انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جہاد جہاد کے متعلق صحابہ کرام کے خدمات کی تفصیل حسبِ ذیل عنوانات میں کی جاسکتی ہے۔ ۱۔جہاد کی حقیقت کے متعلق صحابہؓ کرام کا کیا خیال تھا؟ ۲۔عہد نبوت کے نظام فوجی میں صحابہ کرام کی مذہبی اوراخلاقی سرگرمیوں کا کس قدر حصہ شامل تھا؟ ۳۔خلفائے راشدین نے اس نظام کو کس قدر ترقی دی؟ جہاد کی حقیقت مورخین یورپ کے نزدیک جہاد اسلام کی حقیقت کا لازمی جزو ہے؛ لیکن صحابہ کرام کے نزدیک اسلام کی حقیقت اس سے بالا تر تھی کہ اس کے مایہ خمیر میں خون کے اجزاء شامل کئے جائیں، چنانچہ کسی نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا کہ آپ جہاد کیوں نہیں کرتے؟ بولے رسول اللہ صلی اللہ ولیہ سلم نے فرمایا ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں سے ہے:کلمہ، توحید، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج (مسلم کتاب الایمان باب قول النبی ﷺ ،بنی الاسلام علی خمس) یعنی جہاد اسلام کی حقیقت سے خارج ہے ،اس کا جزو نہیں ہے۔ عہد نبوت میں صحابہ کرام کا فوجی نظام عام خیال ہے کہ عہد نبوت تک اسلام میں کوئی فوجی نظام نہیں قائم ہوا تھا، یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی آواز کا معجزانہ اثر تھا کہ تمام صحابہ ایک جھنڈے کے نیچے آکر جمع ہوجاتے تھے، حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت تک یہی حالت قائم رہی، حضرت عمرؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ایک باضابطہ نظام فوج قائم کیا؛ لیکن درحقیقت یہ ایک عظیم الشان غلطی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آنے کے ساتھ ہی ایک مستقل نظام فوج قائم کرلیا تھا، اورصحابہ کرام کے مذہبی جوش اور اخلاقی طاقت نے اس کو نمایاں ترقی دی تھی۔ تمام قوم کا فوج بنانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال انصار کے نو خیز لوگوں کا جائزہ لیتے تھے اور پندرہ سالہ نوجوان کو فوج میں داخل کرتے تھے ،آج اس تمدنی زمانہ میں بھی جبکہ ہر شخص قومیت ووطینت کا ترانہ گارہا ہے اکثر لوگ اس قسم کی جبری خدمت سے انکار کرتے ہیں؛ لیکن صحابہ کرام کے جوش مذہبی کا یہ حال تھا کہ بچہ بچہ بشوق فوج میں شامل ہونا چاہتا تھا اور اگر کسی کو اس مذہبی خدمت کے انجام دینے کی اجازت نہیں ملتی تھی تو اس کو سخت ملال ہوتا تھا، ایک بار آپﷺنے انصار کے نوجوانوں کا جائزہ لیا اورایک نوجوان کو شریک فوج ہونے کی اجازت عطا فرمائی، حضرت سمرہؓ نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا، لیکن آپﷺنے کمسنی کی وجہ سے ان کی درخواست منظور نہیں کی، اس بنا پر ان کو سخت صدمہ ہوا اور مایوسی کے لہجہ میں کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اس لڑکے کو اجازت دے دی اور مجھے نہیں قبول فرمایا؛ حالانکہ اگر کشتی ہو تو میں اس کو پچھاڑ دوں، آپ نے دونوں میں کشتی کرائی، اور سمرہ نے اس کو پچھاڑ دیا، اس لئے آپ نے ان کو بھی شرکت جہاد کی اجازت دی۔ (استیعاب تذکرہ حضرت سمرہؓ بن جندب) صحابہ کرام جس ذوق و شوق سے شریک جہاد ہوتے تھے، اس کے متعلق احادیث و رجال کی کتابوں میں بہ کثرت واقعات مذکور ہیں ہم نے اس کتاب کے پہلے حصے میں اس قسم کی متعدد مثالیں مختلف عنوانات میں جمع کردی ہیں، اس موقع پر ان کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ فوجی شعار مہاجرین و انصارکو اگرچہ اخوت اسلامی نے بھائی بھائی بنادیا تھا، تاہم صف جنگ میں دونوں اپنے مخصوص قومی شعار کی بنا پر الگ الگ نظر آتے تھے اور یہ ان کے جوش و مساقبت کا بڑا سبب تھا، انصار کا شعار عبدالرحمان اور مہاجریں نے اپنا شعار عبداللہ قراردیا تھا۔ قرآن مجید کی بعض سورتوں کے ٹکڑوں کو بھی بطور شعار کے پڑھا جاتا تھا۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الرجل ینادی بالشعار) فوج کی تقسیم اخیر میں جب اسلام کا فوجی نظام بالکل مکمل ہوگیا تو میدان جنگ میں فوجوں کی تقسیم بھی قومی حیثیت سے کی گئی ،چنانچہ فتح مکہ میں جیسا کہ صحیح بخاری کتاب المغازی میں مذکور ہے تمام قبائل کے دستے الگ الگ قائم کئے گئے تھے۔ فوجی تعلیم و تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوجی تعلیم و تربیت میں کدو کا وش کی ضرورت پیش نہیں آئی خود صحابہ کرام میں تیر اندازی کا ذوق اس قدر ترقی کر گیا تھا کہ مغرب کے بعد مسجد سے نکل کر تیر کا نشانہ لگاتے تھے، (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب وقت المغرب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اس ذوق کو اور بھی ترقی دیتی تھی،ایک بار آپﷺنے صحابہ کرام کو تیر اندازی کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا۔ ارموایا بنی اسماعیل اباکم کان رامیا اے بنو اسماعیل تیر اندازی کرو کیونکہ تمہار باپ تیر انداز تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام تیر اندازی میں باہم مسابقت کرتے تھے، چنانچہ اسی موقعہ پر جب آپ نے فرمایا کہ میں فلاں قبیلہ کے ساتھ ہوں، تو دوسرے قبیلہ کے لوگ رک گئے اورکہا کہ جب آپ خود ان کے ساتھ ہیں تو ہم کیا مقابلہ کرسکتے ہیں ؟ ارشاد ہوا کہ تیر پھینکو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ (بخاری کتاب الجہاد باب التحریض علی الرمی ) تیر اندازی کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑ دوڑ بھی کراتے تھے اوراس میں تمام صحابہ شریک ہوتے تھے ،بعض صحابہ نےپیدل دوڑنے کی مشق کی تھی ،چنانچہ اس وصف میں حضرت سلمہ بنؓ اکوع خاص طور پر ممتازتھے اوراس مشق کی بدولت ان کو مختلف فوجی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں ۔ شہسواری اورتیر اندازی کے علاوہ صحابہ کرام نے فن جنگ میں اور بھی جدید ترقیاں کیں؛ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عروہ بن مسعودؓ اورحضرت غیلان بن سلمہؓ کو جرش بھیجا کہ وہاں سے منجنیق اورحبابہ کے استعمال کا طریقہ سیکھ کے آئیں؛ چنانچہ وہ لوگ وہاں سے تعلیم حاصل کرکے آئے تو طائف کے محاصرہ میں ان آلات کا استعمال کیا گیا، (طبری ،صفحہ ۱۶۶ واقعات ۸ ھ) یہ طبری کی روایت ہے؛لیکن مواہب لدنیہ میں ہے کہ فن جنگ میں یہ جدید اضافہ حضرت طفیل بن عمروؓ دوسی کے بدولت ہوا، زرقانی نے اس کی شرح میں یزید بن زمعہ کانام بھی لیا ہے اور واقدی کی ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ منجنیق کا استعمال حضرت سلمانؓ کے مشورے سے کیا گیا۔ (زرقانی،جلد۳،صفحہ۳۲) غزوۂ احزاب میں خندق انہی کے مشورے سے کھودی گئی اور کفارنے اس کو اس قدر جدید اور عجیب چیز سمجھا کہ سب کے سب یک زبان ہوکر بول اٹھے۔ ان ھذا لکیدۃ ماکانت العرب تصنعہا (طبقات ابن سعد کتاب المغازی ،صفحہ ۴۹) یہ ایک ایسی چال ہے، جس سے اہل عرب بالکل نا آشنا تھے۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کا انتظام جس طرح صحابہ کرام بشوق غزوات میں شریک ہوتے تھے اسی طرح صحابیات بھی خدا کی راہ میں ان سے پیچھے نہیں رہنا چاہتی تھیں ، ان کے لئے سب سے زیادہ موزوں کام زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا اور مجاہدین کے آرام و آسائش کا سامان بہم پہنچانا تھا، اور وہ اس خدمت کو نہایت خلوص اور دلسوزی سے انجام دیتی تھیں۔ حضرت ام ورقہ بنت نوفلؓ ایک صحابیہ تھیں، جب معرکہ بدر پیش آیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی کہ مجھے شریک جہاد ہونے کی اجازت دی جائے میں مریضوں کی تیمار داری کروں گی۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب امامۃ النسا) غزوہ خیبر میں بغیر جبر وکراہ کے متعدد عورتیں شریک جہاد ہوئیں، آپ کو ان کا حال معلوم ہوا تو بلا بھیجا اورناراضی کے لہجے میں پوچھا تم کس کے ساتھ اور کس کی اجازت سے آئی ہو؟ بولیں یا رسول اللہ ﷺ! ہم اون کاتتے ہیں اور اس سے خدا کی راہ میں اعانت کرتے ہیں ،ہمارے ساتھ زخمیوں کے دوا علاج کا سامان ہے، لوگوں کو تیراٹھا اٹھا کے دیتے ہیں اور ستو گھول گھول کے پلاتے ہیں۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی المراۃ والعبد ینحدیان من الغنیمۃ) حضرت ام عطیہؓ ایک صحابیہؓ تھیں جو آپ کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ہوتی تھیں،(مسلم کتاب الجہاد باب النساء الغازیات یرضح لہن ولا یسہم والنہی عن قتل صبیان اہل الحرب) اور مجاہدین کے اسباب کی نگرانی کرتی تھیں، کھانا پکاتی تھیں ،مریضوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں، غزوۂ احد میں خود حضرت عائشہؓ شریک تھیں اور وہ اورحضرت ام سلیمؓ اپنی پیٹھ پر مشک لاد لاد کے لاتی تھیں اور لوگوں کو پانی پلاتی تھیں۔ (مسلم کتاب الجہاد باب غزوۃ النساء مع الرجال) حضرت ربیع بنت مسعودؓ کا بیان ہے کہ ہم سب غزوات میں شریک ہوتے تھے ،پانی پلاتے تھے، مجاہدین کی خدمت کرتے تھے اور مدینہ تک زخمیوں اورلاشوں کو اٹھا اٹھا کر لاتے تھے۔ (بخاری کتاب الجہاد باب روالنساء والقتلی) حضرت رفیدہؓ نے مسجد نبویؓ میں ایک خیمہ قائم کر رکھا تھا، جو لوگ زخمی ہو کر آتے تھے، وہ اسی خیمے میں ان کا علان کرتی تھیں، چنانچہ حضرت سعد بن معاذؓ غزوۂ خندق میں زخمی ہوئے تو ان کا علاج اسی خیمہ میں کیا گیا۔ (اصابہ تذکرہ رفیدہؓ) جہاد کے لئے ساز وسامان شوق جہاد نے اسلام کے جھنڈے کے نیچے بہادر سپاہی تو جمع کردیئے ؛لیکن اسلام کی غربت مصارف جہاد اور آلات حرب کا کیا سامان کرتی؟ لیکن صحابہ کرام نے تکمیل مقاصد جہاد کے لئے جان کی طرح مال کو بھی قربان کردیا، حضرت عثمان ؓ نے جس طرح غزوہ ٔعسرہ کی تیاری میں اپنا تمام مال وقف کردیا، وہ تاریخ اسلام کا مشہور واقعہ ہے ان کے علاوہ اور تمام صحابہ اس کارخیر میں حصہ لیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے جہاد نفس کے ساتھ جہاد بالمال کا بھی بار بار قرآن مجید میں ذکر کیا ہے، احادیث میں اس قسم کی فیاضیوں کی متعد مثالیں ملتی ہیں، حضرت عمرؓ نے جہاد کی ضرورت کے لئے ایک شخص کو ایک گھوڑا دیا تھا۔ (ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ باب الرجل ینباع صدقتہ وبخاری کتاب الزکوٰۃ) حضرت ابو معقلؓ کے پاس ایک جوان اونٹ تھا، انہوں نے اس کو جہاد کے لئے وقف کردیا تھا۔ (ابوداؤد کتاب المناسک باب العمرۃ) ایک صحابی ایک اونٹنی کی ناک میں نکیل لگائے ہوئے آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو خدا کی راہ میں دیتا ہوں، ارشاد ہوا کہ قیامت کے دن خدا تم کو اس کے بدلے ساتھ سو اونٹنیاں دے گا۔ (مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الصدقہ فی سبیل اللہ وتصقیہا) حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس بہت سی زر ہیں تھیں، جن کو انہوں نے جہاد کے لئے وقف کردیا تھا۔ (ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ باب فی تعجیل الزکوٰۃ) حضرت نوفل بن حارثؓ نے غزوہ حنین میں تین ہزار نیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت کی،چنانچہ آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا، میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے نیزے کفار کی ریڑ کی ہڈیاں توڑ رہی ہیں۔ (اسد الغابہ ،جلد۵،صفحہ ۴۶) عہد نبوت میں انفاق فی سبیل اللہ اسلام کی سب سے بڑی علامت تھی، حضرت رفاعہ بن زیدؓ ایک صحابی تھے جن پر نفاق کا شبہ کیا جاتا تھا، ایک بار ان کے ہتھیار چوری ہوگئے، بعد میں مل گئے تو انہوں نے ان کو جہاد کے لئے وقف کردیا، اب لوگوں کے دل سے نفاق کا شبہ دور ہوگیا۔ (ترمذی ابواب تفسیر القرآن) خلافت راشدہ میں صحابہ کرام کا فوجی نظام خلفائے راشدین نے جو فوجی نظام قائم کیا، اس پر مادی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نگاہ ڈالنی چاہئے۔ حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں مادی حیثیت سے صرف اس قدر ترقی ہوئی کہ مساویانہ تعداد میں فوج کے مختلف دستے قائم کئے گئے اور ہر دستے کے الگ الگ سپہ سالار قرار دیئے گئے،چنانچہ ان کے عہد میں اول اول شام کی طرف جو فوج بھیجی گئی اس میں ہر کمانڈر کی ماتحتی میں تین تین ہزار سپاہی دیئے گئے، اس کے بعد متصل کمک نے اس تعداد کوبڑھا کر ساڑھے سات ہزار تک پہونچادیا، حضرت ابوبکرؓ نے ان دستوں کو قومی حیثیت سے مرتب کیا تھا اور تمام امرائے فوج کو حکم دیا تھا کہ ہر قبیلہ کے لئے الگ الگ جھنڈا قائم کیا جائے ،انہوں نے امیر الامراء کا ایک نیا عہدہ بھی قائم کیا، جو گویا تمام فوج کا کمانڈر انچیف تھا اور سب سے پہلے حضرت خالد بن ولیدؓ اس عہدے پر مامور کئے گئے۔ (فتوح البلدان ،صفحہ ۱۱۰) دستہ بندی کی وجہ سے ان کے زمانے میں فن جنگ میں بھی بہت کچھ ترقی ہوئی، عرب کو چونکہ ہمیشہ ایک نا تربیت یافتہ فوج سے لڑنا پڑتا تھا، اس لئے حالت جنگ میں فوج کسی ترتیب و نظام کی پابند نہ تھی، غیر مرتب صفیں قائم ہوجاتی تھیں اور ہر صف الگ الگ معرکہ آرا ہوتی تھی ؛لیکن حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں جب بمقام یرموک رومیوں سے جنگ ہوئی اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان کی فوج کے ترتیب ونظام کو دیکھا تو تمام فوج کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا۔ ولا تقاتلوا توما علی نظام وتعبیۃ علی تساند وانتشار ایسی مرتب فوج سے متفرق طور پر نہ لڑو۔ چنانچہ انہوں نے فوج کے ۶۳ دستے قائم کئے اور ہر دستے پر الگ الگ کمانڈر مقرر کئے ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں لکھا ہے۔ واول من ابطل الصف فی الحروب وصار الی التعبیۃ کراد یس مروان ابن الحکم (مقدمہ ابن خلدون ،صفحہ ۳۰۰) پہلا شخص جس نے جنگ میں صف بندی کے طریقہ کو موقوف کرکے الگ الگ دستے قائم کئے، مروان بن حکم تھا۔ لیکن یہ تاریخی غلطی ہے، اس کی ابتداء خود حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں ہوگئی تھی، چنانچہ علامہ طبری لکھتےہیں۔ وخرج خالد فی تعبیۃ لم تعبھا العرب قبل ذالک اور خالد نے فوج کو اس طرح آراستہ کیا کہ عرب نے اس سے پہلے اس قسم کی آراستگی نہیں دیکھی تھی۔ اس ترتیب ونظام سے فوج کے مختلف شعبے مثلا قلب میمنہ اور میسرہ قائم ہوگئے اورحضرت عمرؓ کے زمانے میں ان میں اور بھی اضافہ ہوا۔ اخلاقی حیثیت سے خلفائے راشدین کا سب سے اہم فرض یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کو جس قانون جنگ کا پابند بنایا تھا اس کو وہ بھی قائم رکھیں اوراس کی محافظت کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کو جس اخلاق کا پابند بنایا تھا، اس کے دفعات کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ۱۔مال غنیمت میں خیانت نہ کی جائے۔ ۲۔بد عہدی نہ کی جائے۔ ۳۔مقتولین کے ہاتھ پاؤں اور ناک کان نہ کاٹے جائیں۔ ۴۔بچے، عورتیں،بوڑھے اور راہب نہ قتل کئے جائیں۔ ۵۔مسلمانوں کی آبادی پر حملہ نہ کیا جائے۔ ۶۔لوگوں کی جائداد اورمویشیوں سے تعرض نہ کیا جائے۔ ۷۔اسیران جنگ کو ان کے اعزہ واقارب سے جدا نہ کیا جائے۔ ۸۔لونڈیوں سے بغیر استبراء رحم کے مباشرت نہ کی جائے۔ خلفائے راشدینؓ نے شدت کے ساتھ اس قانون کی محافظت کی ؛چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے شام کی طرف فوج بھیجی تو امیر العسکر کو حسب ذیل وصیتیں کیں۔ إِنَّكَ سَتَجِدُ قَوْمًا زَعَمُوا أَنَّهُمْ حَبَّسُوا أَنْفُسَهُمْ لِلَّهِ فَذَرْهُمْ ، وَإِنِّي مُوصِيكَ بِعَشْرٍ لَا تَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلَا صَبِيًّا وَلَا كَبِيرًا هَرِمًا وَلَا تَقْطَعَنَّ شَجَرًا مُثْمِرًا وَلَا تُخَرِّبَنَّ عَامِرًا وَلَا تَعْقِرَنَّ شَاةً وَلَا بَعِيرًا إِلَّا لِمَأْكَلَةٍ وَلَا تَحْرِقَنَّ نَحْلًا وَلَا تُغَرِّقَنَّهُ وَلَا تَغْلُلْ وَلَا تَجْبُنْ (موطا امام مالک ، کتاب الجہاد باب النہی عن قتل النساء والوالدان فی الغزہ) تم ایک ایسی قوم (راہب) کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو عبادت خدا کے لئے وقف کردیا ہے ان کو چھوڑدو، میں تم کو دس وصیتیں کرتا ہوں عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرو، پھلدار درخت کو نہ کاٹو، آبادی کو ویران نہ کرو، بکری اوراونٹ کو ذبح نہ کرو، نخلستان میں آگ نہ لگاؤ، مال غنیمت میں بددیانتی نہ کرو، اور نامرد نہ بنو۔ حضرت عمرؓ نے بھی ان قوانین کا نہایت احترام کیا اور فوج کو عام طورپر ہدایت فرمائی۔ فان قاتلو کم فلاتغدر واو لا تغلوا ولا ثمثلوا ولا تقتلوا ولیدا (کتاب الخراج،صفحہ:۱۲۰) اگر وہ تم سے لڑیں تو بد عہدی نہ کرو، خیانت نہ کرو، مقتولین کے اعضا نہ کاٹو اوربچوں کو قتل نہ کرو۔ ایک بار ان کو معلوم ہوا کہ فوجی لوگ امان دے کر بد عہدی کرتے ہیں تو سپہ سالار فوج کو لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تملوگ کفار کا تعاقب کرتے ہو اورجب وہ پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں تو ان سے کہتے ہو کہ مترس یعنی نہ ڈرو، لیکن جب ان پر قابو پاجاتے ہو تو ان کو قتل کر ڈالتے ہو، اگر اب کوئی شخص اس بد عہدی کا مرتکب ہوا تو خدا کی قسم اس کی گردن اڑادونگا۔ (موطا امام مالک کتاب الجہاد باب ماجاء فی الوفابالامان) لیکن اس اخلاقی قانون کے تحفظ کے ساتھ حضرت عمرؓ نے مادی حیثیت سے بھی نظام فوج کو نہایت ترقی دی چنانچہ ان ترقیوں کی تفصیل یہ ہے۔ ۱۔ایک مستقل محکمہ فوج قائم کیا، تمام لوگوں کے نام درج رجسٹر کروائے اوران کی تنخواہیں مقرر کیں۔ ۲۔ہر جگہ بڑے بڑے اصطبل بنوائے جن میں چار چار ہزار گھوڑے ہر وقت طیار رہتے تھے کہ بوقت ضرورت فوجی تیاریوں میں کوئی دشواری پیش نہ آئے، کوفہ میں اس کا اہتمام سلمان بن ربیعہ باہلی کے متعلق تھا اوراس وجہ سے وہ سلمان الخیل کے لقب سے مشہور تھے،(اسد الغابہ تذکرہ سلمان الخیل) گھوڑوں اوراونٹوں کی پرورش وپرداخت کے لئے متعدد چراگاہیں قائم کرائی تھیں جن کو حمیٰ کہتے ہیں۔ ۳۔ملک میں مختلف چھاؤنیاں قائم کیں، بالخصوص سرحدی اورساحلی مقامات کو نہایت مستحکم اورمحفوظ کیا۔ ۴۔رسد کا مستقل محکمہ قائم کیا جس کو اہراء کہتے تھے۔ ۵۔سپاہیوں کو بھتہ دیا جس عربی میں معونہ کہتے ہیں، جو سپاہی نادار ہوتا تھا اس کو سواری ملتی تھی۔ ۶۔