انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** واقعہ شہادت فاروق اعظمؓ مدینہ منورہ میں مغیرہ بن شعبہ کا ایک نصرانی غلام فیروز نامی جس کی کنیت ابولولوتھی رہتا تھا، اس نے ایک روز بازار میں فاروق اعظمؓ سے شکایت کی کہ میرا آقا مغیرہ بن شعبہ مجھ سے زیادہ محصول لیتا ہے،آپ کم کرادیجئے، فاروق اعظمؓ نے اس سے دریافت کیا کہ کس قدر محصول وہ وصول کرتا ہے،ابو لو لو نے کہا دودرم (سات آنے) روزانہ،فاروق اعظمؓ نے دریافت فرمایا کہ تو کیا کام کرتا ہے،اس نے کہا آہبنگری نقاشی اورنجاری، آپ نے فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلہ میں یہ رقم زیادہ نہیں ہے، یہ سُن کر ابو لولو اپنے دل میں سخت ناراض ہوا،فاروق اعظمؓ نے پھر اس سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں نے سُنا ہے تو ایسی چکی بنانا جانتا ہے کہ جو ہوا کے زور سے چلتی ہے ،تو مجھ کو بھی ایسی چکی بنادے،اس نے جواب میں کہا کہ بہت خوب میں ایسی چکی بنادوں گا جس کی آواز اہل مغرب ومشرق سنیں گے ،دوسرے دن نمازِ فجر کے لئے لوگ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوئے،ابو لو لو ایک خنجر لیے ہوئے مسجد میں داخل ہوگیا، جب نماز کے لئے صفیں درست ہوگئیں، اورفاروق اعظمؓ امامت کے لئے آگے بڑھ کر نماز شروع کرچکے،تو ابو لولو نے جو مسلمانوں کے ساتھ صف اول میں کھڑا تھا نکل کر فاروق اعظمؓ پر خنجر کے چھ وار کئے جن میں ایک وار ناف سے نیچے پڑا فاروق اعظمؓ نے فوراً حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو کھینچ کر اپنی جگہ کھڑا کردیا اورخود زخموں کے صدمہ سے بے ہوش ہوکر گرپڑے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے لوگوں کو اس حالت میں نماز پڑھائی، کہ فاروق اعظمؓ زخمی سامنے پڑے تھے،ابو لولو اپنا وار کرکے مسجد نبوی سے بھاگا،لوگوں نے اس کے پکڑنے کی کوشش کی،اُس نے کئی شخصوں کو زخمی کیا،اورکلیب بن ابی بکیرؓ کو شہید کردیا، بالآخر گرفتار کرلیا گیا، لیکن اس نے گرفتار ہوتے ہی خود کشی کرلی،نماز فجر پڑھ لینے کے بعد لوگ فاروق اعظمؓ کو مسجد سے اُٹھا کر اُن کے گھر لائے انہوں نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ میرا قاتل کون تھا، لوگوں نے ابو لولو کا نام بتایا تو آپ نے فرمایا خدا کا شکر ہے کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو یا جس نے خدا کو ایک سجدہ بھی کیا ہو،ایک طبیب نے آکر آپ کو دودھ اورنبیذ پلایا تو وہ زخم کے راستے باہر نکل آیا،یہ حالت دیکھ کر لوگوں کو آپ کی زندگی سے مایوسی ہوئی اور عرض کیا کہ جس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرما دیا تھا،آپ بھی کسی کو اپنا جانشین مقرر فرمادیں۔ آپ نے عبدالرحمن بن عوفؓ حضرت سعد بن وقاصؓ،حضرت زبیرؓ بن العوامؓ، حضرت طلحہ ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ،حضرت عثمان بن عفانؓ کو طلب فرمایا، حضرت طلحہؓ مدینہ منورہ میں تشریف نہ رکھتے تھے فاروق اعظمؓ نے پانچ آدمیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تین روز تک طلحہؓ کا انتظار کرنا ،اگر وہ تین روز تک آجائیں تو ان کو بھی اپنی جماعت میں شامل کرنا، اور تین روز تک نہ آئیں تو پھر تم پانچ آدمی ہی مشورہ کرکے اپنے آپ میں سے کسی ایک کو اپنا امیر بنالینا،اس کےبعد آپ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ کو بلاکر کہا کہ اگر لوگ خلافت وامارت کے انتخاب میں اختلاف کریں،تو تم کثرت کے ساتھ شریک ہونا اوراگر فریقین برابر تعداد کے ہوں تو تم اس گروہ میں شریک ہونا جس میں عبدالرحمن بن عوفؓ شامل ہوں، پھر ابو طلحہ انصاری اور مقداد بن اسود کو بلا کر حکم دیا، کہ جب یہ لوگ خلیفہ کے انتخاب وتقرر کی غرض سے ایک جگہ مشورہ کرنے کو جمع ہوں، تو تم دونوں دروازے پر کھڑے رہنا اور کسی کو ان کے پاس نہ جانے دینا جب تک وہ مشورے سے فارغ نہ ہوجائیں، پھر آپ نے مذکورہ بالا حضرات کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جو شخص خلافت کے لئے منتخب ہو اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے حقوق کا بہت خیال رکھے،کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی،مہاجرین کو اپنے گھروں میں ٹھہرایا انصار تمہارے محسن ہیں، ان کے ساتھ تم کو احسان کرنا چاہئے،ان کی خطا ولغزش سے حتی الامکان در گذر اور چشم پوشی اختیار کرنا مناسب ہے،تم میں سے جو شخص خلیفہ منتخب ہو،اس کو مہاجرین کا بھی پاس و لحاظ رکھنا چاہئے،کیونکہ یہی لوگ مادہ اسلام ہیں،اسی طرح ذمیوں کا بھی پورا پورا خیال رکھنا چاہئے، اُن کےسا تھ اللہ اور رسول کی ذمہ داری کو کماحقہ ملحوظ رکھا جائے، اورذمیوں سے جو وعدہ کیا جائے،اس کو ضرور پورا کیا جائے،ان کے دشمنوں کو دور کیا جائے،ان کی طاقت سے زیادہ اُن کو تکلیف نہ دی جائے۔ پھر اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بلا کر حکم دیا،حضرت عائشہؓ کی خدمت میں جاؤ اورحضرت ابوبکرصدیقؓ کے پہلو میں دفن کئے جانے کی اجازت حاصل کرو، وہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فاروق اعظمؓ کی التجا پیش کی،حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لئے تجویز کی تھی،لیکن اب میں عمر فاروقؓ کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں، اُن کو ضرور اس جگہ دفن کیا جائے یہ خبر جب حضرت عبداللہ ؓ نے فاروق اعظمؓ کو سنائی، تو وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ میری سب سے بڑی مراد برآئی،چہارشنبہ ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ھ کو آپ زخمی ہوئے،اوریکم محرم ۲۴ھ کو ہفتہ کے دن فوت ہوکر مدفون ہوئے،ساڑھے دس برس خلافت کی، نماز جنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھائی ،حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ ،حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اورحضرت عبداللہ بن عمرؓ نے قبر میں اُتارا۔