انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عمیر بن وہب بیہقی اور طبرانی کی روایت ہے کہ جنگ بدر کے بعدصفوان بن امیہ بن خلف او رعمیر بن وہب بن خلف دونوں کعبہ کے پاس مقام حجرہ میں بیٹھ کر بدر میں اپنے ہلاک ہونے والے لوگوں کا تذکرہ کررہے تھے ،صفوان نے کہا اپنے آدمیوں کے قتل ہونے کے بعد زندگی کا مزہ جاتا رہا، عمیر نے کہا سچ ہے میں قرضدار ہوں میرے پاس کچھ ادا کرنے کو نہیں ہے میں ڈرتا ہوں کے میرے بعد میری اولاد تباہ ہوجائے گی، اگر یہ اندیشہ اور ڈر نہ ہوتا تو میں جاکر محمدﷺ کو قتل کرڈالتا ،میرا ایک بیٹا محمد کی قید میں ہے اس بہانے میں وہاں تک پہنچ بھی سکتا ہوں، صفوان نے یہ بات غنیمت سمجھی اور عمیر کا قرض چکانے اور اس کی اولاد کی خبر گیری کا وعدہ کرلیا، عمیر نے کہا میرے اس ارادہ کو کسی سے نہ کہنا اور نہ کسی کو خبر کرنا ،عمیر نے تلوار تیز کی ، زہر میں بجھائی اور مدینہ چل دیا ،حضرت عمرؓ نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ دشمن خدا کسی بری نیت سے آیا ہے، آنحضورﷺ تک اس کے آنے کی خبر پہنچائی، آپﷺ نے فرمایا کے عمیر کو میرے پاس لے آؤ حضرت عمر گئے اور اس کی تلوار اپنے قبضہ میں کرکے اسے ساتھ لائے، آنحضورﷺ نے فرمایا عمیر آؤ جب وہ قریب آگیا تو آپﷺ نے اس سے پوچھا کیوں آئے ہو ،اس نے کہا اپنے قیدی بیٹے کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی سفارش لے کر آیا ہوں، آپ نے پوچھا یہ تلوار گردن میں لٹکانے کی کیا ضرورت تھی، اس نے کہا یہ تلوار کس کام کی ہے( اس کا مطلب یہ تھا کہ جس کام کے لیے یہ تلوار لایا تھا وہ پورا نہیں ہوا)آنحضرتﷺ نے فرمایا سچ سچ بیان کر تو کس مقصد سے آیا ہے ، اس نے اپنا پھر وہی قیدی کے ساتھ حسن سلوک کا مقصد بتایا، اس پر آنحضرت ﷺ نے اس کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا کہ تم اور صفوان مقام حجر میں جمع ہوئے تھے اور یہ باتیں تم میں ہوئیں ؛چنانچہ صفوان کی ذمہ داری پر میرے قتل کے لیے آئے ہو ،جب یہ بات رسول اللہﷺ سے سنی تو عمیر فوراً پکار اٹھے:اشہدانک رسول اللہ،میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ خدا کے رسول ہیں،میرے اورصفوان کے سوا کسی تیسرے کو میرے اس ارادہ کی خبر نہ تھی، خدا کی قسم! اللہ ہی نے تم کو خبر دی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اسلام کی طرف رہنمائی فرمائی، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اپنے بھائی عمیر کو دین کی باتیں اور قرآن سکھاؤ اور اس کے قیدی کو رہا کردو، یہ واقعہ بھی آپ کی غائبانہ خبر کی صداقت پر روشنی ڈالتا ہے اورآپ کی اعجاز پر کھلی دلیل ہے۔