انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اسلوب بیان حالات کے آئینہ میں انسان کی زندگی طرح طرح کے حالات سے گزرتی ہے،کہیں انسان غموں میں گھرا ہوتا اورکہیں خوشی کی لہروں میں گھومتا ہے،یعنی غم کے وقت اس سے خوشی کی بات نہیں نکلتی اورعین خوشی میں اس کے الفاظ کبھی غم آلود نہیں ہوتے،اس کا اسلوب گفتگو اس کے حالات کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے اوراس کے خیالات کا مظہر ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ پر قرآن اترتا تو اس کا اسلوب بیان اپنا ہوتا تھا، یہ کلام معجز تھا،حضورﷺ کے حالات خوشی یا غمی سے گزرتے اورآپ کا لہجہ سخن ان کے مطابق ہوتا، آپ کے الفاظ میں آپ کے حالات کی جھلک ہوتی،پھر کبھی اچانک قرآن کریم کا نزول ہوتا جس کا پیرایہ آپ کے حالات سے بالکل مختلف ہوتا، ہنسنے والوں کو اس کے کلام الہٰی ہونے کا اور یقین ہوتا کہ اگر یہ واقعی آپ کا اپنا بنایا کلام تھا تو آپ کے خوشی یا غمی کے حالات میں کیوں نہیں جھلکتے، انہیں اسلوب حدیث اوراسلوب قرآن میں واضح فرق محسوس ہوتا تھا اورانہیں جب ایک ہی شخصیت سے دو مختلف اسلوب ملتے تو یہ وہ سچائی ہے جو مخالف سے مخالف کو بھی اپنا لوہا منوائے بغیر نہ رہی اوروہ بے اختیار کہنے لگتے، ہوسکتا ہے یہ کسی جن کا کلام ہو، جو آپ کے کلام سے بالکل علیحدہ اسلوب رکھتا ہو، وہ اپنے پہلے موقف پر کہ یہ کلام آپ کا اپنا بنایا ہوا ہے،قائم نہ رہتے، یہ اسی لیے ہوتا کہ آپ کا اپنا اسلوب بیان قرآن پاک کے اسلوب سے مختلف ہوتا تھا۔ آپ اپنی بات کہتے، بعض دفعہ اسے تین تین بار دہراتے،حدیث میں یہ تکرار بظاہر خلاف فصاحت نظر آتا ہے؛ لیکن جب حالات سامع پر نظر کی جائے تو آپ کا یہ کلام بلاغت پر پورا اترتا تھا اورمتقضائے حال کے بالکل مطابق ہوتا تھا۔ آپ غرائب الفاظ سے پرہیز فرماتے،لیکن عرب اسالیب کبھی خود ان کا تقاضا کرتے ہیں؛ سو آنحضرتﷺ بھی بعض اوقات غرائب کا استعمال کرتے تھے،ان میں کچھ پیچیدگی تو ہوتی تھی،لیکن مغالطہ دہی نہیں،حدیث ام زرع کے بعض پیچیدہ الفاظ اسی قبیل سے ہیں اور یہ زبان کی دقیق راہوں سے گزرنا ہے،دقائق پر قابو پانا کسی جہت سے مخل فصاحت نہیں ہیں، آپ نے فرمایا: "لَايَدْخُلُ الْجَنَّةَ الْجَوَّاظُ وَلَاالْجَعْظَرِيُّ قَالَ وَالْجَوَّاظُ الْغَلِيظُ الْفَظُّ" (ابوداؤد، حدیث نمبر:۴۱۶۸،شاملہ، موقع الإسلام) علمائے حدیث کے ہاں غریب الحدیث ایک مستقل موضوع کلام ہے جویہاں زیرِبحث نہیں ہے؛ یہاں حدیث کے ان پیراؤں پرنظر کریں جنہیں آپ نے کمال شان جامعیت اورکبھی عجیب وغریب مثالوں سے واضح فرمایا اوربات دلوں میں اتاری؛ کبھی آپ نے اپنے ادبی ذوق میں قافیہ دار الفاظ بھی کہے اوراسے بھی آپ کے اسلوب بیان میں ایک اہم درجہ حاصل ہے، ذیل میں ہم احادیث سے آپ کے اسلوب بیان کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