انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت قیس ؓبن خرشہ نام ونسب قیس نام، باپ کا نام خرشہ تھا، نسباقبیلۂ بنو قیس بن ثعلبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ بیعتِ اسلام قیس کے زمانہ اسلام کی صحیح تعیین نہیں کی جاسکتی ،ان کے دل میں مدت سے حق کی تلاش تھی؛چنانچہ وہ آنحضرتﷺ کے مدینہ آنے کے بعد بلا کسی خارجی تحریک کے اپنے وطن سے مدینہ آئے اورآنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گذار ہوئے،یا رسول اللہ میں اس شے پر جو خدا کی جانب سے آپ کے پاس آئی ہے اور حق گوئی پر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرتا ہوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا،قیس ممکن ہے آیندہ تم کو ایسے والیوں سے سابقہ پڑے جن کے مقابلہ میں تم حق گوئی سے کام نہ لے سکو،عرض کیا ایسا نہیں ہوسکتا، خدا کی قسم جس چیز پر آپ سے بیعت کرونگا اسے ضرور پورا کرونگا،فرمایا اگر ایسا ہے تو تم کو کسی شر سے نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اس عہد پر اس سختی کے ساتھ قائم رہے کہ بنی امیہ کے زمانہ میں زیاد اور عبید اللہ بن زیاد جیسے ستم کشوں اورظالموں پر برملا نکتہ چینی کرتے تھے،عبیداللہ نے ایک مرتبہ بلا کر کہا، تم خدا اور رسول پر افترا پردازی کرتے ہو، کہا خدا کی قسم نہیں میں ہرگز ایسا نہیں کرسکتا، البتہ اگر تم کہو، تو میں اس شخص کا نام بتادوں ،جو ایسا کرتا ہے،عبیداللہ نے پوچھا بتاؤ، قیس نے کہا،جس نے کتاب اللہ اورسنت رسول اللہﷺ کو پس پشت ڈال رکھا ہے،عبید اللہ نے کہا وہ کون جواب دیا تم اور تمہارا باپ ۔ (اسد الغابہ:۴/۲۸۲) ان کی یہ حق گوئی صرف عبیداللہ ہی کی ذات تک محدود نہ تھی؛بلکہ تمام ظالم حکام کے مقابلہ میں اسی حق گوئی سے کام لیتے تھے، کان شدیدا علی الولا قوالا بالحق ،قیس والیوں کے معاملہ میں نہایت سخت اور بڑے حق گو تھے۔ (استیعاب:۲/۵۴۲) وفات ان کی اس سخت گیری اورحق گوئی پر عبید اللہ ان کا دشمن ہوگیا اور آخری مرتبہ بلا کر کہا تمہارا خیال ہے کہ تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا فرمایا بیشک میرا یہ خیال ہے ،عبیداللہ نے کہا اچھا آج ہی تمہارے اس جھوٹے خیال کی قلعی کھلی جاتی ہے،یہ کہہ کر سزا دینے والوں کو بلایا، ارباب سیر کا متفقہ بیان ہے کہ قبل اس کے کہ سزا دینے والے پہنچیں اوران کے جسم کو ہاتھ لگائیں ان کی روح قفسِ عنصری سے پرداز کر گئی اور وہ سزا کے شرسے بچ گئے۔ (استیعاب:۲/۵۴)