انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تیسری شہادت قرآن کریم کی یہ موجودہ ترتیب رسولی ہے نزولی نہیں،ترتیب نزولی اور ترتیب رسولی میں فرق ملحوظ رکھئے،آنحضرتﷺ پرغارِ حرا میں جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی وہ"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ" (العلق:۱) تھی لیکن موجودہ ترتیب میں "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" کے بعد "أَلْحَمْدُ الِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ" سب سے پہلی آیت ہے،حضوراکرمﷺ پر جب کوئی آیت اتر تی تو آپﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہدایت دیتے کہ اسے فلاں فلاں سورت میں لکھ دو۔ (ترمذی:۲/۳۶۸،لکھنو) سورتوں میں آیات کہاں کہاں لکھی جائیں یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں ہوتا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو اسی ترتیب سے پڑہتے، جو قرآن پاک کی موجودہ ترتیب ہے (سنن ابی داؤد:۱/۱۲۷) اوراسی ترتیب سے ہر سال حضرت جبرئیل امینؑ رمضان میں آپﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ قران کریم کی جمع وترتیب میں اتنی اہم تبدیلی کس کے حکم سے ہوئی؟ کیا حضورﷺ پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے اس میں کسی تبدیلی کے مجاز تھے؟ ہر گز نہیں قرآن کریم میں ہے: "قَالَ الَّذِينَ لَايَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْبَدِّلْهُ قُلْ مَايَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّامَايُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ، قُلْ لَوْشَاءَ اللَّهُ مَاتَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَاأَدْرَاكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَاتَعْقِلُونَ، فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْكَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَايُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ"۔ (یونس:۱۵،۱۷) ترجمہ: ان لوگوں نے جو ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے(پیغمبر سے) کہا کہ کوئی اور قرآن لے آو، یا اسے کچھ تبدیل کردیں، اے پیغمبر !آپ کہہ دیجئے میرے اختیار میں نہیں کہ میں اسے بدل ڈالوں، میں تو وہی کچھ کرتا ہوں جو مجھے حکمدیا جاتا ہے، میں ڈرتا ہوں اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں بڑے دن کے عذاب سے، آپ کہہ دیجئے کہ اگراللہ تعالی نہ چاہتے تو میں اسے تمہارے سامنے تلاوت نہ کرتا اور نہ وہ تم کو خبر کرتا، میں رہ چکا ہوں تم میں ایک عمر اس سے پہلے، کیا تم نہیں سوچتے؛ پھراس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کوجھٹلائے، بے شک مجرم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ قرآن کریم نے بتلایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہ تھا، آپ نے جو کچھ کیا وہ وحی خدا وندی کے تحت تھا، کتاب کی ترتیب کو بدل دینا بہت اہم بات ہے، کوئی جزوی بات نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جاسکے، کسی تحریر اورکتاب کی ترتیب اس تحریر یا کتاب کی ذات ہوتی ہے، سویقین کیجئے کہ آپ نے قرآن پاک کی ترتیب میں جو عمل اختیار کیا وہ سب وحی خدا وندی کے تحت تھا، آپ کی تلاوت (جس ترتیب سے واقع ہوئی) وہ سب اللہ تعالی کے حکم سے تھی اوراللہ تعالی نے ہی آپ کو اس دوسری ترتیب اختیار کرنے کا حکم دے رکھا تھا ورنہ قرآن کریم کی تلاوت اور ترتیب میں آپ اگر اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کردیں تو یہ یقیناً کتاب الہٰی میں تبدیلی ہوگی اوریہ اللہ تعالی پر ایک افتراء ہوگا(معاذ اللہ) یہ اسی طرح حکم الہٰی کو ٹھکرانا ہے، جیسے وحی خدا وندی کوجھٹلادینا اورنہ ماننا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ حکم خداوندی جس کے تحت ترتیب کی یہ تبدیلی عمل میں آئی قرآن کریم میں کہا ں ہے؟ یہ وحی غیر متلو ہمیں قرآن پاک میں نہیں ملتی تو ہم یقین کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کے علاوہ بھی وحی آتی رہی گو اس وحی کی تلاوت جاری نہ ہوئی ہو صرف حکم پھیلا ہو، یہی حدیث ہے اوراگر اس وحی غیر متلو کو نہ مانا جائے جس کے تحت قرآن پاک ترتیب نزولی میں نہیں ترتیب رسول سے جمع ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاذ اللہ آپ نے اپنی مرضی سے قرآن کریم میں تبدیلی کردی (استغفر اللہ العظیم) حکم الہٰی میں تبدیلی کرنے والے یا اسے نہ ماننے والے سب برابر کے مجرم ہیں، مفتری علی اللہ اورمکذب بآیات اللہ کبھی فلاح نہیں پاتے قرآن کریم میں ہے: "فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ"۔ (یونس:۱۷) ترجمہ: اوراس سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے جس نے اللہ تعالی پر کوئی جھوٹ باندھایا اس نے اس کی آیات کو جھٹلایا، بیشک مجرم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو اس کی نزولی ترتیب سے مختلف ترتیب پر جمع کرایا اورتلاوت کیا ہے اوراس کی یہ شہادت ہمیں قرآن کریم سے ہی مل گئی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں کسی طرح کی تبدیلی کا اختیار نہ تھا، اوریہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ آپ کا ہر اقدام وحی خدا وندی کے تابع ہوتا تھا، تو یہ بات از خود ثابت ہوگئی کہ حضور اکرمﷺ کاموجودہ ترتیب کو اختیار کرنا وحی خدا وندی سے ہی تھا، آپﷺ قرآن کی آیات لکھوانے کے لیے صحابہ کرامؓ کو جو حکم دیتے تھے وہ سب وحی الہٰی کی ترتیب ہوتی تھی، ترتیب نزولی کے بعد یہ ترتیب رسولی سب اللہ کے حکم سے ہی عمل میں آئی ہے اورقرآن کریم اس ترتیب سے لوح میں محفوظ ہے۔ پھر غور کیجئے کہ وہ حکم الہٰی کہ قرآن کریم اس ترتیب سے جمع کیا جائے قرآن کریم میں کہاں ہے؟ اگر کہیں نہیں ملتا تو اس سے ثابت ہوتا ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم کے علاوہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی ہے، یہ وحی غیر متلو تھی، سو مذکورۃ الصدرآیات حدیث کے الہامی ہونے پر قرآن کریم کی کھلی شہادت پیش کررہی ہیں۔