فوج کی صحت اور تندرستی قائم رکھنے کے لئے مختلف تدبیریں کیں ،مثلا: (۱)جو سرد ممالک کے ہوتے تھے وہاں گرمیوں میں اور گرم اور ممالک میں جاڑوں کے موسم میں فوجیں روانہ کرتے تھے۔ (۲)فصل بہار میں عموما ان مقامات میں فوجیں بھیجتے تھے، جن کی آب و ہوا خوشگوار اوروہ سرسبز وشاداب ہوں۔ (طبری،صفحہ ۲۴۸۶) (۳)بارکوں کی تعمیر اور چھاؤنیوں کے بنانے میں ہمیشہ عمدہ آب و ہوا کا لحاظ کرتے تھے۔ (۴)کوچ کی حالت میں فوج کو حکم تھا کہ لوگ جمعہ کے روز شب وروز قیام کرکے دم لے لیں ہر روز اس قدر مسافت بئے کی طےکی جائے کہ لوگ تھکنے نہ پائیں اور پڑاؤ اس مقام پر ڈالا جائے جہاں ضروریات کی تمام چیزیں مل سکیں۔ ۷۔رخصت کا باقاعدہ انتظام تھا جو فوجیں دور دراز مقامات پر رہتی تھیں ان کو سال میں ایک دفعہ ورنہ دو دفعہ رخصت ملتی تھی، چنانچہ ایک بار اس میں تاخیر ہوئی تو فوج خود واپس چلی آئی۔ (ابوداؤد کتاب الخراج باب تعقیب الجیوش) ۸۔فوج کے ساتھ قاضی، افسر خزانہ،محاسب ،طبیب ،جراح اور مترجم مقرر کئے، جو مال غنیمت حاصل ہوتا تھا پہلے اس کی تفصیل لکھی جاتی تھی، محاسب اس کو تقسیم کرتا تھا، طبری میں ہے۔ کان الاخماس یکتب ویحسب (طبری، صفحہ ۲۴۸۶) خمس لکھا جاتا تھا اوراس کا حساب کیا جاتا تھا۔ ۹۔سفر مینا کا انتظام کیا اور یہ کام زیادہ تر ذمیوں سے لیا، وہی پل باندھتے تھے، سڑک بناتے تھے، بازار لگاتے اور یہ تمام خدمتیں مسلمانوں کے حسن سلوک کی بنا پر بخوشی انجام دیتے تھے۔ ۱۰۔ ذمی جاسوسی کی خدمت بھی انجام دیتے تھے، لیکن ان کے علاوہ حضرت عمرؓ نے خود متعدد جاسوس مقرر کررکھے تھے،جوان کو ایک ایک جزئیات کی خبر دیتے رہتے تھے،تاریخ طبری میں ہے۔ وکانت تکون لعمر العیون فی کل جیش ہر فوج میں حضرت عمرؓ کے جاسوس رہتے تھے۔ ۱۱۔مقتولین ومجروحین کو میدان جنگ سے اٹھانے کے لئے خاص خاص اشخاس مقرر کئے جاتے تھے، تاریخ طبری میں ہے۔ وکل سدر جالا ینقل الشھداء (طبری،صفحہ ،۲۳۰۴) حضرت سعد نے شہداء کے اٹھانے کے لئے اشخاص مقرر کئے۔ شہداء کی لاشیں آتی تھیں تو بچے اور عورتیں قبر کھود کھود کر ان کو فن کرتی تھیں۔ (طبری،صفحہ:۲۳۱۷) غزویہ بحریہ بحری جنگ کی تحریک اور ابتداء اول اول حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں ہوئی ؛چنانچہ سب سے پہلے حضرت امیر معاویہؓ نے ان کو بحری جنگ کی طرف توجہ دلائی؛ لیکن حضرت عمرؓ کا معمولی یہ تھا کہ جب کوئی نیا کام کرنا ہوتا تھا، تو کافی معلومات حاصل کرنے کے بعد اس کی ابتداء فرماتے تھے، اس لئے پہلے حضرت عمروبن العاصؓ سے بحری حالات دریافت فرمائے اورانہوں نے اس کو ایک پر خطر کام بتایا، حضرت عمرؓ کو غزوات بحریہ کی مشکلات کا اندازہ ہوا تو اس کی طرف سے توجہ ہٹالی اورمسلمانوں کو اس ،(مقدمہ ابن خلدون،صفھہ ۲۷۷،وطبریصفحہ :۲۴۶) کی ممانعت فرمائی، لیکن صحابہ کرام کے جوش جہاد کے لئے زمین کی وسعت کافی نہ تھی اس لئے باوجود اس ممانعت کے علاءبن حضرمیؓ اورحضرت عرفجہ بن ہر ثمہ ازدیؓ نے حضرت عمرؓ کی جازت کے بغیر ناکام بحری حملے کئے، حضرت عمرؓ کو ان کی ناکامی کا حال