انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت بدیل ؓبن ورقا نام ونسب بدیل نام، باپ کا نام ورقاءتھا، نسب نامہ یہ ہے،بدیل بن ورقاء بن عمرو بن ربیعہ بن عبدالعزیٰ ابن ربیعہ بن جری بن عامر بن مازن خزاعی۔ ان کا قبیلہ بنی خزاعہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کا حلیف ہوگیا تھا، ۶ھ میں جب آنحضرتﷺ عمرہ کے قصد سے مکہ تشریف لے گئے توحدیبیہ کے مقام پر قریش کی مزاحمت کے ارادہ کی خبر ان ہی نے دی تھی۔ جن اسباب کی بنا پر آنحضرتﷺ نے مکہ پر حملہ کیا تھا ان میں سے ایک سبب بدیل کے قبیلہ کی حمایت بھی تھا، بنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف تھے، اس لیے ازروئے معاہدہ حدیبیہ قریش اور ان کے حلیف بنی خزاعہ پر کسی قسم کی زیادتی نہیں کرسکتے تھے،لیکن اس معاہدہ کے خلاف قریش کے حلیف بنی بکربنی خزاعہ پر مظالم کرتے تھے، فتح مکہ کے قبل بدیلؓ آنحضرتﷺ کے پاس ان زیادتیوں کی شکایت لے کر گئے ،دوسری طرف سے قریش نے ابو سفیان کو آنحضرتﷺ کے پاس بھیجا تھا کہ وہ آپ سے گفتگو کر کے معاہدہ کی تجدید کر آئیں اور بنی خزاعہ پر بنی بکر کی زیادتیوں کا کوئی برا نتیجہ نہ نکلے، ادھر سے ابو سفیان جارہے تھے، ادھر سے بدیل واپس ہورہے تھے،راستہ میں دونوں کی ملاقات ہوئی، ابو سفیان کو شبہ ہوا کہ بدیل ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس شکایت لیکر گئے تھے،انہوں نے ان سے پوچھا، کہاں سے آرہے ہو؟ بدیلؓ نے کہا وادی اورساحل کی طرف سے ،بنی خزاعہ کی سمت گیا ہوا تھا، پھر تصریح سے پوچھا محمد ﷺ کے پاس سے تو نہیں آرہے ہو؟ بدیل نے کہا نہیں ا س سوال وجواب کے بعد دونوں نے اپنا اپنا راستہ لیا، لیکن بدیل کے جواب پر ابو سفیان کا شبہ دور نہیں ہوا، ان کو قرائن سے یقین ہوگیا کہ ہو نہ ہو بدیل مدینہ ہی گئے تھے، نہایت تیزی سے مدینہ پہنچے، اورحضرت ابوبکرؓ، عمرؓ علیؓ، اورفاطمہؓ زہرا کو بیچ میں ڈالکر معاملات کا تصفیہ کرنا چاہا، لیکن ان بزرگوں نے درمیان میں پڑنے سے انکار کردیا اورابوسفیان ناکام لوٹ گئے۔ (سیرۃ ابن ہشام:۲/۲۲۷،۲۲۹) اسلام فتح مکہ کے بعد بدیل مشرف باسلام ہوئے، بعض ارباب سیران کے اسلام کا زمانہ فتح مکہ سے پہلے بتاتے ہیں،لیکن یہ صحیح نہیں ہے، ان کو آنحضرتﷺ کے پاس بدیل کی آمد ورفت کے واقعات سے التباس ہوا ہے، لیکن یہ آمد ورفت اسلام کی وجہ سے نہ تھی؛بلکہ معاہدہ کی وجہ سے تھی، قبول اسلام کے وقت بدیل کی عمر۹۷ سال کی تھی ،مگر داڑھی کے سب بال سیاہ تھے،آنحضرتﷺ نے پوچھا عمر کیا ہے، عرض کی ۹۷ برس، فرمایا خدا تمہارے جمال اوربالوں کی سیاہی میں اور ترقی دے۔ بدیلؓ کے قبولِ اسلام کے بعد وہی قریشی جواُن کے قبیلہ کے درپے آزا ررہتے تھے ان کے گھر اور ان کے غلام رافع کی پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ غزوات فتح مکہ کے بعد، حنین ،طائف اورتبوک تمام غزوات میں شریک ہوئے،حنین میں مالِ غنیمت اورمشرک قیدیوں کی نگرانی ان کے سپرد تھی۔ (اصابہ،جلداول،صفحہ:۴۶) حجۃ الوداع حجۃ الوداع میں ہمرکاب تھے اورمنیٰ میں اعلان کرتے پھرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے آج کے روزہ سے منع فرمایا ہے۔ وفات عمر کافی پاچکے تھے، اس لیے آنحضرتﷺ کی حیات ہی میں انتقال ہوگیا۔ (اسدالغابہ:۱/۱۸۱) آثار نبوی سے برکت اندوزی آثار نبویﷺ سے نہایت گہری عقیدت رکھتے تھے،کسی موقعہ پر آنحضرتﷺ نے ان کو ایک خط لکھا تھا،اس کو نہایت عزیر رکھتے تھے اورانتقال کے وقت اپنے صاحبزادے کو یہ خط دیکر وصیت کرتے گئے کہ جب تک یہ نوشۃ رسولﷺ تمہارے پاس رہے گا تم لوگ خیرو برکت میں رہو گے۔ (اسد الغابہ:۱/۱۸۱)