انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** لقیط بن مالک اوپر ذکر آچکا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حذیفہ بن حصنؓ کو عمان کی جانب اورعرفجہ بن ہرثمہؓ کو اہل مہرہ کی جانب روانہ کیا تھا اور دونوں کے ساتھ رہنے کا حکم ہوا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا حال سُن کر ملک عمان میں لقیط بن مالک نے نبوت کا دعویٰ کیا اہل عمان اوراہل مہرہ مرتد ہوگئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو عامل وہاں مقرر تھے اُن کو نکال دیا،حذیفہ بن محصن حمیری کو صدیق اکبرؓ نے حکم دیا تھا کہ اول عمان کی طرف جانا،وہاں کی مہم سے فارغ ہوکر مہرہ کی جانب متوجہ ہوجانا،اُدھر عکرمہ بن ابی جہل کو بھی جویمامہ کی طرف بھیجے گئے تھے یہی حکم ملا تھا کہ عمان کی طرف جاکر حذیفہ وعرفجہ کے شریک ہوں؛چنانچہ یہ تینوں سردار صحرائے عمال میں مل کر خیمہ زن ہوئے،لقیط نے اسلامی لشکر کی خبر سُن کر فوجیں فراہم کیں اورشہر وبا میں آکر ہرطرح سامان حرب سے مسلح ہوکر لشکر اسلام کے مقابلہ کو نکلا،لشکر اسلام میں عکرمہؓ بن ابی جہل مقدمۃ الجیش تھے ممینہ میں حذیفہؓ اورمیسرہ میں عرفجہؓ اورقلب لشکر میں وہ رؤساء عمان تھے جو اسلام پر ثابت قدم تھے اورلشکر اسلام کے آنے کی خبر سُن کر شریک لشکر ہوئے تھے۔ نماز فجر کے وقت سے لڑائی شروع ہوئی،اسلامی لشکر نشیبی زمین میں تھا اوردشمنوں کو بلند زمین پر موقع مل گیا تھا،ابتداًء جنگ کا عنوان مسلمانوں کے خلاف اورشکست کے آثار نمایاں تھے ،لقیط نے بڑی بہادری کے ساتھ لشکر اسلام پر حملے کئے ،بالآخر لڑائی کا رنگ بدلا اور مسلمانوں نے صبر واستقامت سے کام لے کر دشمنوں کو پیچھے ہٹایا،دشمن منہ موڑ کر بھاگے اور مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی،اس لڑائی میں دس ہزار دشمن مقتول ہوئے اور چار ہزار گرفتار ہوکر مسلمانوں کی قید میں آئے،اسی تناسب سے مالِ غنیمت لے کر مدینے میں آئے اور حضرت عکرمہؓ مہرہ کی جانب روانہ ہوئے ،چند روز کے بعد تمام عمان میں اسلام قائم ہوگیا ۔فالحمد للہ علی ذالک