انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۲)امام مسلم بن حجاج ابوالحسین القشیری (۲۶۱ھ) خراسان کے مشہور علمی مرکز نیشاپور میں پیدا ہوئے، بغداد کے بعد نیشاپور سب سے بڑا مرکزِ علم سمجھا جاتا تھا، نیشاپور میں یحییٰ بن یحییٰ، امام اسحاق بن راہویہ اور امام ذہلی سے، عراق میں امام احمد بن حنبل اور عبداللہ بن مسلمۃ القعنبی سے، بغداد میں محمدبن مہران اور ابوغسان سے، حجاز میں سعید بن منصور اور ابومصعب سے اور مصر میں عمروبن سواد اور حرملہ بن یحییٰ سے اور دیگر کئی ائمہ فن سے حدیث سنی، قتیبہ بن سعید، احمد بن یونس یربوعی اور اسماعیل بن ابی عویس بھی آپ کے اساتذہ میں سے ہیں، حضرت امام بخاری سے بھی بہت استفادہ کیا، امام ابوعیسیٰ الترمذی، ابوبکر بن خزیمہ، ابوحاتم رازی اور ابوعوانہ آپ کے شاگردوں میں سے ہیں، آپ کے اُستاد اسحاق بن راہویہ آپ سے بہت متأثر تھے، فرمایا: "ای رجل یکون ھذا" معلوم نہیں یہ شخص کس مقام تک پہنچے گا، آپ نے صحیح مسلم اس طریق سے ترتیب دی کہ محدثانہ نقطۂ نظر سے کوئی دوسری کتاب اس کی برابری نہیں کرسکی، پوری حدیث ایک جگہ مل جاتی ہے اور آپ اس کی جملہ اسانید عجیب حسنِ ادا سے ایک جگہ لے آتے ہیں، محدثِ کبیرحضرت مولانا بدرِعالم مدنی لکھتے ہیں: "یہ تصنیف (صحیح مسلم) فن حدیث کے بہت سے عجائبات پر مشتمل ہے، سرداسانید، متون کا حسن سیاق، تلخیص طرق اور ضبط انتشار میں صحیح بخاری پر بھی فائق ہے"۔ (ترجمان السنہ:۱/۲۵۹) امام مسلم کی اہلِ شام سے روایت، امام بخاری کی اہلِ شام سے روایت پر فائق سمجھی جاتی ہے؛ کیونکہ حضرت امام بخاری ان سے اکثر بطریق مناولہ روایت کرتے ہیں، امام مسلم ان سے مشافہۃً روایت لیتے ہیں، امام مسلم اس میں وہی روایات لاتے ہیں جن پر اس وقت کے اکابرِ اہلِ علم اور شیوخِ حدیث متفق ہوں، آپ نے صحیح مسلم لکھ کر امام الجرح والتعدیل امام ابوزرعہ کے سامنے پیش کی، جن روایات پر انہوں نے کہیں بھی اُنگلی رکھی آپ نے انہیں ترک فرمادیا۔ صحیح مسلم کی روایات حذف مکررات کے بعد چار ہزار کے قریب ہیں، آپ نے اس میں صرف مرفوع روایات نہیں لیں، صحابہ کے بہت سے آثار بھی ساتھ ساتھ روایت کیے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں علم حدیث صحابہ کی مرویات کے بغیر مکمل نہ سمجھا جاتا تھا، قرأتِ خلف الامام جیسے اہم موضوع پر آپ کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ (۴۵ھ) کا اثر ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں: "عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنْ الْقِرَاءَةِ مَعَ الْإِمَامِ فَقَالَ لَاقِرَاءَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ"۔ (مسلم،كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ،بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ، حدیث نمبر:۹۰۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: عطاء بن یسار کہتے ہیں: میں نے حضرت زید بن ثابت سے پوچھا، امام کے ساتھ مقتدی قرآن پڑھے یانہ؛ آپ نے فرمایا، امام کے ساتھ کسی حصہ قرأت میں مقتدی کوقرآن پڑھنے کی اجازت نہیں۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد کہ امام قرأت شروع کرے توتم چپ رہو "إِذَاقَرَأَ فَأَنْصِتُوْا" دوصحابیوں سے مروی ہے (۱)حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ (۵۲ھ) اور (۲)حضرت ابوہریرہؓ (۵۷ھ) سے، آپ نے صحیح مسلم میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی روایت جریر عن سلیمان عن قتادہ کی روایت سے لکھی؛ لیکن حضرت ابوہریرہؓ کی روایت نہ لکھی، آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا: میرے نزدیک وہ بھی صحیح ہے (صحیح مسلم:۱/۱۷۴) آپ سے کہا گیا، آپ نے اسے اپنی صحیح میں کیوں روایت نہیں کیا؟ اس پر آپ نے فرمایا: اس کتاب صحیح مسلم میں میں ہروہ روایت نہیں لکھتا جومیرے نزدیک صحیح ہو، اس میں میں وہی روایات لاتا ہوں جس پر اس کے سب مشائخ متفق ہوں: "فَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ هُوَصَحِيحٌ يَعْنِي وَإِذَاقَرَأَ فَأَنْصِتُوا فَقَالَ هُوَعِنْدِي صَحِيحٌ فَقَالَ لِمَ لَمْ تَضَعْهُ هَاهُنَا قَالَ لَيْسَ كُلُّ شَيْءٍ عِنْدِي صَحِيحٍ وَضَعْتُهُ هَاهُنَا إِنَّمَاوَضَعْتُ هَاهُنَا مَاأَجْمَعُوا عَلَيْهِ"۔ (مسلم،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ، حدیث نمبر:۶۱۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: سوحدیث ابی ہریرہ کے بارے میں کہیے، آپ نے کہا میرے نزدیک وہ صحیح ہے یعنی جملہ "وَإِذَاقَرَأَ فَأَنْصِتُوا" میرے نزدیک واقعی صحیح حدیث کا حصہ ہے؛ انہوں نے پوچھا پھرآپ نے اسے اپنے متن میں جگہ کیوں نہیں دی؟ آپ نے فرمایا: ہروہ حدیث جومیرے نزدیک صحیح ہو میں نے اس میں جگہ نہیں دی اس میں صرف وہی حدیثیں میں نے روایت کی ہیں جن پر ان کے روایت کرنے والے سب متفق ہوں۔ اس سے صحیح مسلم کی عظمت کا اندازہ کیجئے، یہ امام مسلم کی ہی تحقیقات کا حاصل نہیں، یہ وہ روایات ہیں جن پر وقت کے دیگر اہلِ فن سب متفق ہوئے، صحیح بخاری کے ساتھ صحت میں جوکتاب دوسرے درجہ میں شامل ہوتی ہے وہ صحیح مسلم ہے؛ انہی دوکوصحیحین کہا جاتا ہے، امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ اکثر اساتذہ میں شریک ہیں، صحیح مسلم میں معلق یامنقطع روایات بہت کم ہیں؛ لیکن صحیح بخاری میں تعلیقات کافی تعداد میں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاریؒ مسائل کے استنباط کوساتھ لے کر چلتے ہیں، ان کے تراجمِ ابواب ان کی فقہ ہیں اور ظاہر ہے کہ فقیہ کواپنے موضوع میں ہرقسم کی روایات سے کام لینا پڑتا ہے؛ لیکن امام مسلم بطورِ فقیہ کے نہیں محدث کے طور پر چلتے ہیں، ان کی حدیث کے مختلف طرق پر نگاہ ہوتی ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ سرد احادیث میں انہیں ایک جگہ ترتیب دے دیں اور متن جس طریق سے آرہا ہو اس کی نشاندہی کردیں۔ اس احتیاط سے پتہ چلتا ہے کہ امام مسلم روایت بالمعنی کی بجائے روایت باللفظ کا زیادہ خیال رکھتے ہیں، جس طریق سے وہ الفاظ آئیں اس کی وضاحت کردیتے ہیں، صحیح مسلم کے ابواب امام مسلم نے نہیں باندھے، معلوم نہیں اس میں ان کے پیشِ نظر کیا حکمت تھی، وقت نے مہلت نہیں دی یاوہ اس موضوع میں بھی کوئی نیاانداز سامنے لانا چاہتے تھے، موجودہ ابواب دوسروں کے باندھے ہوئے ہیں، صحیح مسلم بے شک ایک ترتیب رکھتی ہے اور وہ ترتیب امام مسلم کی ہی اختیار کردہ ہے؛ لیکن آپ نے ان موضوعات پر کوئی اپنی نشاندہی نہیں کی ہے۔ صحیح مسلم کا طرۂ امتیاز اس کا وہ فاضلانہ مقدمہ ہے جوصحاحِ ستہ کی کسی اور کتاب کے ساتھ نہیں ملے گا، اس میں آپ نے فنِ حدیث کے مختلف پہلوؤں کواس انداز میں چھوا ہے کہ پورا فن نکھر کر قاری کے سامنے آجاتا ہے، اکابرِ اہلِ علم کی رائے ہے کہ امام مسلم اس باب میں نظیر نہیں رکھتے، آپ نے صحیح مسلم لکھتے ہوئے جوروایات چھوڑیں ان میں سے جوآپ کی شرطوں پر پوری اترتی تھیں انہیں ابوعوانہ اسفرائنی نے "المستخرج علی صحیح مسلم" کے طور پر اپنی مسند میں جمع کردیا ہے، ابوعوانہ کی یہ تالیف اصطلاحی پہلو سے مسند نہیں سنن کی ترتیب پر ہے، امام مسلم کے نزدیک دوراوی جوایک دور کے ہوں اگر ایک دوسرے سے روایت کریں تووہ حدیث متصل الاسناد سمجھی جائے گی، امام بخاری صحیح بخاری میں صرف ہمعصر ہونے پر قناعت نہیں کرتے، ان کے باہم ملنے پر مستقل دلیل چاہتے ہیں، یہ احتیاط کی انتہا ہے؛ تاہم امام مسلم اسے بطورِ اصول قبول نہیں کرتے؛ اِسی طرح بعض راوی جیسے عکرمہ اور عمربن مرزوق امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہیں؛ مگرامام مسلم ان سے روایت نہیں لیتے (دیکھئے:فتح الملہم:۱/۵۷۔ شروط الائمہ:۵۳) امام مسلم نے امام بخاری کے ۴۳۴/راویوں سے روایت نہیں لی اور امام بخاری نے امام مسلم کے ۶۳۵/راویوں سے روایت قبول نہیں کی، صحیح مسلم امام مسلم سے شیخ ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سفیان نیشاپوری (۳۰۸ھ) نے بڑی احتیاط سے دوسرے رواۃ کے تواتر کے ساتھ روایت کی ہے، اس دور میں علماء کی سند امام مسلم تک انہی کے واسطہ سے پہنچتی ہے۔