انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** محمدبن قاسم کی وفات سلیمان بن عبدالملک پرسب سے بڑا الزام محمد بن قاسم کے معاملہ میں اگایا جاسکتا ہے، سلیمان کواگرحجاج سے عداوت ودشمنی تھی تواس دشمنی کوحجاج کے رشتے داروں تک بلاوجہ وسیع نہیں ہونا چاہیے تھا؛ لیکن افسوس ہے کہ سلیمان نے محمد بن قاسم کوبھی اسی طرح کشتنی وگردن زدنی سمجھا جس طرح وہ حجاج کوسمجھتا تھا، محمد بن قاسم نہایت سمجھدار، بہادر، مستقل مزاج، نیک طینت اور جوان صالح تھا، اس نوجوان نے سندھ وہند کی فتوحات میں ایک طرف اپنے آپ کورستم واسکندر سے بڑھ کرثابت کیا تودوسری طرف وہ نوشیرواں عادل سے بڑھ کرعادل ورعایا پرور ظاہر ہوا تھا، اس نوجوان فتح مند سردار نے سلیمان کے خلاف قطعاً کوئی حرکت کبھی نہیں کی تھی۔ حجاج کی وفات کے بعد بھی وہ اسی طرح فتوحات وملک داری میں مصروف رہا، جیسا کہ حجاج کی زندگی میں تھا، اس کے پاس جس قدر فوج تھی وہ سب کی سب دل وجان سے اس پرفدا اور اس کے ہرایک حکم کی تعمیل کوبسروچشم موجود تھی اور یہ بھی سب سے بڑی دلیل اس بات کی تھی کہ محمد بن قاسم نہایت اعلیٰ درجہ کی قابلیتِ سپہ سالاری رکھتا تھا، ایسے نوجوان کی جس کی ابتدا ایسی عظیم الشان تھی اگرتربیت کی جاتی اور اس سے کام لیا جاتا تووہ سلیمان بن عبدالملک کے لیے تمام براعظم ایشا کوچین وجاپان تک فتح کردیتا؛ لیکن سلیمان نے جذبہ عداوت سے مغلوب ہوکر یزید بن ابی کبشہ کوسندھ کا والی بناکر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کوگرفتار کرکے بھیج دو، سلیمان کا یہ حکم درحقیقت تمام کام گذار اور فتح مند سپہ سالاروں کوبددل بنادینے کا ایک زبردست اعلان تھا، کسی خلیفہ یاسلطان کے لیے اس سے بڑھ کرکوئی قابل شرم بات نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے سرداروں کے عظیم الشان اور قابل تعریف کاموں کا صلہ بجائے تحسین وآفرین اور عزت افزائی کے قیدوگرفتاری سے دے۔ یزید بن ابی کبشہ سندھ میں آکرزور وقوت کے ذریعہ محمد بن قاسم کوہرگز ہرگز مغلوب نہیں کرسکتا تھا، محمد بن قاسم کے ہمراہیوں کوجب خلیفہ کے اس نامعقول حکم کا حال معلوم ہوا توانہوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ تم اس حکم کی تعمیل ہرگز نہ کرو، ہم تم کواپنا امیر جانتے اور تمہارے ہاتھ پرطاعت کی بیعت کیے ہوئے ہیں، خلیفہ سلیمان کا ہاتھ ہرگز آپ تک نہیں پہنچ سکتا، حقیقت بھی یہ ہے کہ محمد بن قاسم کومغلوب کرنے کے لیے خلیفہ سلیمان کواپنی خلافت کا پورا زور لگانا پڑتا؛ کیونکہ یہاں محمد بن قاسم کے پاس اس کی ہردل عزیزی کے سبب ایسے ذرائع موجود تھے کہ سندھ کے ریگستان کا ہرایک ذرہ اس کی اعانت وامداد کے لیے کوشاں ہوتا؛ مگراس جوان صالح نے فوراً بلاتوقف اپنے آپ کوابن ابی کبشہ کے سپرد کردیا اور کہا کہ خلیفہ وقت کے حکم کی نافرمانی کا جرم مجھ سے ہرگز سرزد نہ ہوگا؛ چنانچہ محمد بن قاسم کوگرفتار کرنے کے بعد ابن ابی کبشہ نے دمشق کی جانب روانہ کردیا، وہاں سلیمان کے حکم سے وہ واسط کے جیل خانہ میں قید کردیا گیا اور صالح بن عبدالرحمن کواس پرمسلط کردیا جس کواس نے جیل خانے میں انواع واقسام کی تکلیفیں دے دے کرمارہی ڈالا۔