انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت آدم بن ابی ایاسؒ نام ونسب نام آدم اورکنیت ابوالحسن تھی، جتنا نسب نامہ معلوم ہوسکا وہ یہ ہے آدم بن ابی ایاس عبدالرحمن بن محمد(تہذیب التہذیب:۱/۱۹۶) لیکن خطیب بغدادی اوربعض دوسرےمحققین نے ان کے باپ کا نام ناہیہ اورجد امجد کا شعیب بتایا ہے،امام بخاری نے جنہیں ابن ابی ایاس سے تلمذ خاص کا شرف حاصل ہے،اول الذکر ہی کو اختیار کیا ہے (تاریخ بغداد:۷/۲۷)یہ نسلاً تمیمی نہیں تھے؛بلکہ آقا کے خاندان کی نسبت سے تمیمی کہلاتے ہیں۔ ولادت اوروطن ۱۳۲ھ میں پیدا ہوئے،مرو(خراسان) کے رہنے والے تھے،لیکن نشو ونما بغداد میں پائی، پھر علم وفضل میں باکمال ہونے کے بعد عسقلان کو وطنِ ثانی بناکر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی،اسی بنا پر عسقلانی کہلاتے ہیں۔ (کتاب الانساب:۳۹۰) علمی وہ تمام عمر فنا فی العلم رہے،جہاں کہیں بھی انہیں کسی چشمہ علم کا پتہ چلا راہ کی تمام صعوبتیں برداشت کرکے وہاں پہنچے اورسیرابی حاصل کی،ابتداء میں انہوں نے شیوخ بغداد سے استفادہ کیا،اس کے بعد تشنگی علم نے انہیں وقت کے دوسرے ممتاز علمی مراکز تک پہنچایا؛چنانچہ انہوں نے کوفہ،بصرہ ،حجاز اورشام کی رہ نوردی کرکے وہاں کے ماہر فن اساتذہ کے باغِ علم سے خوشہ چینی کی،امامِ زمانہ شعبہ بن الحجاج سے تلمذ خاص کا شرف رکھتے تھے۔ (تاریخ بغداد:۷/۳) حفظ اورثقاہت وتثبت میں بھی جلیل المرتبت تھے،امام شعبہ کی مجلس درس میں جو سات علماء روایات کو ضبطِ تحریر میں لاتے تھے ان میں ابن ابی ایاس سب سے ممتاز تھے۔(تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۷۵)حافظ ذہبی انہیں "المحدث الامام الزاھد"لکھتے ہیں۔ (ایضاً) قرآن علومِ قرآن کی کامل معرفت اورمختلف قرأتوں سے بہرہ وافر رکھتے تھے،طلبہ کو اس کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد:۷/۲۷) حدیث حدیث میں انہیں جن شیوخ سے سماع اوراکتساب فیض کا موقع ملا تھا ان کی فہرست خاصی طویل ہے،کیوں کہ انہوں نے بغداد کے علاوہ دوسرے مقامات کے اساتذہ کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا، ممتاز اورلائقِ ذکر علماء میں امام شعبہ کے علاوہ ابن ابی ذئب،اسرائیل بن یونس،لیث بن سعد،اسمعیل بن عیاش،ربیع بن صبیح،حماد بن سلمہ، مبارک بن فضالہ،ابو معثر المدنی ،عبداللہ بن مبارک،ابی خالد الاعمر اور بقیہ بن الوللید خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ (ایضاً،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۳۷۵) اسی طرح خود ان کے دبستانِ علم سے بھی ایک بڑی جماعت نے گل چینی کی ہے،جن میں امام بخاری،ابوزرعہ،ابو حاتم،ابراہیم بن ہانی النیساپوری،امام دارمی،عبید بن آدم،اسحاق بن اسمعیل جیسے ائمہ اعلام کے نام شامل ہیں۔ (تہذیب :۴/۳۸۰) ثقاہت اکثر علماء نے ان کی ثقاہت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے، ابو حاتم کا قول ہے ثقۃٌ مامونٌ متعبدٌ (شذرات الذہب:۲/۴۷) سلمان الاسعت ابن معین اورعجلی نے بھی بصراحت ان کی توثیق کی ہے،علامہ ابن اثیر کان ثقۃً حافظاً لکھتے ہیں۔ (اللباب فی الانساب:۲/۱۳۶) عبادت اوراتباعِ سنت جلالتِ علم کے ساتھ صلاح وتقویٰ کے بھی پیکر مجسم تھے،ابن عماد نے لکھا ہے کہ وہ صالح اوراللہ کے فرمانبردار تھے (اللباب فی الانساب:۲/۱۳۶)خطیب بغدادا ،رقمطراز ہیں کان احد عباد اللہ الصالحین (تاریخ بغداد:۷/۲۷) عجلی کا قول ہے وہ اللہ کے بہترین بندے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ الذہبی:۱/۳۷۵) علامہ ابن جوزی انہیں صاحب صلاح اورمتبعِ سنت قرار دیتے ہیں (صفوۃ الصفوۃ:۴/۴۸۰) ابن ابی ایاس اتباعِ سنت کا مثالی نمونہ تھے،ان کا ہر عمل اسی سانچہ میں ڈھلا ہوتا تھا،خطیب ر قمطراز ہیں: کان آدم مشھور بالسنۃ شدید التمسک بھا والحض علیٰ اعتقادھا (تاریخ بغداد:۷/۲۸) آدم بن ایاس اتباعِ سنت میں شدت کے لئے مشہور ہیں۔ فتنہ خلقِ قرآن میں ان کا موقف مامون اورمعتصم کے عہد خلافت کا بدنام زمانہ خلقِ قرآن ابن ابی ایاس کی وفات سے دوسال قبل ہی شروع ہوچکا تھا،مرکزِخلافت سے بہت دور عسقلان میں گوشہ گیر ہونے کی وجہ سے وہ اس فتنہ کی آنچ سے محفوظ رہے،لیکن اس مسئلہ میں ان کا مؤقف بہت واضح تھا؛بلکہ اپنے عقیدہ میں ان کا تشدد اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ خلقِ قرآن کے قائلین کو سلام کرنا اورجواب دینا بھی پسند نہ فرماتے تھے۔ ابوبکر اعین اسی قسم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بغداد سے ابن ابی ایاس کی خدمت میں عسقلان حاضر ہوا اورعرض کیا کہ لیث بن سعد کے کاتب عبداللہ بن صالح نے آپ کو ہدیہ سلام پیش کیا ہے،فرمایا میری طرف سے سلام کا جواب نہ کہنا، عرض کیا کیوں،ایسی کیابات ہے؟فرمایا اس لئے کہ خلقِ قرآن کا عقیدہ رکھتے ہیں ،راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے انہیں ابن صالح کی ندامت وشرمندگی،عذر خواہی اوررجوع کی خوش خبری سنائی تو ابن ابی ایاس نے فرمایا کہ اب میری جانب سے بھی ان کو بہت بہت سلام کہنا۔ اس کے بعد راوی مذکور بیان کرتے ہیں کہ میں عسقلان میں کچھ دنوں قیام کے بعد بغداد واپس ہونے لگا تو ابن ابی ایاس نے فرمایا احمد بن حنبل سے سلام کے بعد کہنا کہ آپ اس وقت جس سخت ابتلاء سے گزررہے ہیں اسے آپ تقرب الی اللہ کا وسیلہ بنائیے،بلاشبہ اس وقت آپ جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں،نیز ان سے میری طرف سے یہ حدیث بھی بیان کردینا کہ رسول اکرم ﷺکا ارشاد ہے: من ارادکم علی معصیۃ اللہ فلا تطیعوہ جو تم سے اللہ کی معصیت کا خواہاں ہو ،اس کی اطاعت نہ کرو چنانچہ راوی کہتے ہیں کہ میں بغداد کے قید خانہ میں امام احمد بن حنبل سے ملا اورابن ابی ایاس کا پیغام اورحدیث ان تک پہنچادی،اسے سُن کر امام موصوف تھوڑی دیر سر جھکائے رہے اورپھر فرمایا: رحمۃ اللہ حیا ومیتا ولقد احسن النصیحۃ (تاریخ بغداد:۷/۲۸،۲۹) اللہ ان پر زندگی اور موت کے بعد رحم فرمائے انہوں نے بڑی اچھی نصیحت کی۔ وفات جمادی الاُخریٰ ۲۳۰ھ میں بمقام عسقلان رحلت فرمائی،یہ معتصم باللہ عباسی کی خلافت کا زمانہ تھا،انتقال کے وقت ان کی عمر ۸۸ سال تھی۔ (طبقات ابن سعد:۷/۱۸۶) ابو علی المقدسی کہتے ہیں کہ جب امام موصوف کا وقت آخری نزدیک آگیا تو انہوں نے قرآن پاک کا ایک ختم کیا اورموت سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ میں تو آج کے دن کا شدت سے منتظر تھا اور تمہاری راہ دیکھ رہا تھا۔ پھر لا الہ الا اللہ پڑھا اور رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ (صفوۃ الصفوۃ:۴/۲۸۰)