انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حنفی قواعد فقہ میں الفاظ حدیث کی رعایت تاحد نظر پھیلی ہوئی یہ زمین کتنی ہی تہذیبوں کا مدفن اور بے شمار علوم وفنون کامظہر ہے، سیدنا آدم علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس دم آسمان سے اس دھرتی کے سینے پر قدم رکھا، حیوانوں اور جنوں سے بھری ہوئی اس دنیا میں علم وفن کے چراغ اور فکر نظر کے دیپ جل اُٹھے، اس وقت سے آج تک تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا، جس میں اولاد آدم کا قافلہ مکمل طور پر اس مشعلِ راہ سے تہی دست ومحروم ہوکر حیوانیت کی تاریک راہوں میں بھٹک گیا ہو، ساتویں صدی عیسوی میں اسلام کی آمد کے بعد علم وفن کے صحن میں ایک نئی صبح نمودار ہوئی اور تحقیق ومعرفت کے بند دروازے کھلے، آپ دنیا میں جس طرف بھی نظر اٹھائیں گے، مختلف علوم کی ایک آباد بستی نظر آئے گی، چاہے ان علوم کا تعلق دین ومذہب سے ہویادنیا ومافیہا سے، روحانیت سے ہویامادیت سے، علوم وفنون کی اس کہکشاں کا ایک روشن حصہ علم فقہ ہے، جس کوسیکھنے کا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کوتاکیدی حکم دیا ہے۔ (التوبہ:۱۲۲) جس طرح ہرعلم کے کچھ قواعد واصول (Principle) ہوتے ہیں، جن پر اس علم کی عمارت قائم رہتی ہے؛ اسی طرح فقہ کے بھی کچھ قواعد ہیں، جن کے گرد فقہ کی تمام جزئیات چکرلگاتی ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ گفتگو کودراز کرنے سے پہلے قواعد فقہیہ کی تعریف کردی جائے؛ تاکہ ان کے مباحث کا سمجھنا آسان ہوجائے، قواعدِ فقہیہ کی مختلف انداز سے علماء نے تعریف کی ہے؛ لیکن سب سے جامع تعریف وہ ہے جوفقیہ العصر استاذ مصطفےٰ الزرقاء نے فرمائی ہے، قواعد فقہیہ کی تعریف کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں: "أصول فقهية كلية في نصوص موجزة دستورية تتضمن أحكاما تشريعية عامة في الحوادث التي تدخل تحت موضوعها"۔ (التطبيقات الفقهية لقاعدة اليسير مغتفر في البيوع، "التمھید":۴/۷، شاملہ، الإشراف العلمي: فضيلة الشيخ الدكتور يوسف بن عبد الله الشبيلي) وہ عمومی فقہی اصول ہیں، جن کومختصر قانونی زبان میں مرتب کیا گیا ہو اور جن میں ایسے عمومی قانونی اور فقہی احوال بیان کئے گئے ہوں، جواس موضوع کے تحت آنے والے حوادث وواقعات کے بارے میں ہوں۔ ڈاکٹرمحمود احمد غازی ان قواعد کی قانونی حیثیت پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "قاعدہ کلیہ کی حیثیت صرف یہ ہے کہ وہ زیرِبحث موضوع سے متعلق فقہ اسلامی کی عمومی فکراور منہاج کوواضح کرتا ہے، اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں مسئلہ میں فقہی رخ معلوم کرنے کا عمومی اسلوب کیا ہے؛ لہٰذا جس طرح فقہ کے دوسرے جزئی اور فروعی احکام براہِ راست یابالواسطہ قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں؛ اسی طرح قواعدِ کلیہ بھی قرآن وسنت سے ماخود ہیں؛ اگرکوئی قاعدہ کلیہ قرآن وسنت کے کسی حکم سے متعارض ہوتو اسکی سرے سے کوئی حیثیت نہیں ہے"۔ (قواعد ِکلیہ اور ان کا آغاز وارتقاء، مقالہ ڈاکٹرمحموداحمد غازی، سہ ماہی مجلہ، بحث ونظر صفحہ نمبر:۱۴) اسی طرح قوعاد فقہ کے اہم مقاصد اور فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے "مجلۃ الاحکام" کے مرتبین وشارحین رقمطراز ہیں: "فقہی احکام کی پشت پر جوعمومی اندازِ فکر کارفرما ہے، اس سے ایک عمومی واقفیت پیدا کرنے کے لیے اِن قواعد کا مطالعہ ناگزیر ہے، قواعدِ کلیہ کے مطالعہ سے فقہی احکام سے ایک گونہ مناسبت پیدا ہوجاتی ہے، قواعد کلیہ کے مطالعہ سے فقہ اسلامی میں گہرا درک حاصل ہوجاتا ہے، منتشر ومتفرق فقہی مسائل کومرتب ومنضبط کرنے اور انھیں ایک مربوط قانونی نظام کے تحت لانے میں مدد ملتی ہے، فروع وجزئیات چونکہ بے شمار ہیں اس لیے ان سب کے تفصیلی دلائل یاد کرنا اور مستحضر رکھنا مشکل ہے؛ اگرقواعدِ کلیہ اور ان کے ماخذ ودلائل سے ایک بار واقفیت پیدا ہوجائے توان کے تحت آنے والے فروع وجزئیات کی جڑ ہاتھ آجاتی ہے، قواعدِ کلیہ سے واقفیت کے بعدانسان کے لیے روزمرہ زندگی میں شریعت کے نقطہ نظر کوجاننا اور اپنے معاملات پر منطبق کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ (دررالحکام شرح مجلۃ الأحکام:۱/۱۱، طبع بیروت) مذکورہ اقتباسات سے چند باتیں معلوم ہوئیں: (الف)قواعد فقہ کواسلام کے مزاج اور عمومی فکروفلسفہ کوسامنے رکھ کر مرتب کیا گیا۔ (ب)اس کا مقصد فقہ اسلامی کے انداز تفکیر اور فقہی حکم معلوم کرنے کے صحیح طریقۂ کار سے واقفیت حاصل کرنا؛ نیزبے شمار فروع مسائل کے دریا کوچند اصولی قواعد کے کوزہ میں بند کرنا ہے؛ تاکہ استخراجِ مسائل کے ساتھ ساتھ استحضارِ مسائل میں بھی آسانی کی راہ ہموار کی جاسکے۔ (ج)فروع مسائل کی طرح یہ اصولی قواعد بھی کتاب وسنت ہی سے ماخوذ ہیں، ان کا سرچشمہ قرآن وحدیث یااجماعِ صحابہ کے علاوہ دوسری چیز نہیں ہے۔ دورِ حاضر میں جہاں فقہی مسائل وجزئیات پر بے جااعتراضات کئے گئے، وہیں قواعد فقہ کوبھی طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا گیا اور یہ غلط پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ قواعد وضوابط قرآن وحدیث پر عمل نہ کرنے کا مہذب حیلہ اور بہانہ ہیں؛ پھریہ بھیانک تہمت فقہاء پرلگائی کہ وہ پہلے ایک قاعدہ بناتے ہیں؛ پھرنصوص کواسی قاعدہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے آثار نبویہ کی رعایت رہے یا نہ رہے (سُبْحَانَکَ ھَذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ)۔ اگرچہ قواعد فقہ کی مفصل کتابیں اور فقہی قاعدوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے والوں کے سامنے ان الزامات واعتراضات کی کوئی وقعت نہیں ہے؛ پھربھی بطورِ نمونہ ذیل میں چند فقہی قواعد بیان کرکے حدیث پاک سے ان کی تائیدات ودلائل پیش کیئے جاتے ہیں، جن سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ ان قواعد کے خمیر میں بھی حدیث وسنت ہی کا ماءِ شیریں موجود ہے۔ (۱)فقہی قاعدہ "لَاثَوَابَ إلَّابِالنِّيَّةِ"۱؎۔ ثواب کا دارومدار نیت پر ہے۔ اس قاعدہ کو فقہاء "الْأُمُورُ بِمَقَاصِدِهَا" کے الفاظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، یعنی ہرکام کی اچھائی اور برائی کا دارومدار فاعل کی نیت پر ہے؛ اگر اس کی نیت ثواب کی ہے اور شریعت میں اس عمل کی اجازت بھی ہے توثواب ملے گا اور اگر کام جائز ہولیکن کام کرنے والے کی نیت بری ہوتو وہی کام گناہ کا سبب بن جائے گا؛ اسی طرح کوئی شخص بغیر نیت کے کوئی مباح کام کرے تواس کونہ ثواب ملے گا نہ گناہ ہوگا، غور کیا جائے تویہ قاعدہ درجِ ذیل حدیث سے مستنبط ہے، امام بخاریؒ حضرت عمرؓ سے نبی کریمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں: "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَالِكُلِّ امْرِئٍ مَانَوَى"۲؎۔ اعمال (کے ثواب) کا دارومدار نیت پر ہے، ہرآدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ (۱)الاشباہ والنظائر لابنِ نجیمؒ:۲۵، الفن الاول، مطبوعہ:یاسرندیم اینڈ کمپنی دیوبند۔ (۲)بخاری،بدْءِ الْوحْيِ، حدیث نمبر:۱، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۲)فقہی قاعدہ "الْيَقِينُ لَايَزُولُ بِالشَّكِّ"۳؎۔ شک کی وجہ سے یقین زائل نہیں ہوتا۔ یعنی اگرایک شخص کوکسی کام کے ہونے یانہ ہونے کا پورا یقین تھا؛ پھرکسی وجہ سے شک پیدا ہوگیا تواس شک کی وجہ سے وہ یقین ختم نہیں ہوگا؛ بلکہ وہ بحالہ برقرار رہے گا اور شک پر عمل نہیں کیا جائے گا، یہ قاعدہ اس صحیح حدیث سے ماخوذ ہے، جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں نقل فرمایا ہے: "إِذَاشَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلَاثًا أَمْ أَرْبَعًا فَلْيَطْرَحْ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى مَااسْتَيْقَنَ"۴؎۔ اگرکسی کو دورانِ نماز شک ہوجائے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہے یاچار رکعت، تووہ شک کوچھوڑ دے اور جس کا یقین ہو اس پر عمل کرے۔ (۳)الاشباہ والنظائر:۱/۱۰۰۔ القواعد الفقہیۃ:۳۵۴، للشیخ علی احمد الندوی۔ (۴)مسلم، كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ،بَاب السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ وَالسُّجُودِ لَهُ،حدیث نمبر:۸۸۸، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۳)فقہی قاعدہ "مَنْ تَيَقَّنَ الْفِعْلَ وَشَكَّ فِي الْقَلِيلِ، وَالْكَثِيرِ حَمَلَ عَلَى الْقَلِيلِ؛ لِأَنَّهُ الْمُتَيَقَّنُ"۵؎۔ جس شخص کوکسی فعل کے وجود کا یقین ہو؛ لیکن کمی وزیادتی میں شک ہوجائے تواس فعل کوقلیل پر محمول کیا جائے گا؛ کیونکہ وہ یقینی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو کسی عبادت وغیرہ کی مقدار میں اشتباہ (Doubt) ہوجائے، مثلاً نماز میں یاروزہ میں شبہ ہوجائے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہے یاچار رکعت، چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء کے باےر میں شک ہوجائے کہ دس روزہ کی قضاء کی ہے یا آٹھ کی، تواس صور میں حکم یہ ہے کہ کم تعداد پر عمل کرتے ہوئے تین رکعت اور آٹھ روزوں کی قضاء مانی جائے گی؛ کیونکہ تین اور چار؛ اسی طرح آٹھ اور دس میں، تین اور آٹھ تویقینی ہیں، زائد میں شک ہے؛ لہٰذا مذکورہ قاعدہ کے مطابق کم تعداد کویقینی مان کر اسی پر عمل کیا جائے گا، یہ قاعدہ مذکورۂ ذیل کی حدیث نبویﷺسے مستنبط ہے، جسے امام ترمذیؒ نے نقل کیا ہے، آپﷺ کا ارشاد ہے: "إِذَاسَهَا أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ وَاحِدَةً صَلَّى أَوْثِنْتَيْنِ فَلْيَبْنِ عَلَى وَاحِدَةٍ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثِنْتَيْنِ صَلَّى أَوْثَلَاثًا فَلْيَبْنِ عَلَى ثِنْتَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثَلَاثًا صَلَّى أَوْأَرْبَعًا فَلْيَبْنِ عَلَى ثَلَاثٍ"۶؎۔ اگرکوئی شخص نماز میں بھول جائے اور اس کوشک ہوجائے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یادورکعت؛ تووہ ایک رکعت پر نماز کی بناء کرے اور اگرشک ہوجائے کہ دورکعت پڑھی ہے یاتین رکعت تووہ دورکعت کا اعتبار کرتے ہوئے نماز پوری کرے اور اگرشک ہوجائے کہ تین رکعت پڑھی ہے یاچار، تووہ تین رکعت پر بناء کرے۔ (۵)الاشباہ والنظائر:۱۰۵۔ (۶)ترمذی،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فَيَشُكُّ فِي الزِّيَادَةِ وَالنُّقْصَانِ،حدیث نمبر:۳۶۴، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۴)فقہی قاعدہ "الْمَشَقَّةُ تَجْلُبُ التَّيْسِيرَ"۷؎۔ مشقت آسانی کولاتی ہے۔ یعنی اگرکسی حکم پر عمل کرنے میں اجتماعی دشواری ہو اور اس عمل کوبہت زیادہ تکلیف ومشقت کے بغیر نہ کیا جاسکتا ہوتو اس میں تخفیف اور آسانی پیدا کرتی جاتی ہے، اس قاعدہ کی دلیل یہ احادیثِ صحیحہ ہیں: "لَوْلَاأَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْعَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ"۸؎۔ اگرمجھے امت پر یالوگوں پر تنگی اور مشقت کا خوف نہ ہوتا تومیں ان کوہرنماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے: "أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ فَخَرَجَ عُمَرُ فَقَالَ الصَّلَاةَ يَارَسُولَ اللَّهِ رَقَدَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ فَخَرَجَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ يَقُولُ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْعَلَى النَّاسِ وَقَالَ سُفْيَانُ أَيْضًا عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالصَّلَاةِ هَذِهِ السَّاعَةَ"۹؎۔ نبی کریمﷺ ایک مرتبہ عشاء کی نماز کے لیے بہت دیرتک تشریف نہیں لائے، جب بہت دیر ہوگئی توحضرت عمرؓ باہر نکلے اور آواز لگائی، اے اللہ کے رسولﷺ ! نماز (کے لیے بہت دیرہوگئی ہے) عورتیں اور بچے سوگئے ہیں، اس کے بعد آپﷺ اس حالت میں باہر آئے کہ آپﷺ کے سرسے پانی ٹپک رہا تھا اور فرمایا: اگرمیری امت پر، یافرمایا:لوگوں پر، مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تومیں ان کوحکم دیتا کہ وہ اس نماز کواسی وقت ادا کریں۔ ان احادیث میں نبی کریمﷺ نے مشقت وتنگی کے پیشِ نظر امت پر ااسانی فرماتے ہوئے ان دونوں باتوں کاحکم نہیں دیا۔ (۷)القواعد الفقہیۃ:۱۳۶۔ الاشباہ والنظائر:۱۲۵۔ (۸)بخاری، كِتَاب الْجُمُعَةِ،بَاب السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،حدیث نمبر:۸۳۸، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۹)بخاری، كِتَاب التَّمَنِّي،بَاب مَايَجُوزُ مِنْ اللَّوْ،حدیث نمبر:۶۶۹۸، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۵)فقہی قاعدہ "الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ"۱۰؎۔ ضرورت ممنوعات کومباح کردیتی ہے۔ یعنی مجبوری کی صورت میں شریعت کی حرام کردہ اور ممنوع چیز کوضرورت کی حد تک استعمال کرنا درست اور جائز ہے، مثلاً: شراب اور خنزیر کاگوشت حرام ہے؛ لیکن مجبوری کی حالت میں جب کہ موت کا اندیشہ ہو ان چیزوں کوکھانا جائز ہے، مندرجۂ ذیل احادیث صحیحہ سے اس قاعدہ کی تائید ہوتی ہے۔ شریعت کا ضابطہ ہے کہ جوشخص حج کوجائے تووہ ۱۰/ذی الحجہ کوذبح کے بعد اپنے بال کٹائے گا؛ لیکن ضرورت کی بناء پرآپﷺ نے اس سے پہلے بھی بال کاٹنے کی اجازت دی ہے؛ چنانچہ حضرت کعب بن عجرۃؓ فرماتے ہیں: "أَنَّ النَّبِيَّﷺ مَرَّبِهِ وَهُوَبِالْحُدَيْبِيَةِ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ مَكَّةَ وَهُوَمُحْرِمٌ وَهُوَيُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ وَالْقَمْلُ يَتَهَافَتُ عَلَى وَجْهِهِ فَقَالَ أَتُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ هَذِهِ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ احْلِقْ"۱۱؎۔ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے نبی رحمتﷺ حدیبیہ کے مقام پر میرے پاس سے گزرے، میں اس وقت حالتِ احرام میں تھا، سرکی جویں (کثرت کی وجہ سے) میرے چہرے پر رینگ رہی تھیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیایہ جوئیں تم کوپریشان کررہی ہیں؟ میں نے جواب دیا ہاں! اے اللہ کے رسولﷺ ؛ توآپﷺ نے مجھے بال کٹالینے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبوری کی وجہ سے ریشم کاکپڑا پہننے کی اجازت دی: "رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْرُخِّصَ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فِي لُبْسِ الْحَرِيرِ لِحِكَّةٍ كَانَتْ بِهِمَا"۱۲؎۔ رسولِ خداﷺ نے حضرت زبیرؓ اور حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کوخارش کی وجہ سے ریشم کالباس پہننے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ریشم کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے؛ لیکن ضرورت کی بناء پر آپﷺ نے اس کے استعمال کی اجازت دی۔ (۱۰)الاشباہ:۱۴۰۔ القواعد الفقہیۃ:۳۰۸۔ (۱۱)ترمذی،كِتَاب الْحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْمُحْرِمِ يَحْلِقُ رَأْسَهُ فِي إِحْرَامِهِ مَاعَلَيْهِ،حدیث نمبر:۸۷۶، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۱۲)مسلم، كِتَاب اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ،بَاب إِبَاحَةِ لُبْسِ الْحَرِيرِ لِلرَّجُلِ إِذَاكَانَ بِهِ حِكَّةٌ أَوْنَحْوُهَا،حدیث نمبر:۳۸۷۰، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۶)فقہی قاعدہ "لَاضَرَرَ وَلَاضِرَارَ"۱۳؎۔ نہ ابتداً کسی کا نقاص کرو نہ انتقاماً۔ (۱۳)القواعد الفقہیۃ:۳۹۰۔ (۷)فقہی قاعدہ "الضَّرَرُ لَايَزَالُ بِالضَّرَرِ"۱۴؎۔ نقصان کی پابجائی نقصان پہنچاکر نہیں کی جائے گی۔ یعنی اگرکسی شخص نے پتھر مارکر کسی کے گھر کے شیشے توڑ دیئے تووہ بھی بدلہ میں اس کے گھر کے شیشے نہ توڑے؛ بلکہ قیمت وصول کرلے، یہ دونوں قاعدہ اس حدیثِ مبارک سے مستفاد ہوتے ہیں، آنحضرتﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: "لاَضَرَرَ وَلاَضِرَارَ مَنْ ضَارَّ ضَارَّهُ اللَّهُ وَمَنْ شَاقَّ شَقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ"۱۵؎۔ نہ ابتداً نقصان پہنچاؤ نہ بدلہ میں، جوکسی دوسرے کونقصان پہنچائے گا اللہ اس کا نقصان کریں گے، جوکسی دوسرے کومشقت پہنچائے گا اللہ اس کومشقت میں ڈالیں گے۔ (۱۴)الاشباہ والنظائر:۱۴۱۔ (۱۵)سنن دارِقطنی،البيوع،حدیث نمبر:۳۱۲۴، شاملہ، موقع وزارة الأوقاف المصرية۔ (۸)فقہی قاعدہ "الْعَادَةُ مُحَكَّمَةٌ"۱۶؎۔ عادت فیصلہ کرنے والی ہے۔ یعنی اگرکسی جگہ کا عرف اور کسی مقام کے لوگوں کی کوئی عادت، شریعت کے خلاف نہ ہوتودینی اور دنیوی معاملات میں اس عادت کی رعایت کی جائے گی اور جھگڑے کے موقع پر اس عرف کے مطابق فیصلہ کیا جائےگا، مندرجہ ذیل احادیثِ شریفہ میں ہمیں یہ قاعدہ صاف نظر آتا ہے: "الْوَزْنُ وَزْنُ أَهْلِ مَكَّةَ وَالْمِكْيَالُ مِكْيَالُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ"۱۷؎۔ وزن تواہلِ مکہ کا ہے اور ناپ تواہلِ مدینہ کا ہے۔ یعنی خطۂ عرب کے اندرتولی جانے والی اشیاء میں مکہ والوں کے وزن کا اعتبار کیا جائے گا اور ناپ کردی جانے والی چیزوں میں اہلِ مدینہ کے ناپ کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔ ایک مرتبہ حضرت ہندہؓ بنت عتبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت ابوسفیانؓ کی بخالت کی شکایت کی کہ وہ گھر کا خرچ پورا نہیں دیتے ہیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندہؓ سے فرمایا: "خُذِي مَايَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ"۱۸؎۔ عرف وعادت کے مطابق جوتمہارے اور تمہارے لڑکے کے لیے کافی ہوتا ہے وہ (ابوسفیانؓ کے مال میں سے) لے لو۔ پہلی حدیث میں آپﷺ نے اہلِ مکہ کے وزن اور اہلِ مدینہ کے عرفی ناپ کومعیار قرار دیا اور دوسری حدیث میں عرف وعادت کوتسلیم کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ (۱۶)الاشباہ والنظائر:۱۵۰۔ القواعد الفقہیۃ:۲۹۳۔ (۱۷)سنن ابی داؤد، كِتَاب الْبُيُوعِ، بَاب فِي قَوْلِ النَّبِيِّﷺ وَسَلَّمَ الْمِكْيَالُ مِكْيَالُ الْمَدِينَةِ،حدیث نمبر:۲۸۹۹، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۱۸)بخاری،كِتَاب النَّفَقَاتِ، بَاب إِذَالَمْ يُنْفِقْ الرَّجُلُ فَلِلْمَرْأَةِ أَنْ تَأْخُذَ بِغَيْرِ عِلْمِهِ مَايَكْفِيهَا وَوَلَدَهَا ،حدیث نمبر:۴۹۴۵، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۹)فقہی قاعدہ "إذَااجْتَمَعَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ غَلَبَ الْحَرَامُ"۱۹؎۔ جب کسی چیز میں حلال وحرام مل جائیں توحرام کا اعتبار کیا جائے گا۔ یعنی کسی چیز کی حالت وحرمت میں شبہ ہوجائے کہ یہ چیز حلال ہے یاحرام، یاایک چیز میں حلال وحرام، جائز وناجائز دونوں پہلو جمع ہوجائیں توحرام کوترجیح دیتے ہوئے اس شئی کے حرام ہونے کا حکم لگایا جائیگا، یہ قاعدہ ان احادیثِ شریفہ سے ماخوذ ہے: "إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَايَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ"۲۰؎۔ حلال بھی ظاہر ہے اورحرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں (جن کی صحیح حقیقت ظاہر نہیں ہے) اکثر لوگ اس کونہیں جانتے؛ لہٰذا جوشخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس کا دین اور عزت محفوظ ہے اور جوشبہات میں پڑگیا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا۔ ایک مرتبہ صحابی جلیل حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے خدمتِ اقدس میں عرض کیا: یارسول اللہﷺ میں بسم اللہ پڑھ کر اپنے کتے کوچھوڑتا ہوں، جب وہ شکار کرلیتا ہے تومیں دیکھتا ہوں کہ شکار کئے ہوئے جانور کے پاس ایک دوسرا کتا بھی کھڑا ہے، جس پر میں نے اللہ کا نام نہیں لیا ہے اور مجھے اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ شکار میرے کتے نے کیا ہے یادوسرے کتے نے؛ توایسی صورت میں شکار کوکیا کروں؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لَاتَأْكُلْ إِنَّمَاسَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى الْآخَرِ"۲۱؎۔ اس کومت کھاؤ؛ کیونکہ تم نے اپنے کتے کوچھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا ہے، دوسرے کتے پر نہیں لیا۔ اس حدیث میں حلال وحرام دونوں کے جمع ہوجانے کی وجہ سے آپﷺ نے اس شکار کے حرام ہونے کا حکم دیا۔ (۱۹)الاشباہ والنظائر:۱/۱۵۰۔ القواعد الفقہیۃ:۲۹۳، للشیخ علی احمد الندوی۔ (۲۰)صحیح مسلم،كِتَاب الْمُسَاقَاةِ،بَاب أَخْذِ الْحَلَالِ وَتَرْكِ الشُّبُهَاتِ،حدیث نمبر:۲۹۹۶، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۲۱)صحیح بخاری،كِتَاب الْبُيُوعِ،بَاب تَفْسِيرِ الْمُشَبَّهَاتِ،حدیث نمبر:۱۹۱۳، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۱۰)فقہی قاعدہ "اَلْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِيْ وَالْيَمِيْنُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ"۲۲؎۔ گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے اور جوشخص دعویٰ کا انکار کرے وہ قسم کھائے۔ یعنی اگرکسی شخص نے دوسرے کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا تواس کے ذمہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے؛ اگروہ گواہ نہ پیش کرسکے اور مدعیٰ علیہ پر ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کے صحیح ہونے پرقسم کھائے، اس قاعدہ کونبی کریمﷺنے بھی تقریباً انہیں الفاظ میں بیان فرمایا ہے: "الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِى وَالْيَمِينَ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ"۲۳؎۔ گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے اور جوشخص دعویٰ کا انکار کرے وہ قسم کھائے۔ (۲۲)القوانین الفقہیۃ:۲/۱۶۸، لابن جزی، شاملہ، القسم: أصول وقواعد الفقہ۔ (۲۳)السنن الکبریٰ للبیہقی، كتاب الدعوى والبينات،باب الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمُدَّعِى وَالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ،حدیث نمبر:۲۱۷۳۳، شاملہ،موقع وزارة الأوقاف المصرية۔ (۱۱)فقہی قاعدہ "لاعبرۃ للتواہم"۲۴؎۔ وہم وخیال اور وسوسہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ مثلاً:اگرکسی آدمی کوبار بار وہم ہوجاتا ہے کہ فلاں کام کیا یانہیں؟ تووہ شخص اس وہم پرتوجہ نہ دے؛بلکہ یقین اور گمان غالب پرعمل کرے، مندرجہ ذیل حدیث نبویﷺ میں اس قاعدہ کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔ ایک آدمی نے حاضرِ خدمت ہوکر عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ ! ایک شخص کونماز پڑھتے ہوئے یہ وہم ہوجاتا ہے کہ اس کا وضوء ٹوٹ گیا ہے توایسی صورت میں وہ کیا کرے، آپﷺ نے فرمایا: "لَايَنْفَتِلْ أَوْلَايَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْيَجِدَ رِيحًا"۲۵؎۔ وہ نماز سے نہ پھرے؛ یہاں تک کہ آواز سن لے یابدبومحسوس کرے۔ (۲۴)القواعد الفقہیۃ:۳۱۶۔ (۲۵)صحیح بخاری،كِتَاب الْوُضُوءِ،بَاب مَنْ لَايَتَوَضَّأُ مِنْ الشَّكِّ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ،حدیث نمبر:۱۳۴، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۱۲)فقہی قاعدہ "مَاحَرُمَ أَخْذُهُ حَرُمَ إعْطَاؤُهُ"۲۶؎۔ جس چیز کولینا حرام ہے اس کوکسی دوسرے کودینا بھی حرام ہے۔ درجِ ذیل حدیث اس قاعدہ کی بین دلیل ہے۔ "الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي فِي النَّارِ"۲۷؎۔ رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ (۲۶)الاشباہ والنظائر:۲۲۹۔ (۲۷)المعجم الکبیر للطبرانی، قطعۃ من المفقود،حدیث نمبر:۱۴۰۰، شاملہ۔ (۱۳)فقہی قاعدہ "كل مالايجوز أكله أوشربه من المأكولات والمشروبات لا يجوز بيعه ولايحل ثمنه"۲۸؎۔ ماکولات ومشروبات میں سے جس چیز کاکھانا اور پینا حرام ہے اس کوبیچنا اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانا بھی حرام ہے۔ مثلاً: شراب پینا حرام ہے تواس کوبیچنا بھی حرام ہے؛ اسی طرح اس کی قیمت کواستعمال کرنا بھی درست نہیں ہے، یہ قاعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِگرامی سے مستنبط ہے: "لَعَنَ اللہُ الْیَھُوْد، ثَلَاثًا، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ ، فَبَاعُوهَا وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا، وَإِنَّ الله اِذَاحَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ، أَکَلَ شَیٔ حَرَّمَ ثَمَنَہٗ" ۲۹؎۔ اللہ تعالیٰ یہود پرلعنت کرے (تین مرتبہ آپﷺ نے یہ جملہ فرمایا) ان کے اوپر چربی کوحرام کیا گیا تھا توانھوں نے اس کوبیچ کر اس کی قیمت کواستعمال کیا، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پرکسی چیز کاکھانا حرام فرمادیتے ہیں تواس کی قیمت کوبھی حرام کردیتے ہیں۔ یہ قند قواعد فقہیہ اور ان کی تائید میں پیش کی گئی احادیث ہیں؛ اگراس مختصر سے مقالہ میں گنجائش ہوتی تومزید قواعد فقہیہ اور احادیثِ نبویہ سے ان کے دلائل پیش کئے جاتے؛ لیکن گنجائش نہ ہونے کی بناء پرانھیں چند مثالوں پراکتفاء کیا جاتا ہے، ماننے والوں کے لیے تودوچار مثالیں ہی کافی ہیں نہ ماننے والوں کے لیے دفتر بھی بے کار ہے، واللہ ولی الھدایۃ والسداد۔ (۲۸)القواعد الفقہیۃ:۱۲۳۔ (۲۹)التمہید لابن عبدالبر:۴/۱۴۳، بحوالہ:القواعد الفقہیۃ:۱۲۴۔