انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علم وفضل کی قدر افزائی منصور اعظم علم وفضل کا ایسا ہی قدردان تھا جیسا کہ خلیفہ حکم ثانی،وہ خود بھی عالم تھا اور عالموں کی بڑی قدر کیاکرتا تھا مگر وہ لوگ جو لڑکپن میں اس کے ہم سبق رہ چلے تھے منصور اعظم کی اس عظمت وشوکت کو دیکھ کر دل ہی دل میں حسد کے مارے جلےبھنےجاتے تھے انہوں نے موقع پاکر منصور کے خلاف ایک سازش مرتب وبرپا کی اور یہ الزام لکگایا کہ منصور فلسفہ کی جانب زیادہ مائل ہے اور اس پر دہریت غالب ہے مگر منصور نے اپنے خلاف اس قسم کی شہرت سن کر فوراً اس کی تلافی کی اور خود مذہبی علماء کی ایک بڑی مجلس منعقد کرکے اس قسم کی باتوں کا سد باب کردیا منصور نے بہت سے پل بنائے جامع مسجدقرطبہ کی اس نے بھی توسیع کی امن وامان اور رعایا کی خوش حالی اس کےزمانے میں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی وہ ایسے مقامات پر بھی اپنی فوجیں لےگیا جہاں اس سے پہلے کوئی مسلمان نہ پہنچا تھا غرض منصوراعظم کے نام سے عیسائی سلاطین کے دل میں اس قدر خوف طاری ہوتا تھا کہ اسسے زیادہ کسی اموی خلیفہ سے بھی وہ نہ ڈرتے تھے منصور نے نہایت ادنی درجہ کی حالت سے ترقی کرکے اپنے آپ کو حکومت وسلطنت کے اعلی ترین مقام پر پہنچایا اس لیے وہ دنیا کے باحوصلہ اور قابل تکریم لوگوں کی صف میں اعلی مقام رکھتا ہے ۳۹۴ھ میں جب وہ فوت ہوا تو اگرچہ خلافت بنو امیہ ہشام ثانی کی بے بسی ونالائقی کےسبب اپنےآخری سانس پورے کررہی تھی مگر اسلامی عظمت وشوکت اپنے معراج کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ منصور اعظم کے فوت ہونے کی خبرقرطبہ میں پہنچی تو ہواں خواہان بنو امیہ کو اس یے خوش ہوئی کہ اب ہشام ثانی جو شاہ شطرنج کی حیثیت رکھتا تھا آزدانہ اور خود مختارانہ فرماں روائی کرسکےگا؛چنانچہ بعض خیر خواہوں نےحلیفہ ہشام تک پہنچنے اور یہ خوشخبری سنانے کی کوشش میں کامیابی حاصل کی،مگر ہشام نے منصور کے فوت ہونے کی خبر سن کر بے حد رنج وملال کا اظہار کیااور منصور کے بڑے بیٹے عبدالملک کےآنےسےکوئی خیال ظاہر نہیں کیا ،جب عبدالملک شہر سالم میں اپنے باپ کو دفن کرنے کے بعد قرطبہ میں وارد ہوا تو خلیفہ ہشام ثانی نےاس کو فوراً طلب کرکےاپناوزیر اعظم بنایااور اب منصور کی مانند عبدالملک تمام سلطنت اندلس کے سیاہ وسفید کا مالک ومختار ہوا،خلیفہ ہشام نے اس کو سیف الدولہ اور مظفر کا خطاب دےدیا،مظفر نے اپنے باپ کی روش پر عمل کیا اور چھ سال حکومت کرنے کے بعد۳۹۹ھ میں فوت ہوا،مظفر نے اپنے عہد حکومت میں آٹھ مرتبہ عیسائی ملکوں پرچڑھائیاں کیں اور ہر مرتبہ فتح مند ہوا ،اس کےزمانے میں علم وفن کی خوب ترقی رہی اور حکومت اسلامیہ کے اس رعب میں جو منصور کے زمانے میں قائم ہوچکا تھا کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ مظفر کےفوت ہونے پر ا سکا بھائی عبدالرحمن بن منصور وزارت عظمی یا تخت سلطانی پر فائز ہوا،عبدالرحمن نے اپنا لقب ناصر تجویز کیا ،ناصر کا بھائی مظفر اوراس کا باپ منصور دونوں اگرچہ سلطنت اندلس کےخود مختار فرماں روا تھے مگر وہ اپنے آپ کو وزیر اعظم یا حاجب السلطنت ہی کہتے رہے،عبدالرحمن ناصر نے یہ دیکھ کر کہ اراکین دربار اورسرداران لشکر اورعمال وحکام سب اسی کے خیر خواہ اور اسی کے باپ کے ترتیب کردہ دوست گرفتہ ہیں بلاخوف وخطر اپنے آپ کو خود مختار بنایا اورخلیفہ ہشام کی ظاہری تعظیم وتکریم میں بھی قصور کرنے لگا۔ اس کے بعد ناصر نے ہشام کو مجبور کیا وہ ناصر کو اپنا ولی عہد خلافت تجویز کرے چنانچہ ہشام نے مجبوراً ایک فرمان کےمضمون پر جوناصر نے لکھاکر پیش کیا دستخط کردیے اور ممالک محروسہ کےتمام عمال کےنام وہ فرمان بھیجاگیا جس میں لکا تھا کہ ہمارے بعد عبدالرحم ناصر کو حلیفہ بنایاجائے اور ہر فرد بشر اس کو ولی عہد خلافت تصور کرے اس فرمان میں ناصر کی عالی نسبی اور قابلیت ملک داری کی بہت تعریف کی گئی تھی اس فرمان یا سند ولی عہدی کی تمام ارکان داعیان سلطنت نے تائید وتصدیق کی اور جامع مسجد قرطبہ میں بھی اس کا اعلان کیاگیا ناصر اپنی کامیابی پر بہت خوش ہوا مگر یہی سند ولی عہدی وسلطانی اس کے لیے موجب ہلاکت ثابت ہوئی۔