انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ہجرت کے بعد یہود کا یہ حال تھا کہ آفتاب اسلام کی کرنیں افق مدینہ پرچمکیں یعنی ختم رسل صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے تشریف فرمائے مدینہ ہوئے، یہود کے بعض صالح اور سلیم الفطرت افراد مثلاً عبداللہ بن سلام اور مامون بن یامین وغیرہ جن کوتورات کی پیشین گوئی (اس پربہت کچھ لکھا جاچکا ہے) علماء واحبار کی بار بار کی یاد دہانی اور انصار کی مکہ میں آمد رفت کے ذریعہ آپ کی بعثت کا علم ہوچکا تھا، بڑی بے چینی سے آپ کی ہجرت اور مدینہ میں آپ کی آمد آمد کا انتظار کرہے تھے، جونہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں جلوہ افروز ہوئے وہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے (ابن الہیبان نے خاص طور پر ان کوجمع کرکے اس پیشین گوئی کویاد دلایا تھا، کتاب میں حضرت اسیدرضی اللہ عنہ کے حالات میں یہ پورا قصہ مذکور ہے، انصار کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار اسلام پیش کیا توانہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا: ایسا نہ ہوکہ اس فضل میں یہود ہم سے سبقت لے جائیں اور ہم رہ جائیں، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہود جانتے تھے کہ خاک بطحا سے وہ نبی عنقریب مبعوث ہونے والا ہے، جس کی بشارت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کودی تھی، ابھی اُوپر حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت گذری ہے جس میں ہے کہ ایک یہودی عالم نے یہود کے ایک پورے مجمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کا اعلان کیا تھا) ان کے ساتھ بعض اور افراد نے بھی آپ کی نبوت کی صداقت کوتسلیم کیا (مثلاً ابویاسر بن اخطب نے جب قرآن کی آیتیں سنیں تواپنے قبیلہ کے پاس آیا اور کہا کہ ہم جس نبی کا انتظار کررہے تھے وہ آگئے ہیں، ان کی اطاعت کرومگراس کے بھائی حیی بن اخطب نے اس کی مخالفت کی؛ چونکہ یہ قبیلہ کا سردار تھا اس لیے پوری قوم اس کی ہم آہنگ ہوگئی (فتح الباری:۸/۲۱۲) اس سلسلہ میں بعض واقعات کا تذکرہ آگے آئے گا) مگران کی تیرہ بختی نے نورِ حق کوان کے تاریک قلوب تک پہنچنے نہیں دیا اور وہ مسلمان نہ ہوسکے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ابن یامین رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا یہود پربجائے اچھا اثرپڑنے کے اور اُلٹا اثر پڑا اور انھوں نے اس اقدام حق پران کوحددرجہ مطعون اور لعنت ملامت کی، سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کوہجرت سے پہلے مکہ ہی میں یہود کی مخالفت اور دشمنی کا علم ہوچکا تھا، مدینہ آنے کے بعد اس کا عینی مشاہدہ بھی ہوا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی اور کاشانۂ نبوت کی تعمیر کے بعد ہی پہلا جوکام کیا وہ انصار اور یہودِ مدینہ کے ایک ایک قبیلہ سے معاہدہ امن وصلح کیا تھا؛ تاکہ یہود کی مخالفت اور زیادہ آگے بڑھنے نہ پائے اور آپ کے اور مسلمانوں کے بارے میں ان کوجوغلط فہمی ہوگئی ہے اس کا ازالہ ہوجائے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائلِ یہود سے صرف معاہدہ امن وصلح ہی پراکتفا نہیں کیا؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان کے ساتھ اپنا رویہ نہایت مصالحانہ، خیرخواہانہ اور روادارانہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفسِ نفیس ان کے مریضوں کی عیادت کرتے تھے، اُن کے جنازے جاتے تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم احتراماً کھڑے ہوجاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ان کوچھینک آتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم دُعائیہ کلمات ارشاد فرماتے (ترمذی، بَاب مَا يَقُولُ الْعَاطِسُ إِذَا عَطَسَ) جب تک کسی مسئلہ میں قرآن کا صریح حکم نازل نہ ہوجاتا آپ تورات کے حکم پرعمل کرتے اور اس میں خود یہود سے مشورہ کرتے تھے، آپ خود اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ان ہی کی اتباع میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، یہود آپ سے اور مسلمانوں سے بحث ومباحثہ کرتے؛ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ناگواری کا اظہار نہ فرماتے، ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور چند یہودیوں میں باہم اس بات پرکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام افضل ہیں یاحضور انور صلی اللہ علیہ وسلم، سحت گفتگو ہوگئی، یہود خدمت نبوی میں شکایت لے کرآئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے مخاطب ہوکر فرمایا: مجھے موسیٰ علیہ السلام پرفضیلت نہ دو؛ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر آیا تواس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ مجھے ان پرفضیلت نہ دو، ایک طرف یہ لطف وکرم اور اخلاق ومحبت کی بارش تھی کہ بچہ بچہ اس سے سیراب تھا،دوسری طرف یہود کا طرزِ عمل یہ تھا کہ آپ کی مجلسوں میں آتے توالسلام علیکم کے بجاے السام علیکم (تم پرموت آئے) کہتے، آپ کی توہین کے لیے راعنا (اس کے معنی ہیں میری رعایت کیجئے؛ مگریہود اس کوزبان دباکر راعینا کہتے تھے، جس کے معنی عربی میں ہمارے چرواہے کے ہیں، ان کی اس روش کودیکھ کرمسلمانوں کواللہ تعالیٰ نے ہدایت کی کہ تم راعنا کے بجائے انظرنا کا لفظ استعمال کرو؛ تاکہ ان کوآپ کی اہانت کا موقع نہ ملے) کا لفظ استعمال کرتے، آپسے اور مسلمانوں سے خواہ مخواہ بحث ومباحثہ کرتے، آپ کی شان میں گستاخیاں اور آپ کی نبوت کی تکذیب کرتے، مسلمانوں کوطرح طرح سے ستانے کی کوشش کرتے، ان سے بدکلامیا ںکرتے؛ لیکن ان کی مسلسل ایذارسانیوں، گستاخیوں، شرارتوں، ریشہ دوانیوں، فتنہ آرائیوں اور شرانگیزیوں کے باوجود مسلمانوں کے ہاتھ سے صبروتحمل کا دامن کبھی نہیں چھوٹا اور ہمیشہ ان کے مقابلے میں وہ حلم وبردباری اور صبروضبط اور اسلام کے اعلیٰ اخلاق کا اظہار کرتے رہے اور انھوں نے اس کا خاص طور سے خیال رکھا کہ ان کی طرف سے کوئی ایسی بات نہ ہوجوصلح وامن کے لیے مضر اور اس معاہدہ کے خلاف ہوجوان کے اور مسلمانوں کے درمیان ہوچکا تھا؛ چنانچہ قرآن یہود کے اس طرزِ عمل کے بارے میں مسلمانوں کوہدایت دیتا ہے: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ۔ (آل عمران:۱۸۶) ترجمہ:اور تم بہت سی دلآزاری کی باتیں اہلِ کتاب (یہود) اور مشکرین سے سنوگے توتم اگران پرصبر کروگے اور تقویٰ کاطرزِ عمل اخیار کروگے تویہ عزیمت کا کام ہوگا۔