، ایک ایک لمحہ کا حساب کریں کہ کہاں صرف ہورہاہے اوراس کوشش میں رہیں کہ ہر گھڑی کسی مفید کام میں صرف ہو، بے کار زندگی گزارنے سے بچیں اورکام کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ آگے چل کر آپ وہ کچھ پاسکیں جو آپ کے لئے باعث مسرت ہو۔ (متاع وقت اورکاروان علم،ص:۵۶،بحوالہ ‘‘لفتہ الکبد فی نصیحۃ الولد’’) (۱)امراء اور دنیا داروں کو علماء اور فقہاء سے زیادہ خلافِ شرع پیروں اور گانے بجانے والے صوفیوں سے عقیدت و محبت ہوتی ہے اور وہ ان پر بڑی فراخدلی سے خرچ کرتے ہیں جب کہ اہلِ علم پر ایک پیسہ خرچ کرنا ان کو بار معلوم ہوتا ہے ، اس لئے کہ علماء اطباء کی طرح ہیں اور دوا میں خرچ کرنا انسان کو بڑا بار معلوم ہوتا ہے ۔ (۲)شیطان نے بہت سے عوام کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے کہ وعظ و ذکر کی مجالس میں شریک ہونا اور متاثر ہوکر رونا ہی سب کچھ ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ مقصود محفلِ خیر میں شرکت و رقت ہے ، میں ذاتی طور پر بہت سے آدمیوں کو جانتا ہوں کہ وہ سالہا سال سے مجلسِ وعظ میں شرکت کرتے ہیں اور روتے ہیں ، متاثر ہوتے ہیں ، لیکن نہ سود لینا چھوڑتے ہیں اور نہ تجارت میں دھوکہ دینے سے باز آتے ہیں ، ارکانِ صلوۃ سے جیسے وہ بے خبر برسوں پہلے تھے ویسے ہی اب بھی ہیں ، مسلمانوں کی غیبت اور والدین کی نافرمانی میں جس طرح پہلے مبتلا تھے اب بھی مبتلا ہیں ، شیطان نے ان کو یہ دھوکہ دے رکھا ہے کہ مجلسِ وعظ کی حاضری اور گریہ و بکاء ان کے گناہوں کا کفارہ بن جائےگا ، اور بعض کو یہ سمجھا رکھا ہے کہ علماء و صالحین کی صحبت ہی مغفرت کا ذریعہ ہے ۔