انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خطابت خطابت اس عہد کا بڑا کمال سمجھی جاتی تھی، ابن زبیرؓ کا شمار اپنے عہد کے ممتاز خطبا میں تھا عثمان بن طلحہؓ روایت کرتے ہیں کہ بلاغت میں ابن زبیرؓ کا کوئی حریف نہ تھا، جب وہ خطبہ دیتے تو آواز کی کڑک سے پہاڑیاں گونج اٹھتی تھیں (تاریخ الخلفا سیوطی:۲۱۳) ان کی ایک تقریر نمونۃً نقل کی جاتی ہے،اس سے ان کی خطابت کا اندازہ ہوگا، اس تقریر کی شان نزول یہ ہے کہ ابن زبیرؓ کے بھائی مصعبؓ ان کی جانب سے عراق کے حاکم تھے، ایک مرتبہ ابن زبیرؓ کے پاس عراق سے وفد آیا، انہوں نے اس سے مصعبؓ کے حالات پوچھے ارکان وفد نے مصعبؓ کے حسن سیرت اور عدل پر وری کی بڑی تعریف کی،ابن زبیرؓ نے تمام مسلمانوں کی آگاہی کے لئے جمعہ کے بعد مصعبؓ کے حالات کے بارہ میں حسب ذیل تقریر کی: أيها الناس إني سألت الوفد عن مصعب فأحسنوا الثناء عليه وذكروا ما أحبه وإن مصعبا أطبى القلوب حتى ما تعدل به والأهواء حتى ما تحول عنه واستمال الألسن بثنائها والقلوب بنصحها والنفوس بمحبتها فهو المحبوب في خاصته المحمود قي عامته بما أطلق الله به لسانه من الخير وبسط يده من البذل (الامالی فی لغۃ العرب،باب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۱/۲۸۶) لوگو!میں نے وفد سے مصعب کے حالات پوچھے، انہوں نے ان کی بڑی تعریف کی اورجیسا میں چاہتا تھا وہی ان سے سنا مصعب نے لوگوں کے دلوں کو مسحور کرلیا ہے کہ وہ کسی کو ان کے برابر نہیں سمجھتے اورخواہشوں کو ایسا فریفتہ کرلیا ہے کہ ان سے الگ نہیں ہوتیں، انہوں نے اپنے حسن عمل سے زبانوں کو اپنی تعریف میں اور دلوں کو اپنی خیر خواہی اور نفوس کو اپنی محبت کا گرویدہ بنالیا ہے اور وہ اپنے خاص طبقہ کے محبوب اور عام طبقہ کے پسندیدہ انسان ہیں اوریہ اس کا نتیجہ ہے کہ خدا نے ان کی زبان کو بھلائی کے لئے کھول دیا ہے اور ہاتھ کو سخاوت کے لئے دراز کردیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کی بڑی بڑی لمبی تقریریں ہیں، ہم نے اختصار کے خیال سے ایک مختصر نمونہ نقل کیا ہے۔