انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ارشاد وہدایت دنیا اندھیرے میں بھٹک رہی تھی، نیکی کا چراغ گل ہوگیا تھا، بدی کی گھٹا افق عالم پر چھاگئی تھی کہ اس حالت میں غار حرا سے ایک چاند نکلا اوردنیا اجالی ہوگئی ؛لیکن یہ جو کچھ ہواصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت وعظ و پند اورارشاد و ہدایت کا نتیجہ تھا، اس لئے آپ ﷺکے بعد دنیا پھر اندھیری ہوجاتی اگر صحابہ کرام نے اس سلسلہ کو قائم نہ رکھا ہوتا۔ پندونصیحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ ہمہ وقت ارشاد و ہدایت میں مصروف رہتے تھے؛ تاہم یہ ایک ایسا اہم فرض تھا کہ اس کے لئے آپ نے ایک وقت مخصوص کرلیا تھا، اور ایک روز کےناغہ سے صحابہ کرام کو وعظ و پند فرمایا کرتے تھے ،آپﷺ کے بعد صحابہ کرام نے بھی یہ روش قائم رکھی، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی جمعرات کے دن کو وعظ و پند کے لئے مخصوص کردیا تھا۔ (مسلم کتاب المنافقین واحکام مہم باب الاقتصاد فہ الموعظۃ وبخاری کتاب العلم) نمونہ ومثال آفتاب کسی کو اندھیرے میں بھٹکنے نہیں دیتا، لیکن باایں ہمہ زبان سے کچھ نہیں کہتا؛ بلکہ اپنی شعاعوں کو بھیج دیتا ہے ، جو نہایت خاموشی کے ساتھ ہر شخص کی انگلی پکڑ کر سیدھی راہ پر لگادیتی ہیں، خلفاء راشدین بھی آفتاب نبوت کا پر تو تھے اس لئے وہ ارشاد و ہدایت کے لئے دنیا کے سامنے ایسی روشن مثالیں پیش کرنا چاہتے تھے، جن کو دیکھ کر ہر شخص خود بخود سیدھی راہ پالے۔ ایک دفعہ حضرت طلحہ بن عبیدؓ اللہ حالت احرام میں رنگین کپڑے پہنے ہوئے تھے حضرت عمرؓ نے دیکھا تو فرمایا لوگو! تم امام ہو اورتمام دنیا تمہاری تقلید کرتی ہے اس لئے اگر کوئی جاہل آدمی اس کپڑے کو دیکھے گا تو کہے گا کہ طلحہ بن عبیدؓاللہ حالتِ احرام میں رنگین کپڑے پہنتے تھے پس اے لوگو اس قسم کا کپڑا ہر گز نہ پہنو۔ (موطا امام مالک کتاب الحج باب لبس الثیاب المصبنعۃ فی الاحرام) وعظ گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو اس کی ضرورت ہی نہ تھی، حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں بھی اس کا رواج نہیں ہوا، حضرت عمرؓ پہلے شخص تھے، جن کے عہد خلافت میں اس کی ایجاد ہوئی اورحضرت تمیم دارمیؓ نے ان کی اجازت سے کھڑے ہوکر وعظ کیا،(مسند ابن حنبل ،جلد۳،صفحہ۴۴۹) چنانچہ اس طریقہ کو حضرت عمرؓ کے اولیات میں شمار کیا کیا جاتا ہے ؛لیکن اگر کوئی شخص وعظ کو محض گرمی محفل کا ذریعہ بنانا چاہتا اوراس میں تکلف و تصنع سے کام لیتا تو صحابہ کرام نہایت سختی کے ساتھ روک ٹوک کرتے ،واعظین گرمی مجلس کے لئے مقفی و مسجع دعائیں بنا بنا کر پڑھا کرتے اوراپنے تقدس کے اظہار کے لئے موقع بے موقع ہر وقت وعظ کے لئے آمادہ رہتے۔ حضرت عائشہؓ کے زمانے میں ابن ابی السائب تابعی نے یہ طریقہ اختیار کیا تو انہوں نے ان سے خطاب کرکے کہا تم مجھ سے تین باتوں کا عہد کرو ورنہ بزور تم سے باز پرس کروں گی ،عرض کیا ام المومنین! وہ کیا باتیں ہیں ؟ فرمایا دعاؤں میں مسجع عبارتیں نہ بناؤ اس لئے کہ آپ ﷺاور آپ کے اصحاب ایسا نہیں کرتے تھے، ہفتہ میں صرف ایک دن وعظ کہا کرو، اگر یہ کافی نہ ہو تو دو دن اوراس سے بھی زیادہ چاہو تو تین دن ،لوگوں کو خدا کی کتاب سے اکتا نہ دو، ایسا نہ کرو کہ جہاں لوگ بیٹھے ہوں آکر بیٹھ جاؤ اور قطع کلام کرکے اپنا وعظ سنانا شروع کردو، بلکہ جب ان کی خواہش ہو اور وہ درخواست کریں تب کہو۔ (مسند احمد،جلد۷،صفحہ ۲۱۷) کلمات طیبہ صحابہ کرام کی زبان سے جو کلمات طیبہ نکل گئےوہ بھی ارشاد وہدایت کے سلسلے میں داخل ہیں ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ لوگوں میں اس طرح رہو جس طرح اڑنے والی شہد کی مکھی کہ اس کو ہر چڑیا اپنے آپ سے کمزور سمجھتی ہے؛لیکن اگر اس کو معلوم ہوتا کہ اس کے پیٹ میں کیا برکت بھری ہوئی ہے تو وہ ایسا نہ کرتی ،لوگوں کے ساتھ جسم اور زبان سے ملے جلے رہو ؛لیکن دل اور عمل سے الگ رہو۔ (دارمی باب فی اجتناب الاہوار) ایک بار حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت ابوالدرداؓ کو لکھا کہ علم ایک چشمہ ہے جس پر لوگ آتے ہیں اوراس سے نالیاں نکالتے ہیں اور خدا اس سے بہتوں کو فائدہ پہونچاتا ہے؛ لیکن اگر کوئی حکمت خاموش ہو تو وہ جسم بے روح ہے اگر کوئی علم لٹایا نہ جائے تو وہ مدفون خزانہ ہے، عالم کی مثال اس شخص کی سی ہے جو تاریک راستے میں چراغ دکھاتا ہے؛ تاکہ لوگ اس سے روشنی حاصل کریں اوراس کو دعادیں۔ (دارمی باب البلاغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و تعلیم السنن) اس کے علاوہ صحابہ کرام کے اور بھی بہ کثرت مقولے ہیں جس کو ہم تطویل کے لحاظ سے قلم انداز کرتے ہیں۔