انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں چادر ڈال کر اس قدر اینٹھا کہ آپ کا دم رُکنے لگا،حضرت ابوبکرؓ کو خبر ہوئی تو آپ دوڑے ہوئے آئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے شر سے بچایا، اور قریش ے مخاطب ہوکر کہا کہ"أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّ"(کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟) کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو چھوڑدیا،مگر حضرت ابو بکرؓ کو لپٹ پڑے اور خوب زودکوب کیا، ایک مرتبہ صحنِ کعبہ میں قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے پیش آنا چاہا،حضرت حارث بن ابی ہالہ کو خبر ہوئی تو دوڑے ہوئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشرار کے ہجوم وشرارت سے بچانا چاہا،کفارنے حضرت حارثؓ کو وہیں شہید کردیا،مگر آپ پر دست درازی کی جرأت اُن کو نہ ہوسکی، آپ کے راستہ میں جہاں سے آپ رات کے وقت گزرنے والے ہوتے کانٹے بچھادئے جاتے کہ آپ کو اذیت پہنچے،ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحنِ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے،قریش بھی وہاں بیٹھے تھے،ابو جہل نے کہا کہ فلاں مقام پر اونٹ ذبح ہوا ہے اس کی اوجھڑی پڑی ہوئی ہے،کوئی اس کو اُٹھالائے اور محمدؐ کے اوپرڈال دے،یہ سن کر عقبہ بن ابی معیط اٹھا اوروہ اوجھڑی اٹھالایا،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو آپ کی پشت پر رکھ دی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو توجہ الی اللہ میں خبر بھی نہ ہوئی مگر کفار ہنسی کے مارے ٹوٹے جاتے تھے،حضرت عبداللہؓ بن مسعود بھی وہاں موجود تھے مگر کفار کا ہجوم دیکھ کر اُن کو کچھ جرأت نہ ہوئی، اتفاقاً حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو بچی تھیں آگئیں اور انہوں نے آگے بڑھ کر باپ کی پشت پر سے اُس اوجھڑی کو پرے سرکایا اورکفار کو بھی بُرا بھلا کہا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر پتھر پھینکے جاتے تھے،گندگی وغیرہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پھینک دیتے تھے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘اے بنو عبد مناف یہ اچھا ہمسائیگی کا حق ادا کر رہے ہو’’ کبھی آپ کا نام شاعر رکھا جاتا تھا،کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر کہہ کر پکارا جاتا تھا، کبھی آپ کو کاہن کہتے اورکبھی مجنون کا خطاب دیتے تھے، غرض کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو تکلیف پہنچانے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام میں رکاوٹیں پیدا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی پورے عزم واستقلال اورہمت وجرأت کے ساتھ اپنے کام میں مصروف تھے،جب قریش کو اس امرکا یقین ہوگیا کہ ہماری کوششوں سے کوئی حسب منشا نتیجہ پیدا نہیں ہوا تو انہوں نے مجبوراً دوسرا پہلو اختیار کیا۔