انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ضحاک بن مخلد النبیلؒ نام ونسب ضحاک نام،ابو عاصم کنیت اور نبیل لقب تھا،نسب نامہ یہ ہے،ضحاک بن مخلد بن الضحاک بن مسلم بن الضحاک،شیبانی اور بصری کی نسبتوں سے شہرت پائی، بعض علماء کا خیال ہے کہ بنو شیبان کے غلام تھے،لیکن بعض کی رائے کے مطابق بنو شیبان سے خاندانی نسبت حاصل تھی۔ (تہذیب التہذیب:۴/۴۵۰) مولد ۱۲۲ھ میں بمقام بصرہ پیدا ہوئے (خلاصہ تذہیب:۱۷۷) حافظ ابن حجر عسقلانی کا خیال ہے کہ امام ابو عاصم اصلاً مکی تھے،بعد میں بصرہ منتقل ہوگئے تھے۔ (تہذیب :۴/۴۵۳) لقب کی وجہ تسمیہ ان کے نبیل کے لقب سے مشہور ہوجانے کے بارے میں مختلف باتیں بیان کی جاتی ہیں ،کہاجاتا ہے کہ ایک بار بصرہ میں اتفاق سے ہاتھی آگیا،جو وہاں کے لوگوں کے لیے ایک عجوبہ تھا،اس لیے اس کو دیکھنے کے لیے سب لوگ اپنے اپنے کام چھوڑ کر باہر نکل آئے، امام ابو عاصم اس وقت ابن جریج کے حلقۂ درس میں تھے وہ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں ،ابن جریج نے ان سے کہاکہ تم ہاتھی دیکھنے نہیں گئے،فرمایا،ہاتھی تو کبھی پھر دیکھ سکتا ہوں؛ لیکن آپ کے اس درس کا بدل کہاں ملےگا،اس جواب سے خوش ہوکر ابن جریج نے فرمایا "انت النبیل" اس روایت کی صحت مشتبہ معلوم ہوتی ہے؛کیونکہ اسی قسم کی ایک نہایت مستند روایت یحییٰ مصمودی اورامام مالک کے بارے میں بھی منقول ہے، قیاس ہے کہ غلط فہمی سے اس کا انتساب زیرِ نظر واقعہ میں ہوگیا ،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امام ابو عاصم کےعمدہ کپڑے زیب تن کرنے کے باعث انہیں نبیل کا لقب ملا، اسی طرح یہ روایت بھی ملتی ہے کہ بڑی اورلمبی ناک ہونے کے باعث نبیل کہاجانے لگا۔ (تہذیب التہذیب:۴/۴۵۲) راقم سطور کے خیال میں مذکورہ بالا وجوہ کے مقابلہ میں علامہ ذہبی کی یہ رائے زیادہ وزن رکھتی ہے کہ امام ابو عاصم اپنی شرافت نیکی اورصالحیت کے باعث نبیل کے لقب سے ملقب ہوئے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۶) فضل وکمال علم وفضل کے اعتبار سے نہایت بلند مقام حاصل تھا، حدیث وفقہ دونوں پر یکساں عبور رکھتے تھے، وسعتِ علم اور قوتِ حافظہ میں ان کا ثانی کم ہی مل سکے گا،اہلِ تذکرہ شیخ الاسلام اورالحافظ کے القاب سے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں،ابن عماد الحنبلی لکھتے ہیں: کان واسع العلم ولم یرفی یدہ کتاب قط وہ بہت وسیع العلم تھے،ان کے ہاتھ میں کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی گئی۔ شیوخ وتلامذہ جن نامور حفاظِ حدیث کے خرمنِ علم سے انہیں خوشہ چینی کی سعادت نصیب ہوئی،ان میں کبار اتباع تابعین کے علاوہ اجلہ تابعین کے اسمائے گرامی بھی شامل ہیں،کچھ نمایاں نام یہ ہیں: امام مالک بن انس ،ہشام بن حسان، سلیمان التیمی، ابن عجلان ،ابن ابی ذئب ،ابن جریج،امام اوزاعی، سعید بن عبدالعزیز،حیوۃ بن شریح، زکریا بن اسحاق ،سفیان ثوری، امام شعبہ،سعید بن ابی عروبہ،عبدالحمید بن جعفر ،عمر بن سعید، قرہ بن خالد۔ خود امام ابو عاصم سے حدیث کی روایت اورسماعت کرنے والے نامور علماء میں امام احمد بن حنبل،اسحاق بن راہویہ ، علی بن المدینی،بندار ابو خثیمہ ،یعقوب الدورتی ،حارث بن اسامہ،محمد بن حبان وغیرہ شامل ہیں (تہذیب التہذیب:۴/۴۵۱)مزید براں ان کے شیوخ میں سے جریر ابن حازم اورمعاصر علماء میں امام اصمعی نے بھی ان سے بعض روایتیں کی ہیں،جو بجائے خود ابو عاصم کے علم وفضل پر شاہد عدل ہے۔ قوتِ حافظہ انہوں نے حافظہ نہایت قوی پایا تھا،اسی وجہ سے ان کا دماغ ہزاروں حدیثوں اورمسائل فقہیہ کا مخزن بن گیا تھا،درس ہمیشہ زبانی ہی دیا کرتے تھے،علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ: لم یحدث قط الامن حفظہ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۶) انہوں نے ہمیشہ حافظہ سے حدیثیں روایت کیں۔ ابوداؤد شہادت دیتے ہیں کہ امام ابو عاصم کو ایک ہزار بہترین حدیثیں زبانی ازبر تھیں (ایضاً)ابن خراش کا بیان ہے کہ: لم یرفی یدہ کتاب قط (تہذیب :۴/۴۵۱) ان کے ہاتھ میں کبھی کتاب نہیں دیکھی گئی۔ تعدیل وتوثیق امام ابو عاصم کی عدالت وثقاہت ،تثبت واتقان اورصداقت پر تمام علماء ومحققین بیک زبان متفق ہیں۔ (میزان الاعتدال:۱/۴۷۱،وشذرات الذہب:۲/۲۸) علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: کان ابو عاصم ثقۃ فقیھاً: ابو عاصم ثقہ اورفقیہ تھے عجلی کا بیان ہے: کان ثقۃ کثیرالحدیث وکان لہ فقہ وہ ثقہ کثیر الحدیث اورفقیہ تھے۔ محمد بن عیسیٰ الزجاج کہتے ہیں: قال لی ابو عاصم کل شیی حدثنک حدثونی بہ لانی مادلست قط مجھ سے ابو عاصم نے خود کہا کہ میں نے جو کچھ حدیثیں تم سے بیان کی ہیں ،وہ فی الواقع اسی طرح میرے شیوخ نے مجھ سے بیان کی ہیں، میں کبھی تدلیس کا مرتکب نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں ابن قانع،ابن معین اورابن حبان نے بھی بصراحت انہیں ثقہ اور صدوق قراردیا ہے۔ اعترافِ علماء ان کے گونا گون کمالات کی وجہ سے معاصر علماء ان کا بڑا احترام کرتے تھے اوران کے علم وفضل کو سراہتے تھے،عمر بن شیبہ فرماتے ہیں کہ بخدا میں نے ان کا ثانی اورمثل نہیں دیکھا واللہ ما رایت مثلہ (میزان الاعتدال:۱/۴۷۱)حمدان بن علی الوراق بیان کرتے ہیں کہ ۱۲ھ میں ہم لوگ امام احمد کے پاس گئے اور ان سے حدیث روایت کرنے کی درخواست کی،امام احمد بن حنبل نےفرمایا: تسمعون منی وابو عاصم فی الحیوٰ ۃ اذھبوا الیہ (تہذیب :۴/۲۵۲) تم لوگ مجھ سے سماعت کرتے ہو،حالانکہ ابو عاصم باحیات ہیں ان کے پاس جاؤ۔ فضائلِ اخلاق امام ابو عاصم کو علم کے ساتھ عملی دنیا میں بھی امتیازی مقام حاصل تھا،تاحیات کسی کی غیبت سے اپنی زبان کو آلودہ نہیں کیا،امام بخاری فرماتے ہیں: سمعت اباعاصم یقول ما اغتبت احداً اقط منذ عقلت ان الغیبۃ حرام (العبر:۱/۳۶۲) میں نے ابو عاصم کو کہتے سُنا کہ جب سے مجھے علم ہوا کہ غیبت حرام ہے،میں نے کبھی کسی کی غیبت نہیں کی۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص علمِ حدیث حاصل کرتا ہے ،وہ گویا دنیا کی بیش بہا دولت جمع کرتا ہے اوروہ روئے زمین کے انسانوں میں سب سے افضل وبرتر ہے،اس لیے ہر شخص کو ایسا ہی "خیرالناس" بننا چاہئے۔ (خلاصہ تذہیب:۱۷۷) وفات ۱۴ ذی الحجہ ۲۱۲ ھ کو بمقام بصرہ رحلت فرمائی (ابن سعد:۷/۴۹)انتقال کے وقت ۹۰ سال سے چندماہ زائدعمرتھی ،سال وفات کے بارے میں اکثر علماء نہ یہی سنہ اختیار کیاہے،ورنہ۲۱۱ھ ۲۱۳ھ اور۲۱۴ھ کے اقوال بھی ملتے ہی