انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امیر بصرہ کی مخالفت یہ لشکر جب بصرہ کے قریب پہنچا تو حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اول عبداللہ بن عامر کو اہلِ بصرہ کی طرف بھیجا اوربصرہ کے عمائدین کے نام خطوط بھی روانہ کئے اورخود جواب کے انتظار میں ٹھہر گئیں، بصرہ کے موجودہ گورنر عثمان بن حنیف کو جب حضرت عائشہؓ کی تشریف آوری کا حال معلوم ہوا تو اس نے بصرہ کے چند با اثر لوگوں کو بُلاکر بطور ایلچی حضرت عائشہؓ کے لشکر کی جانب بھیجا، ان لوگوں نے حضرت ام المومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر تشریف لانے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ عام بلوائیوں اورقبائل کے فتنہ پرداز لوگوں نے یہ ہنگامہ برپا کیا ہے اورمسلمانوں کی جمعیت کو نقصان پہنچا کر اسلام کو نقصان پہنچانا چاہا ہے، میں مسلمانوں کی یہ جماعت لے کر اس لئے نکلی ہوں کہ اُن کو اصلی واقعات سے مطلع کروں اوراُن کی اصلاح کروں،اس خروج سے میرا مقصود اصلاح بین المسلمین کے سوا اورکچھ نہیں ہے،وہاں سے اُٹھ کر یہ لوگ حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیرؓ کی خدمت میں آئے اور آنے کا سبب دریافت کیا،انہوں نے جواب دیا کہ ہم عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لئے نکلے ہیں،پھر اُن بصرہ والوں نے دریافت کیا کہ کیا تم دونوں نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم نے بیعت کی تھی،مگر اس شرط پر کہ قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص لیا جائے، دوسرے یہ کہ ہم سے جب بیعت لی گئی تھی تو تلوار ہمارے سرپر تھی،یہاں سے اُٹھ کر یہ لوگ بصرہ میں عثمان بن حنیف کے پاس واپس گئے اورجو سن کر گئے تھے سُنایا،عثمان بن حنیف نے سُن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا پھر ان لوگوں سے یعنی عمائدین بصرہ سے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ خاموشی اختیار کرو،عثمان بن حنیف نے کہا کہ میں ان کو روکوں گا،جب تک حضرت علیؓ یہاں تشریف نہ لے آئیں عمائدین بصرہ اپنے اپنے گھروں میں آکر بیٹھ رہے،عثمانؓ نے تمام کوفہ والوں کو لڑائی کے لئے تیار کرنے اور مسجد میں جمع ہونے کا اعلان کیا،جب لوگ مسجد میں جمع ہوگئے تو عثمان بن حنیف نے کوفہ کے ایک شخص قیس نامی کو تقریر کرنے کے لئے کھڑا کیا،اُس نے کہا کہ لوگو!اگر طلحہؓ اورزبیرؓ اوراُن کے ہمراہی مکہ سے یہاں اپنی جان کی امان طلب کرنے آئے ہیں تو یہ بات غلط ہے،کیونکہ مکہ میں تو چڑیوں تک کو جان کی امان حاصل ہے،کوئی کسی کو نہیں ستاسکتا، اوراگر یہ لوگ خون عثمانؓ کا بدلہ لینے آئے ہیں تو ہم لوگ عثمانؓ کے قاتل نہیں ہیں،پس مناسب یہ ہے کہ اُن کو جس طرف سے یہ آئے ہیں،اُسی طرف لوٹا دو، یہ تقریر سن کر اسود بن سریع سعدی نے اٹھ کر کہا کہ یہ لوگ ہم کو قاتلینِ عثمانؓ سمجھ کرنہیں آئے ؛بلکہ قاتلین عثمانؓ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم سے مدد طلب کرنے آئے ہیں،یہ الفاظ سُن کر لوگوں نے قیس مذکور پر کنکریاں پھینکنی شرو ع کیں اور جلسہ درہم برہم ہوگیا، عثمان بن حنیف کو یہ معلوم ہوگیا کہ بصرہ میں بھی طلحہؓ وزبیرؓ کے ہمدرد ومعاونین موجود ہیں۔