انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۵)امام نسائی ؒ (۳۰۳ھ) احمد بن علی ابوعبدالرحمن النسائی بھی ابناء فارس میں سے ہیں، خراسان میں مرو کے قریب نَسَاء ایک قصبہ ہے وہاں کے رہنے والے تھے، نَسَاء نون کے زبر سے ہے، نون کی زیر سے لفظ نِساء (عورتیں) بنتا ہے، نادان امام ابوعبدالرحمن نَسائی کو نِسائی پڑھتے ہیں یہ غلط ہے، نَسائی ہمزہ کے مد اور قصر دونوں طرح سے پڑھا گیا ہے۔ امام نسائی ۲۱۵ھ میں پیدا ہوئے، خراسان ان دنوں علم وفن کا مرکز تھا، امام نسائی تحصیلِ علم میں خراسان سے فارغ ہوئے توپھردوسرے مرکزِ علمی کی طرف رُخ کیا، محدثین نے طلبِ حدیث میں بڑے بڑے سفر کیئے ہیں، امام نسائی نے طلبِ حدیث میں حجاز، عراق، مصر، شام اور جزیرہ کے سفر کئے، پندرہ سال کی عمر میں وقت کے جلیل القدر محدث قتیبہ بن سعید (۲۴۰ھ) کے پاس پہنچے اور ایک سال سے کچھ زیادہ وہاں قیام پذیر رہے، جن اساتذہ کی روایتیں آپ خراسان میں بالواسطہ سن چکے تھے ایسے بہت سے بزرگوں سے بالمشافہ بھی حدیث سنی، حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں: "رحل الی الاٰفاق واشتغل بسماع الحدیث والاجتماع بالأئمۃ الحذاق (البدایہ والنہایہ:۱۱/۱۶۳) وسمع من خلائق لایحصون"۔ (تہذیب التہذیب:۱/۳۷) ترجمہ:دنیا کے کناروں تک سفر کیے، حدیث سننے اور ماہرینِ فن سے مجلسیں کرنے میں (عمربھر) مصروف رہے، اتنے بزرگوں سے حدیث سنی کہ اُن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ مصر کواپنا مرکز بنایا (اشعۃ اللمعات:۱/۱۷) اور وفات سے تقریباً ایک سال پہلے شام (دمشق) چلے آئے (تہذیب التہذیب:۱/۱۲۳) وفات سے چند دن پہلے آپ مکہ مکرمہ چلے گئے۔ امام اسحاق بن راہویہ، محمد بن بشار، قتیبہ بن سعید، امام ابوداؤد، ابوحاتم رازی، امام ابوزرعہ اور حضرت امام بخاری آپ کے اساتذہ میں سے ہیں، امام ابوبکر بن احمد بن السنی (۳۶۳ھ)، محمدبن قاسم الاندلسی (۳۲۸ھ)، حافظ ابوبشر الدولابی (۳۱۰ھ) اور حافظ ابوجعفر الطحاوی (۳۲۱ھ) اور علی بن جعفر الطحاوی (۳۵۱ھ) آپ کے تلامذہ میں سے ہیں، آپ سے سنن نسائی امام طحاویؒ کے بیٹے علی بن جعفر طحاویؒ نے روایت کی ہے۔ امام نسائی حدیث میں ثقہ ثبت اور حافظ تھے، فنِ روایت، جرح رواۃ اور معرفتِ عللِ حدیث میں اپنے اقران میں ممتاز تھے اور علمِ حدیث میں اپنے وقت کے امام تھے "کَانَ إِمَام عصرہ فِی الْحَدِیْثِ