انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ نام ونسب عبداللہ نام،ابوحذیفہ کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے،عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی بن سعد بن سہم بن عمروبن حصیص بن کعب بن لوی قرشی سہمی۔ (اسد الغابہ:۱۴۲/۳) اسلام وہجرت عبداللہ دعوتِ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے،اسلام لانے کے بعد عرصہ تک آنحضرتﷺ کے ساتھ رہے، پھر مہاجرین کے دوسرے قافلہ کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ گئے۔ (اسد الغابہ:۱۴۲/۳) سفارت ۶ھ میں جب آنحضرتﷺ نے قرب وجوار کے سلاطین کے پاس دعوت اسلام کے خطوط بھیجے تو شہنشاہ ایران کے پاس دعوت نامہ لے جانے کی خدمت ان کے سپرد ہوئی کہ اس کو ایرانی گورنر متعینہ بحرین تک پہنچادیں اور وہ اس کو دربار ایران بھیج دے،انہوں نے اس کو امیر البحرین کے پاس بحفاظت پہنچادیا۔ (بخاری،جلد۲،کتاب المغازی باب النبی ﷺ الی کسری وقیصر) مغازی بدر کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے،حضرت ابو سعید خدریؓ بدری بتاتے ہیں،لیکن موسیٰ بن عقبہ اورابن اسحق وغیرہ تمام اس کے مخالف ہیں۔ امارت سریہ آنحضرتﷺ نے ان کو ایک سریہ کا امیر بناکر بھیجا اور ماتحتوں کو ہدایت فرمادی کہ کسی بات میں ان کی عدول حکمی نہ کرنا، منزل مقصود پر پہنچ کر عبداللہ کو کسی بات پر غصہ آگیا اورمجاہدین سے کہا کیا تم لوگوں کو آنحضرتﷺ نے میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے،سب نے کہا ہاں دیا ہے،کہا اچھا! لکڑیاں جمع کرکے اس میں آگ دیدو اورپھاند پڑو، سب نے لکڑیاں جلائیں اورپھاند نے کو تھے کہ دفعۃً کسی خیال سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور بعض لوگوں نے کہا کہ ہم نے آگ سے بچنے کے لیےرسول اللہﷺ کی پیروی کی ہے اورپھر خود ہی آگ میں کودیں ،یہ مباحثہ یہاں تک جاری رہا کہ آگ ٹھنڈی ہوگئی اوراس درمیان میں ان کی آتش غضب بھی سرد پڑگئی،واپس آکر سب نے آنحضرتﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا،اگر تم لوگ آگ میں گس گئے ہوتے تو پھر کبھی نہ نکلتے،اطاعت صرف ان ہی چیزوں میں واجب ہے جس کی اللہ نے اجازت دی ہے۔ (بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعہ لدامام مالم یکن معصیۃً) خلفاء کا عہد عہد فاروقی میں فتوحاتِ شام میں شریک تھے،سواتفاق سے ایک معرکہ میں رومیوں نے گرفتار کرلیا،رومیوں کا قاعدہ تھا کہ جب وہ کسی کے سامنے اپنا مذہب پیش کرتے اوروہ انکار کرتا تو اس کو ایک عظیم الجثہ تانبے کی گائے کے جوف میں جس میں زیتون کا تیل کھولتا ہوتا تھا، ڈال لیتے ؛چنانچہ انہوں نے ان کے سامنے اپنا مذہب پیش کرکے کہا، اگر تم اس کو نہیں قبول کروگے تو تم کو گائے پر قربان کردیا جائے گا، مگر اس سے مطلق خوفزدہ نہ ہوئے اور قبول مذہب سے انکار کردیا، ان جلادوں نے ان کی عبرت پذیری کے لیے ایک دوسرے مسلمان قیدی کو بلا کر عیسویت کی دعوت دی،اس نے بھی انکار کیا تو اس کو زیتون کے کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دیا،وہ کشتہ حق جل بھن کر کباب ہوگیا، یہ منظر دکھا کر بولے،اگر نہیں قبول کرتے تو تمہارا بھی یہی حشر ہوگا؛لیکن جذبہ حق اس سے زیادہ آزمائش کے لیے تیار تھا،پھر انکار کردیا، حکم ہوا ڈال دو، آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، رومیوں نے کہا آخر ڈر کر رونے لگے،فرمایا میں اپنے انجام پر نہیں روتا ؛بلکہ اپنی کم مائگی پرآنکھیں اشکبار ہیں کہ صرف ایک جان اللہ کی راہ میں کام آئے گی، کاش ایک جان کے بجائے میرے ہر موئے بدن میں ایک مستقل جان ہوتی اور یہ سب راہ خدا میں نثار ہوتیں،یہ قوت ایمانی دیکھ کر وہ لوگ دنگ رہ گئے اوراس شرط پر رہا کردینے کے لیے تیار ہوگئے کہ شاہ روم کی پیشانی کا بوسہ دیں ؛لیکن اس پر ستار حق کا لب ایک صلیب پرست کی بوسہ ستانی سے آلودہ نہیں ہوسکتا تھا اس سے انکار کیا اس انکار پر انہوں نے مال و دولت اورحسن ورعنائی کے سبز باغ دکھائے،آپ نے ان دل فریبوں کو بھی نہایت حقارت سے ٹھکرادیا، آخر میں ان سے کہا، اگر میری پیشانی کو چوم لو تو تمام مسلمان قیدی چھوڑدیے جائیں گے، مسلمانوں کی جان سب سے زیادہ عزیز تھی،اس لیے اس پر آمادہ ہوگئے اورایک بوسہ کے صلہ میں اسی مسلمانوں کی گراں بہا جانیں بچ گئیں، جب واپس آئے تو حضرت عمرؓ نے فرط مسرت سے ان کی پیشانی چوم لی، بعض صحابہؓ آپ سے مزاحاً کہتے کہ تم نے ایک بے دین کی پیشانی کا بوسہ دیا، جواب دیتے ہاں چوما، لیکن اس کے بدلہ میں اسی مسلمانوں کی جانیں بچ گئیں۔ (اسد الغابہ:۳/۱۴۳) وفات حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں مصر میں وفات پائی۔ (استیعاب:۱/۲۵۷) نسب کی تحقیق ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے جلال کی حالت میں فرمایا کہ تم لوگوں کو جو پوچھنا ہو پوچھو، اس وقت جو بات پوچھو گے بتاؤں گا، آپ نے اُٹھ کر پوچھا میرا باپ کون ہے ،فرمایا ابوحذیفہ: (بخاری کتاب الفتن وابن سعد جزو۴،ق۱:۱۳۹) آپ کی ماں نے سنا تو کہا کہ تم نے رسول اللہ ﷺ سے کتنا خطرناک سوال کیا تھا، اگر خدانخواستہ وہ کچھ اور بتاتے تو میں سب کے سامنے رسوا ہوتی،جواب دیا کہ میں نسب کی تحقیق کرنا چاہتا تھا۔ فضل و کمال آپ سے متعدد حدیثیں مروی ہیں، ان میں سے ایک بخاری میں بھی ہے، آپ سے روایت کرنے والوں میں ابو وائل ،سلیمان اورابن یسار قابل ذکر ہیں۔ (تہذیب الکمال:۱۹۴)