انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن عمروؒ بن حفصؒ نام ونسب عبداللہ نام،ابوعبدالرحمن کنیت اور نسب نامہ یہ ہے عبداللہ بن عمرو بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ،قبیلہ قریش کی شاخ بنو عدی سے نسبی تعلق رکھنے کے باعث عدوی کہلاتے ہیں، اس کے علاوہ عمری اورمدنی خاندانی ووطنی نسبتیں ہیں۔ (مرأۃ الجنان:۱/۳۶۷) وطن اورخاندان مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے اورفاروقِ اعظم کے اس خانوادہ فضل وکمال سے تعلق رکھتے تھے،جس کے بے شمار افراد آسمانِ علم پر نیر تاباں بن کر چمکے؛چنانچہ ان کے بھائی عبید اللہ،جنہیں تابعیت کا شرف حاصل ہے،ثقات تثبت اور اتقان میں مسلم حیثیت کے مالک تھے۔ علم وکمال علم و عمل کے اعتبار سے وہ نہایت بلند مرتبہ تھے،حدیث میں تبحر کے ساتھ تقویٰ،عبادت اور صالحیت میں بھی نمایاں مقام حاصل تھا، علامہ ذہبیؒ "کان محدثاً صالحاً" لکھتے ہیں (العبر فی خبر من غبر :۱/۲۶۰)ابن الاہول کابیان ہے کہ عبداللہ علم کی علامت اورعبادت کی انتہا تھے۔ (شذرات الذہب:۱/۳۷۹) اساتذہ جن حفاظِ حدیث سے انہوں نے روایت کی ہے ان میں نافع مولیٰ بن عمر، حمید الطویل،سعید المقہری،زید بن اسلم،سہیل بن ابی صالح ،سعید بن سعید الانصاری، قاسم بن غنام کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ تلامذہ خود ان کے حلقۂ درس سے مستفید ہونے والوں میں ان کے صاحبزادے عبدالرحمن کے علاوہ کچھ لائق ذکر نام یہ ہیں،عبدالرحمن بن مہدی،لیث بن سعد، عبداللہ بن وہب،عبدالرزاق،یعقوب بن الولید المدنی، یونس بن محمد المؤدب مطرف بن عبداللہ المدنی۔ (تہذیب التہذیب:۵/۳۲۶،۳۲۷) مرویات کا پایہ ان کی مرویات کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل بہت اختلاف رائے رکھتےہیں، توثیق وتضعیف کرنے والے علماء کا پلہ برابر ہے،ابن حبان کا خیال ہے کہ دراصل عبداللہ عبادت وصلاح سے اس قدر مغلوب تھے کہ حفظ وضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا،اس لیے وہ متروک الحدیث قرار دیئے جانے کے مستحق ہیں،ان کی عدالت وثقاہت کی شہادت دینے والوں میں ابن معین،یعقوب بن شیبہ،ابن عدی اوراحمد بن یونس شامل ہیں اورجن ائمہ نے ان کی روایات کو ناقابل حجت اورضعیف قراردیا ہے ان میں علی بن مدینی،یحییٰ بن سعید نسائی اور امام احمد وغیرہ کے نام پیش پیش ہیں، مؤخر الذکر ان کی تضعیف کے باوصف ان کے فضل وکمال اورتقویٰ وصالحیت کے پورے طور پر قائل ہیں۔ (خلاصہ تذہیب :۲۰۷) صلاح وتقویٰ نہایت عبادت گذار اورتقویٰ وصالحیت سے متصف تھے،حتیٰ کہ ان اوصاف کے غلبہ نے علماء کی نظر میں ان کے حفظ واستحضار کو بھی مجروح کردیا تھا، کیونکہ ان کی کلی توجہ احادیث وآثار کی طرف باقی نہ رہی تھی ابن حبان بیان کرتے ہیں کہ: کان ممن غلب علیہ الصلاح والعبادۃ حتیٰ غفل عن حفظ الاخبار وجودۃ الحفظ للاٰثارِ (میزان الاعتدال:۲/۵۹) وہ ان علماء میں تھے جن پر عبادت وصالحیت کا غلبہ تھا،یہاں تک کہ اس وصف نے انہیں احادیث وروایات کے حفظ وضبط نے غافل کردیا۔ حق گوئی وبیباکی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر ائمہ سلف کا مشترک شعار رہا ہے،یہاں تک کے سلاطین وقت کی شوکت وجبروت کے سامنے بھی وہ اپنی حق گوئی وبیباکی کے آئین میں کوئی تبدیلی گوارا نہیں کرتے تھے، اسلامی تاریخ کے اوراق اس قسم کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں،عبداللہ بن عمرؓ بھی انہی خاصانِ خدا میں تھے۔ ایک بار ایامِ حج میں ہارون الرشید کو سعی (صفا ومروہ کے درمیان)میں روک کر اس کی بد عنوانیوں پر سخت بُرا بھلا کہا،علامہ یافعی نے ان دونوں کے مکالمہ کو نقل کیا ہے جو یہ ہے۔ شیخ :اے ہارون! خلیفہ:جی چچا جان،حاضر ہوں،فرمائیے: "کیا تم ان حاجیوں کی تعداد شمار کرسکتے ہوشیخ نے حجاج کرام کے انبوہ عظیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا۔ بھلا اسےکون شمار کرسکتا ہے ،خلیفہ بولا کان کھول کر سُن لو! شیخ نے نہایت جرأت سے کہا: ان میں سے ہر ہر شخص تو خود اپنا مسئول ہے،لیکن تم خدا کے نزدیک ان سب کے جواب دہ اورذمہ دار ہو، پھر ذرا رک کر ارشاد فرمایا: بخدا جب انسان خود اپنے مال میں اسراف کرتا ہے وہ لائق تعزیر قرار پاتا ہے ،تو پھر اگر وہ عام مسلمانوں کے مال میں فضول خرچی کا مرتکب ہو تو اس کی سزا کس قدر بڑی ہوگی۔ (مرأۃ الجنان:۱/۳۶۷) وفات باختلافِ روایت ۱۷۱ھ یا ۱۷۳ھ میں بمقام مدینہ طیبہ انتقال فرمایا اس وقت ہارون الرشید اورنگ خلافت پر فائز تھا۔ (خلاصہ میں ۲۰۷،میزان الاعتدال:۲/۵۹،وتہذیب التہذیب:۵/۳۲۷)