معلوم ہوا تو سخت زجز تو بیخ کی اور معزولی کی دھمکی دی، (فتوح البلدان،صفحہ۱۵۹،۱۶۰) اس کے بعدان کے عہد خلافت میں کوئی بحری جنگ نہیں ہوئی ؛لیکن حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں یہ جوش دوبارہ تازہ ہوا، حضرت امیر معاویہؓ کو ابتداہی سے رومیوں کے ستھ بحری جنگ کا خیال تھا، انہوں نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں اس خیال کو ظاہر بھی کیا تھا ؛لیکن انہوں نے اجازت نہیں دی ،حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں انہوں نے پھر یہ درخواست کی، پہلے تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ حضرت عمرؓ نے تم کو اس سے روکا تھا، انہوں نے دوبارہ خواہش ظاہر کی تو اجازت دی ،چنانچہ انہوں نے ۲۸ھ میں موسم سرما کے بعد قبرس پر پہلا بحری حملہ کیا، اور وہاں سے چند شرائط پر صلح کرکے واپس آئے ۳۲ھ میں ان لوگوں نے بعض شرائط صلح کی خلاف ورزی کی، تو حضرت امیر معایہؓ نے پانچسو جہازوں کے ساتھ دوبارہ حملہ کرکے قبرس کو فتح کرلیا اور وہاں عرب کی نو آبادیاں قائم کیں، مسجدیں تعمیر کیں اورایک شہر آباد کیا، اس کے بعد غزوات بحریہ کا عام سلسلہ قائم ہوگیا اور برابر قائم رہا، اسد الغابہ میں ہے۔ کان جنادۃ بن امیہ علی غزوالروم فی البحر لمعاویۃ من زمن عثمان الی ایام یزید (اسد الغابہ تذکرہ جنادہ بن امید) خبادہ بن امیہ حضرت عثمانؓ کے زمانے سے یزید کے زمانہ تک امیر معاویہ کی جانب سے رومیوں کے ساتھ غزویہ بحریہ میں مشغول رہے۔ طبری نے لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن قیسؓ حارثی کو حضرت امیر معاویہؓ نے امیر البحر مقرر فرمایا تھا اورانہوں نے بچاس بحری لڑائیاں کیں جن میں مسلمانوں کا ایک آدمی بھی ضائع نہ ہوا۔ (طبری ،صفحہ ۲۸۲۴) جہاز سازی کا کارخانہ ایسے عظیم الشان بحری حملے جس میں پانچ پانچ سو جہازوں کا بیڑا سطح سمندر پر تلاطم انداز ہو،بغیر جہاز سازی کے کارخانے کے نہیں کئے جاسکتے تھے، اس لئے حضرت امیر معاویہؓ نے متعدد جہاز سازی کے کارخانے قائم کئےتھے ،جن میں پہلا کارخانہ مصر میں ۵۴ھ میں قائم کیا گیا تھا۔ (حسن المحاضرہ،جلد۲،صفحہ۱۹۹) علامہ بلاذری کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اور تمام ساحلی مقامات پر بھی جہاز سازی کے کارخانے قائم کئے تھے، چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں۔ کانت الضاعۃ بمصر فقط فامر معاویۃ بجمع الصناع والنجار ین فجمعوا وربتھم فی السواحل وکانت الصناعۃ فی الاردن لعکا جہاز سازی کا کارخانہ صرف مصر میں تھا؛لیکن امیر معاویہؓ کے حکم سے کاریگراور بڑئھائی جمع کئے گئے اوران کو انہوں نے تمام ساحلی مقامات پر مقرر کیا، اوراردن میں بمقام عکا جہاز سازی کا کارخانہ تھا۔ یہ کارخانہ مدتوں قائم رہا؛ لیکن ہشام بن عبدالملک نے اس کو صور میں منتقل کردیا۔ (فتوح البلدان ،صفحہ ۱۲۴،عربی میں صناعۃ کے لفظ کا جیسا کہ علامہ سیوطی نے تصریح کی ہے جہاز سازی کے کارخانہ پر اطلاق کیا جاتا ہے)