انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کاتبینِ وحی کتابتِ وحی کا کام صرف حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ ہی کے سپرد نہ تھا؛ بلکہ آپ نے بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس مقصد کے لیے مقرر فرمایا ہوا تھا، جو حسبِ ضرورت کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیتے تھے، کاتبینِ وحی کی تعداد چالیس تک شمار کی گئی ہے۔ (علوم القرآن:۱۷۹، مصنف: مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہٗ) ان میں زیادہ مشہور یہ حضرات ہیں: حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ، حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن ابی السرح رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ، حضرت ابان بن سعید رضی اللہ عنہ، حضرت حنظلہ بن ربیع رضی اللہ عنہ، حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ، حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (فتح الباری:۹/۲۷) حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (علوم القرآن مفتی لتقی عثمانی:۱۷۹) حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی وحی نازل ہوتی تھی تو آپ اپنے بعض کاتبین وحی کو بلواتے تھے اور ان کو نئی نازل شدہ آیتیں لکھواتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے امر پر (مسنداحمد:۴/۲۶۸۔ رقم:۱۷۹۴۱۔ کنزالعمال:۲/۹، ۲۹۵۷) اس کی جگہ کی تعیین بھی فرمادیتے تھے کہ اسے کس سورت میں کس آیت کے بعد رکھنا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں: "قَالَ عُثْمَانُ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِمَّاتَنَزَّلَ عَلَیْہِ الْاٰیَاتُ فَیَدْعُو بَعْضَ مَنْ کَانَ یَکْتُبُ لَہُ وَیَقُوْلُ لَہُ ضَعْ ھَذِہِ الْآیَۃَ فِیْ السُّوْرَۃِ الَّتِیْ یُذْکَرُ فِیْھَا کَذَا وَکَذَا" (سنن ابوداؤد، صلوٰۃ، باب من جھربھا:۷۸۶) ترجمہ: "نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جب آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپ اپنے بعض کاتبینِ وحی کو بلواتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ اس آیت کو اس سورت میں (اس مقام پر) رکھو جس میں فلاں فلاں شیٔ کا ذکر ہے"۔ چنانچہ آپ کی ہدایت پر وہ لکھ لیا جاتا اور اس زمانہ میں عرب میں کاغذ کمیاب تھے اس لیے اسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھا جاتا تھا اور لکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رکھ دیا جاتا تھا (مناہل العرفان:۱۷۸) تو اس طرح عہد نبوی ہی میں پورا قرآن کریم آپ کی نگرانی میں لکھا ہوا محفوظ تھا؛ مگرکاغذ کی کمیابی کے سبب مختلف قسم کی چیزوں میں منتشر تھا؛ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بھی بعض قرآن کریم کے لکھنے کا اہتمام کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے اسلام لانے کا مشہور قصہ ہے جس میں آپ غصہ کی حالت میں اپنے بہن کے گھر گئے تو وہاں ان کی نظر ان پر پڑی جس میں قرآن کریم لکھا ہوا تھا (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:۱۶۰ جہاد، باب کراھیۃ السفر بالمصاحف: ۲۹۹۰) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے پاس اس وقت مکمل یانامکمل نسخے موجود تھے؛ ورنہ پھر اس ارشاد کا کوئی مطلب ہی نہ ہوگا، ان کے علاوہ اور بھی متعدد دلائل وشواہد ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام میں بھی اس کے لکھنے کا رواج تھا؛ لیکن ان میں کی اکثریت اپنے حافظہ ہی پر اعتماد کرتی تھی۔