انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عہدِہارون الرشید کے بقیہ حالات عہد ہارون الرشید کے حالات اور قابل تذکرہ واقعات بیان کرتے ہوئے ہم سنہ۱۸۷ھ تک پہنچ گئے ہیں، واقعہ برامکہ کے بعد سنہ۱۸۷ھ میں خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مؤتمن کوصبہ عاصم کی طرف روانہ کیا، مؤتمن نے بلادروم کی طرف فوج کشی شروع کی اور عباس بن جعفر بن اشعث کوقلعہ سنان کے محاصرہ کے لیے روانہ کیا، رومی تاب مقاؤمت نہ لاسکے اور تین سوبیس مسلمان قیدیوں کوواپس دے کرمسلمانوں سے صلح کرلی، انہیں ایام میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رومیوں نے ملکہ ایرینی اپنی قیصرہ کومعزول کرکے اس کی جگہ نیسی فورس یانقوفورنامی ایک سردار کواپنا قیصر بنالیا، پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ رومیوں نے شارلمین بادشاہِ فرانس کی فتوحاتِ اطالیہ سے متأثر ہوکر ہارون الرشید سے دب کرصلح کرلی تھی اب نقفور نے تخت نشین ہوکر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ شارلمین سے صلح کی اور اُس طرف سے اپنے حدودِ سلطنت متعین کراکر اور مطمئن ہوکر ہارون الرشید کوایک خط لکھا کہ: ملکہ نے اپنی فطری کمزوری کے سبب تم سے دب کرصلح کرلی تھی اور تم کوخراج بھی دیتی رہی؛ لیکن یہ اس کی نادانی تھی، اب تم کوچاہیے کہ جس قدر حراج تم ہماری سلطنت سے وصول کرچکے ہو وہ سب واپس کرو اور جرمانہ میں ہم کوخراد ینا منظور کرو؛ ورنہ پھرتلوار کے ذریعہ تم کوسزادی جائے گی۔ یہ خط جب ہارون الرشید کے پاس پہنچا تواُس کے چہرے سے اس قدر طیش وغضب کے آثار نمایںا ہوئے کہ اُمرا ووزراء اس کے سامنے دربار میں بیٹھنے کی تاب نہ لاسکے اور خاموشی وآہستگی کے ساتھ دربار سے کھسک آئے، ہارون نے اسی وقت قلم دوات لے کراُس خط کی پشت پرلکھا کہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم، ازجانب امیرالمؤمنین، ہارون الشرید بنامِ سگِ روم، اوکافر کے بچے، میں نے تیرا خط پڑھا، اس کا جواب توآنکھوں سے دیکھے گا سننے کی ضرورت نہیں، فقط۔ یہ جواب لکھ کرخط واپس بھیج دیا اور اسی روز لشکر لے کربغداد سے بلادِ روم کی طرف روانہ ہوگیا اور جاتے ہی رومویں کے دارالسطنت ہرقلہ کا محاصرہ کرلیا، نقفور حیران وپریشان ہوگیا اور تاب مقاؤمت نہ لاکر ہارون الرشید کی خدمت میں عفوتقصیرات کا خواہاں ہوا اور جزیہ دینے کا اقرار کیا، ہارون نقفور کومغلوب وذلیل کرکے پہلے سے زیادہ جزیہ ادا کرنے کا اقرار لے کرواپس ہوا ابھی شہررقہ تک ہی واپس آیا تھا کہ نقفور نے نقضِ عہد کیا اور پھربغاوت پرآمادہ ہوگیا، اُس کویقین تھا کہ موسم سرماکی شدت کے سبب مسلمانوں کی فوجیں فوراً حملہ آور ہیں ہوسکتیں؛ مگرہارون الرشید یہ سنتے ہی شہررقہ سے پھرہرقلہ کی جانب روانہ ہوا اور بلادِ روم میں داخل ہوکر بہت سے قلعوں کوفتح کرکے مسمار کردیا اور فتح کرتے ہوئے نقفور تک پہنچ گیا اُس نے پھرعاجزانہ معافی کی درخواست پیش کی، ہارون نے اس سے جزیہ کی رقم تمام وکمال وصول کی اور اکثرحصہ ملک پراپنا قبضہ جماکر واپس ہوا۔ اسی سال یعنی سنہ۱۸۷ھ میں حضرت ابراہیم ادہم نے وفات پائی۔ سنہ۱۸۸ھ میں قیصر روم نقفور نے پھرسرکشی کے علامات ظاہر کیے؛ لہٰدا ابراہیم بن جبرئیل نے حدود صفصاف سے بلادِ روم پرحملہ کیا، قیصرِ روم خود مقابلہ کے لیے نکلا؛ لیکن تاب مقابلہ نہ لاسکا، شکست فاش کھاکر اور چالیس ہزار رومیوں کوقتل کراکر فرار ہوا؛ اسلامی لشکر رومیوں کوشکست دے کرواپس چلا آیا۔ سنہ۱۸۹ھ میں خلیفہ ہارون الرشید رَے کی طرف گیا اور خراسان کی طرف کے صوبوں کے عمال کے عزل ونصب سے جدید انتظام کیا، مرزبان ویلم کے پاس امان نامہ بھیج کراس کی دل جوئی کی، سرحدوں کے رؤسا اور فرماں روا اس کی حدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی فرماں برداری کا یقین دلایا، طبرستان، رَے، قومس، ہمدان وغیرہ کی حکومت عبدالملک بن مالک کومرحمت کی، اسی سال رومیوں اور مسلمانوں میں قیدیوں کا تبادلہ ہوا؛ اسی سال امام محمد بن حسن شیبانی شاگرد امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے رَے کے قریب موضع زنبویہ میں وفات پائی؛ اسی روز کسائی نحوی بھی فوت ہوے، یہ دونوں ہارون الرشید کے ہمراہ تھے، ہارون الرشید دونوں کے جنازے میں شریک تھا، جب قبرستان سے واپس آئے توہارون الرشید نے کہا کہ آج ہم فقہ اور نحو دونوں کودفن کرآئے۔ سنہ۱۹۰ھ میں ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کواپنا نائب بناکر رقہ میں مقیم کیا اور تمام انتظامِ سلطنت اس کے سپرد کرکے نقفور قیصر روم کی بدعہدی کی وجہ سے بلادِ روم پرایک لاکھ پینتیس ہزار فوج سے حملہ کیا اور تیس یوم کے محاصرہ کے بعد بزورِ تیغ فتح کرلیا اور رومیوں کوقتل وگرفتار کیا؛ پھرداؤد بن عیسیٰ بن موسیٰ کوسترہزار فوج کے ساتھ بلادِ روم کے دوسرے قلعوں کوفتح کرنے کے لیے روانہ کیا، اس فوج نے تمام بلادِ روم کوہلاڈالا، انھیں دنوں شرجیل بن معن بن زائدہ نے قلعہ سقالیہ وبسہ اور دوسرے قلعوں کوفتح کیا، یزید بن مخلد نے قونیہ کوفتح کیا، عبداللہ بن مال نے قلعہ ذی الکلاع کوفتح کرلیا، حمید بن معیوف امیرالبحر نے سواحلِ شام ومصر کی کشتیوں کودرست کرکے جزیرۂ قبرص پرچڑھائی کردی اور اہلِ قبرص کوشکست دے کرتمام جزیرہ کولوٹ لیا اور سترہ ہزار آدمیوں کوگرفتار کرلایا، اس کے بعد ہارون نے طوانہ کا محاصرہ کیا، غرض رومی سلطنت کومسلمانوں نے تہ وبالا کرکے اس کے مٹاڈالنے اور روز کے جھگڑوں کوایک ہی مرتبہ طے کردینے کا تہیہ کرلیا، نقفور نے سخت عاجز اور مجبور ہوکر جزیہ دینا قبول کرکے ہارون الرشید کے پاس پچاس ہزار اشرفی رقم جزیہ روانہ کی جس میں اپنی ذات کا جزیہ چار دینا راور اپنے لڑکے اور بطریق کی طرف سے دودینار روانہ کیے تھے اور خلیفہ ہارون کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ قیدیانِ ہرقلہ میں سے فلاں عورت مجھ کوواپس مرحمت فرمادی جائے؛ کیونکہ اس سے میرے بیٹے کی منگنی ہوگئی ہے، خلیفہ نے اس درخواست کومنظور کرلیا اور اس عورت کوروانہ کردیا، نقفور کی الحاح وزاری پررحم کرکے اس کا ملک اُسی کوواپس کرکے تین لاکھ اشرفی سالانہ خراج اُس پرمقرر کرکے ہارون واپس ہوا؛ مگرواپسی کے بعد ہی رومیوں نے پھربغاوت وسرکشی اختیار کرلی؛ اسی سال یعنی سنہ۱۹۰ھ میں موصل کی گورنری پرخالد بن یزید بن حاتم کومامور کیا گیا؛ اسی سال ہرثمہ بن اعین قلعہ طرطوس کی تعمیر پرمامور کیا گیا، خراسان کی تین ہزار فوج اور مصیصہ وانطاکیہ کی ایک ہزار فوج قلعہ طرطوس کی تعمیر میں مصروف رہی اور سنہ۱۹۲ھ میں قلعہ کی تعمیر تکمیل کوپہنچی؛ اسی قسم کی فوج کوآج کل سفرمینا کی پلٹن کہا جاتا ہے؛ اسی سال آذربائیجان میں حرمیہ نے علمِ بغاوت بلند کیا اس کی سرکوبی کے لیے عبداللہ بن مالک دس ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا گیا، عبداللہ نے باغیوں کوشکستِ فاش دے کرقیدیوں کوقتل کرڈالا اور اس فتنہ کا سدِباب ہوا؛ اسی سال یعنی ۳/محرم الحرام سنہ۱۹۰ھ کویحییٰ برمکی نے ستربرس کی عمر میں بمقام رقہ بحالتِ قیدوفات پائی اس کے بیٹے فضل بن یحییٰ نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ سنہ۱۹۱ھ میں محمد بن فضل بن سلیمان کوخلیفہ ہارون الرشید نے موصل کی گورنری مرحمت فرمائی اور مکہ معظمہ کی امارت پرفضل بن عباس کومامور کیا گیا۔