انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت قدامہؓ بن مظعون نام ونسب قدامہ نام، ابو عمر کنیت،سلسلۂ نسب یہ ہے،قدامہ بن مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن جمح القرشی الجمحی،قدامہؓ حضرت عمرؓ کے بہنوئی تھے۔ (استیعاب:۲/۵۴۸) اسلام وہجرت دعوت اسلام کے آغاز میں دولت اسلام سے بہرورہوئے اوراپنے بھائی عثمان اورعبداللہ کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ گئے۔ (اسد الغابہ:۴/۱۹۸) مغازی پھر حبشہ سے مدینہ آئے اورسب سے پہلے غزوۂ بدر میں شرکت کا شرف حاصل کیا اوراحد وخندق وغیرہ میں شریک ہوتے رہے۔ (مستدرک حاکم:۳/۳۷۹) بحرین کی گورنری حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں قدامہؓ کو بحرین کا گورنرمقرر کیا،اسی زمانہ میں ان پر شراب نوشی کی حد جاری ہوئی، گو حضرت عمرؓ کے سامنے انہوں نے اس جرم کا اقرار نہیں کیا، اوربدری صحابی ہونے کی حیثیت سے ان کا بیان لائق اعتماد تھا؛لیکن حضرت عمرؓ کے نزدیک شہادت سے جرم ثابت ہوگیا تھا، اس لیے آپ نے حد جاری کی، اس کا واقعہ یہ ہے،ایک مرتبہ جار ود بنو عبدقیس کا سردار حضرت عمرؓ کے پاس قدامہ کی شراب نوشی کی شکایت لے کر آیا، حضرت عمرؓ نے فرمایا، تمہارے علاوہ اورکون شاہد ہے،عرض کیا ابوہریرہؓ،ان کو بلاکر پوچھا، انہوں نے شراب پیتے ہوئے تو نہیں دیکھا، البتہ نشہ میں قے کرتے ہوئے دیکھا ،حضرت عمرؓ نے فرمایا: صرف اتنی شہادت سے جرم نہیں ثابت ہوتا، مزید تحقیقات کے لیے قدامہؓ کو بحرین سے طلب کیا، جب وہ آئے تو جارودنے حضرت عمرؓ سے ان پر حد جاری کرنے کا مطالبہ کیا، حضرت عمرؓ نے فرمایا، تم شاہد ہو یا فریق؟ کہا شاہد، فرمایا بس شہادت کا فرض ادا کرچکے،اب تم خاموش رہو، تیسری مرتبہ پھر جارود نے قسم دلاکر حدکا مطالبہ کیا،اس اصرار پر حضرت عمرؓ کو شبہ ہوا، آپ نے فرمایا تم اپنی زبان قابو میں رکھو، ورنہ مجھ کو تنبیہ کرنی پڑے گی، جارود نے کہا عمر! یہ انصاف سے بعید ہے، کہ تمہارا ابن عم شراب پئے اور تم الٹے میری تنبیہ کرو، حضرت ابوہریرہ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اگر آپ کو شک ہو تو قدامہ کی بیوی کو بلاکر پوچھ لیجئے؛چنانچہ آپ نے ان کی بیوی ہندہ کو بلاکر شہادت طلب کی، انہوں نے ابوہریرہؓ کی تصدیق کی، اس پر عدل فاروقی جوش میں آگیا اور فرمایا قدامہ! حد کے لیے تیار ہوجاؤ،قدامہؓ نے کہا، اگر بالفرض میں نے ان لوگوں کی شہادت کے بموجب شراب پی بھی تو آپ کو اجرائے حد کا حق نہیں ہے،فرمایا کیوں؟ عرض کیا خدا فرماتا ہے۔ لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ (المائدۃ:۹۳) جو لوگ ایمان لائے اورنیک عمل کیے تو جو کچھ انہوں نے (تحریم کے قبل) کھایا اس پر کوئی گناہ نہیں ہے جبکہ انہوں نے پرہیز کیا اورایمان لائے اورنیک کام کیے۔ فرمایا تم تاویل میں غلطی کررہے ہو، اگر تم خدا سے ڈرتے تو قطعی حرام چیزوں سے احترازکرتے ،اس وقت حضرت قدامہؓ بیمارتھے، اس لیے حضرت عمرؓ نے لوگوں کے مشورہ سے کچھ دنوں کے لیے حد کا اجرا ملتوی کردیا، ؛لیکن اثبات جرم کے بعد اجرائے حد میں تاخیر آپ کے لیے بار تھی، اس لیے لوگوں سے دوبارہ مشورہ کیا، اس مرتبہ بھی سب نے التواکا مشورہ دیا، فرمایا مجھ کو یہ زیادہ پسند ہے کہ وہ کوڑوں کے نیچے خدا سے ملیں، بہ نسبت اس کے کہ میں خدا سے ملوں اوران کا بار میری گردن پر ہو، غرض اسی بیماری کی حالت میں حد جاری کی اورقدامہؓ سے تعلقات منقطع کرلیے، کچھ دنوں کے بعد دونوں نے ساتھ حج کیا، لوٹتے وقت ایک مقام پر حضرت عمرؓ کی آنکھ لگ گئی، خواب میں آپ کو قدامہؓ سے صفائی کرنے کی ہدایت ہوئی، بیدار ہوتے ہی قدامہؓ کو بلوایا، مگر انہوں نے ملنے سے انکار کردیا ،دوسری مرتبہ پھر آدمی بھیجا کہ اگر آسانی سے نہ آویں تو زبردستی لایا جائے؛چنانچہ وہ آئے اورآپ نے خود گفتگو کی ابتدا کی اورپھر بدستور تعلقات قائم ہوگئے۔ (استیعاب:۲/۵۴۸) وفات عمر کے ۶۸ مرحلہ طے کرنے کے بعد حضرت علیؓ کے عہد خلافت ۳۶ھ میں وفات پائی۔ (اصابہ:۵/۲۳۴) اہل وعیال آپ کے تین بیویاں اورایک لونڈی تھی، جن سے حسبِ ذیل اولادیں ہوئیں۔ نام بیوی نام اولاد نام بیوی نام اولاد ہند بنت ولید فاطمہ بنت ابی سفیان عمر،فاطمہ عائشہ صفیہ بنت خطاب ام ولد رملہ حفصہ