انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۵۶۔عمرؓ بن عبدالعزیزؒ نام ونسب عمرنام،ابو حفض کنیت، نسب نامہ یہ ہے،عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن حکم بن العاص بن امیہ بن عبدشمس اموی،ماں کا نام ام عاصم تھا، یہ حضرت عمرؓ کے فرزند عاصم کی صاحبزادی تھیں، اس طرح عمر بن عبدالعزیز کی رگو ں میں عمر فاروقؓ کا خون بھی شامل ہوگیا تھا، اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ مروان جیسے بدنام شخص کی نسل سے عمر بن عبدالعزیز جیسا مجدد ملت پیدا ہوا، جو صدق میں ابوبکرؓ، عدل میں عمرؓ، حیا میں عثمانؓ اور زہد میں علیؓ مرتضیؓ کا مثیل تھا، جس نے اپنے مجددانہ کارناموں سے ملتِ اسلامیہ کی روح کو جو امویوں نے مردہ کردی تھی دوبارہ زندہ کردیا۔ عمر کے والد عبدالعزیز مروان کے چھوٹے لڑکے تھے،مروان نے عبدالملک کے بعد انہیں ولیعہد نامزد کیا تھا، لیکن وہ عبدالملک کی زندگی ہی میں وفات پاگئے۔ (کتاب الاولاۃ کندی :۵۴،۵۸) عبدالعزیز اپنے خاندانی اوصاف وکمالات کے پورے حاصل تھے اوراپنے والد کی مہمات میں ان کے دست راست رہے، عبداللہ بن زبیرؓ کی وفات کے بعد مروان نے جب مصر پر قبضہ کرنے کے لیے فوج کشی کی توعبدالعزیز کو ایلہ پر متعین کیا۔ (ایضاً:۲) مصر پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد مروان دو مہینہ یہاں مقیم رہا، دو مہینہ کے بعد عبدالعزیز کو یہاں کا گورنر بنا کر شام واپس ہوا۔ (ایضاً:۴۷) مروان کےبعد عبدالملک نے بھی عبدالعزیز کو مصر کی حکومت پر برقرار رکھا، اورانہوں نے یہاں کامل اکیس سال حکومت کرنے کے بعد ۸۶ میں انتقال کیا تاریخ اسلام میں اتنی طویل مدت کم کسی والی کو نصیب ہوئی ہوگی۔ عبدالعزیز نے مصر اورحلوان میں اپنی حکومت کی بہت سے یاد گاریں چھوڑیں ایک زرنگار محل تعمیر کرایا، حلوان میں متعدد محلات اورمسجدیں بنوائیں،مصر کی جامع مسجد منہدم کرا کے اس کو از سر نو تعمیر کرایا،خلیج مصر پر پل بنوائے، انگورا اورخرمے کے باغات لگوائے۔ (کتاب الولاۃ کندی:۵۵،حسن المحاضرہ سیوطی:۲/۲۰۴) علماء اورارباب کمال کا بڑا قدر دان تھا، قاضی عبدالرحمن بن حجیرہ خولانی کا ایک ہزار اشرفی سالانہ وظیفہ مقرر کیا(ایضا:۱/۱۱۸)شعراء کے ساتھ اتنی داد ودہش کرتا تھا کہ بعض شعراء نے اس کے بعد شاعری چھوڑدی،کثیر سے کسی نے پوچھا،اب شعرکیوں نہیں کہتے ،جواب دیا، عبدالعزیز کے بعد صلہ کی توقع کس سے کی جائے۔ پیدائش اس نامورشخص کے گھر میں عمر پیدا ہوئے، ان کے سنہ پیدائش کے بارہ میں بیانات مختلف ہیں،بروایت صحیح یزید کے عہد میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۰۵) تعلیم وتربیت عمر بن عبدالعزیز کا بچپن والد کے ساتھ مصر میں گزرا (ایضاً) اورغالباً ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی،جب ہوش سنبھالا تو عبدالعزیز نے ان کو اعلیٰ تعلیم کے لیے مدینہ جو علم و علماء کا مرکز تھا، بھیج دیا،یہاں محدث صالح بن کیسان کی نگرانی میں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ صالح کیسان اس اہتمام کے ساتھ ان کی مذہبی اور اخلاقی نگرانی کرتے تھے کہ ایک مرتبہ عمر بن عبدالعزیزؓ نے نماز میں دیر کردی، صالح نے باز پرس کی عمر بن عبدالعزیزؓ نے جواب دیا بال سنوارنے میں دیر ہوگئی،صالح نے کہا، اب بالوں کی آرائش میں اتنا شغف ہوگیا ہے کہ اس کو نماز پر ترجیح دی جاتی ہے اورعبدالعزیز کو یہ واقعہ لکھ بھیجا،انہوں نے فوراً ایک آدمی روانہ کیا، جس نے پہلے عمر کے بال مونڈے،اس کے بعد کسی سے بات چیت کی۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز ابن جوزی:۹) اس اہتمام سے ان کی تعلیم وتربیت ہوئی،انہیں خود تحصیل علم کا ذوق تھا،ان کا بیان ہے کہ میں مدینہ کے عام لڑکوں کی طرح ایک لڑکا تھا،پھر عربی اورشعر کا شوق پیدا ہوا،(ایضاً) چنانچہ انہوں نے بڑے ذوق وشوق سے تحصیل علم کی۔ ان کی تعلیم کا یہ دور ابتدائی تھا، وہ دور جس نے ان کو امامِ وقت بنایا مدینہ کی گورنری کا عہد تھا، جس میں اکابر علماء سے ان کی صحبتیں اورعلمی بحث ومباحثے رہتے تھے، ان کا خود بیان ہے کہ جب مدینہ سے نکلاہوں اس وقت مجھ سے بڑا عالم کوئی نہ تھا (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۰۶)ان کے علمی کمالات کے حالات آخر میں آئیں گے۔ شادی ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے چچا عبدالملک نے اپنی لڑکی فاطمہ کے ساتھ ان کی شادی کردی۔ خناضرہ کی حکومت عمر بن عبدالعزیز درحقیقت مسند درس کے لیے زیادہ موزوں تھے لیکن شاہی خاندان کی رکنیت نے ان کو ایوان حکومت میں پہنچادیا؛چنانچہ سب سے اول وہ خناضرہ کے والی مقرر ہوئے۔ مدینہ کی گورنری عبدالملک کے بعد ولید نے ان کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا انہیں اس کے قبول کرنے میں تامل ہوا ولید نے حاجب سے پوچھا عمر جاتے کیوں نہیں اس نے کہا وہ کچھ شرائط کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، ولید نے بلا کر پوچھا،انہوں نے کہا مجھے پہلے والیوں کی طرح ظلم پر مجبور نہ کیا جائے، ولید نے منظور کرلیااور کہا تم حق پر عمل کرنا خواہ ایک درہم بھی خزانہ میں داخل نہ ہو۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۳۲،۳۳) اس شرط کے ساتھ وہ مدینہ روانہ ہوئے،اس وقت کے عمر بن عبدالعزیز درویش ابن عبدالعزیز نہ تھے؛بلکہ شاہی خاندان کے رکن اورشان وشکوہ والے عمر بن عبدالعزیز تھے؛چنانچہ تیس اونٹوں پر ان کا ذاتی سازوسامان بار تھا۔ (یعقوبی:۲/۳۳۹) علمائے مدینہ سے مشورہ لیکن فطرت سلیم تھی، اس لیے مدینہ پہنچنے کے بعد یہاں کے دس بڑے فضلاء کو بلا کر ان کے سامنے ایک مختصر تقریر کی کہ میں نے آپ کو ایک ایسے کام کے لیے بلایا ہے جس میں آپ کو ثواب ملے گا اورآپ حامی حق قرار پائیں گے،میں آپ لوگوں کے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہتا، اس لیے جب آپ لوگ کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں یا آپ کو میرے کسی عامل کے ظلم کی اطلاع ہو تو آپ خدا کی قسم مجھ کو ضرور اس کی خبر کیجئے،یہ تقریر سننے کے بعد فقہا ان کو دعائے خیر دیتے ہوئے واپس گئے۔ (ابن سعد:۶/۲۴۶) تعمیر مسجد نبوی مدینہ کی گورنری کے زمانہ میں عمر بن عبدالعزیز نے یہاں بہت سی اصلاحیں اور مفید کام کیے،ان میں ان کا ناقابل فراموش کارنامہ مسجد نبوی کی تعمیر اوراس کی تزئین وآرائش ہے۔ ولید کے پیشر وخلفاء نے وقتاً فوقتاً مسجد نبوی میں ترمیمیں کرائی تھیں لیکن ولید نے بڑے اہتمام کے ساتھ اس کو نہایت عظیم الشان پیمانہ پر تعمیر کرانے کا ارادہ کیا اور ۸۸ ھ میں عمر بن عبد العزیز کو لکھا کہ مسجد نئے سرے سے تعمیر کی جائے، اس سے متصل ازواج مطہرات کے حجرے اوردوسرے جو مکانات ہیں ان کا معاوضہ دے کر ان کو مسجد میں شامل کرلیا جائے جو لوگ قیمت لینے سے انکار کریں ،ان کے مکانات زبردستی گرادیے جائیں اوران کی قیمت فقیروں کو خیرات کردی جائے۔ (خلاصۃ الوفاء :۱۳۷) قیصر روم کو خط لکھ کر بہت سے رومی کاریگر ،مزدور،میناکاری اور پچہ کاری کا سامان کئی ہزار مثقال سونا منگایا(ایضاً:۱۳۹)اور مختلف مقامات سے مختلف قسم کے تعمیر سامان جمع کیے اورفقہائے مدینہ کی موجودگی میں مسجد کی پرانی عمارت گروا کر ان بزرگوں کے متبرک ہاتھوں سے عمارت کی بنیاد ڈالی۔ (ایضاً) عمر بن عبدالعزیز کو اس عمارت سے ذاتی دلچسپی تھی،اس لیے بڑے انہماک اورحسنِ مذاقِ سے اس کو تعمیر کرایا، ساری عمارت نفیس پتھروں کی تھی ، دیواریں اورچھتیں منقش مطلا اورمیناکارتھیں، جھاڑ کے ایک نقش پر کاریگروں کو ۳۰ درہم انعام دیتے تھے۔ (ایضاً) اس اہتمام سے تین سال میں عمارت بن کر تیار ہوئی ۹۱ھ میں ولید نے مدینہ جاکر اس کا معائنہ کیا اور عمر بن عبدالعزیز کی کارگزاری پر خوشنودی ظاہر کی۔ اطراف مدینہ کی مساجد کی تعمیر مسجد نبوی کے علاوہ اپنے عہد گورنری میں اطراف مدینہ میں اوربہت سی مسجدیں بنوائیں ،آنحضرت ﷺ نے اطرافِ مدینہ میں جہاں جہاں نمازیں پڑھی تھیں مسلمانوں نے یاد گار کے طور پر وہاں معمولی مسجدیں بنالی تھیں، عمر بن عبدالعزیز نے اس قسم کی تمام مسجدوں کو منقش پتھروں سے تعمیر کرایا۔ (فتح الباری:۱/۴۷۲) کنوؤں اورراستوں کی تعمیر رفاہِ عام کے سلسلہ میں ولید کے حکم سے مدینہ میں بہت سے کنویں کھدوائے اور دشوار گزار پہاڑی راستے درست کرائے۔ معزولی اگرچہ عمر بن عبدالعزیز نے تقرر کے وقت یہ شرط کرلی تھی کہ وہ گذشتہ والیوں کی طرح ظلم نہ کریں گے،لیکن بنی امیہ کا نظام کچھ ایسا تھا کہ یہ شرط قائم نہیں رہ سکتی تھی اس لیے ایک روایت یہ ہے کہ حجاج کی شکایت پر وہ معزول کردیئے گئے (طبری ) دوسرا بیان ہے کہ عبداللہ بن زبیرؓ کے صاحبزادے خبیب کو جو بنی امیہ کے مخالفین میں تھے،ولید کے حکم سے مجبور ہوکر سزادی جس کے صدمہ سے وہ مرگئے ،اس کی ندامت میں خود مستعفی ہوگئے۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز میں یہ واقعہ مفصل ہے) سلیمان کے مزاج میں رسوخ عمرؓ بن عبدالعزیز اپنے اوصاف اورحسن خلق کی بنا پر خاندان بھر میں محبوب تھے،خصوصا سلیمان بن عبدالملک ان کو بہت مانتا تھا، انہیں اپنا وزیر ومشیر بنایا تھا اور امورِ خیر میں ان کے مشوروں پر عمل کرتا تھا(تاریخ الخلفاء:۳۶۶) اس لیے سلیمان کے عہد کی اصلاحات درحقیقت عمر بن عبدالعزیز ہی کے فیض کا نتیجہ تھیں۔ سلیمان کی وفات اورخلافت ۹۹ھ میں سلیمان مرض الموت میں مبتلا ہوا اوراپنے نابالغ لڑکے ایوب کو ولیعہد نامزد کیا، رجاء بن حیوٰۃ نے جو سلیمان کے ندیم خاص تھے،اس سے اختلاف کیا،اور کہا: امیر المومنین خلیفہ ایسے صالح آدمی کو بنایے جس سے آپ قبر میں محفوظ رہیں، سلیمان نے کہا یہ میرا قطعی فیصلہ نہیں ہے میں اس پر غور کروں گا اورخدا سے استخارہ کروں گا؛چنانچہ دو دن غور کرنے کے بعد وصیت نامہ چاک کر ڈالا اور رجاء بن حیوۃ سے پوچھا کہ میرے لڑکے داؤد کے بارہ میں کیا رائے ہے ؟ رجاء نے کہا وہ اس وقت قسطنطنیہ میں ہیں اور معلوم نہیں زندہ ہیں یا نہیں ،سلیمان نے کہا پھر کیا رائے دیتے ہو،رجاء نے کہا اصل رائے تو آپ کی ہے،آپ نام لیجئے میں غور کروں گا(ایک روایت یہ ہے کہ رجاء ہی نے عمرؓ بن عبدالعزیز کا نام پیش کیا تھا) سلیمان نے کہا عمربن عبد العزیز کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ،رجاء نے کہا میرے نزدیک وہ نہایت فاضل اوربرگزیدہ مسلمان ہیں،سلیمان نے کہا خدا کی قسم وہ ایسے ہی ہیں ،لیکن اگر میں عبدالملک کی اولاد کو بالکل نظر انداز کرکے عمر بن عبدالعزیزؓ کو خلیفہ بنادوں تو ایک فتنہ بپا ہوجائے گا، جب تک ان کے بعد عبدالملک کی کسی اولاد کا نام رکھو ں گا، اس وقت تک وہ لوگ اُن کو خلافت پر قائم نہ رہنے دیں گے اس لیے میں یزید کو ان کے بعد خلیفہ بنائے دیتا ہوں اس سے وہ لوگ ٹھنڈے ہوجائیں گے اورراضی رہیں گے،رجاءنے بھی اس سے اتفاق کیا اس کے بعد سلیمان نے خود اپنے قلم سے یہ وصیت نامہ لکھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم،یہ تحریر خدا کے بندے سلیمان امیر المومنین کی جانب سے عمر بن عبدالعزیز کے لیے ہے میں نے اپنے بعد تم کو خلیفہ بنایااور تمہارے بعد یزید بن عبدالملک کو،مسلمانوں ان کا کہنا سنو اور ان کی اطاعت کرو، خدا سے ڈرو، اختلاف نہ پیدا کرو کہ دوسرے تم پر حرص وطمع کی نگاہ ڈالیں۔ اوراس پر مہر کرکے اپنے خاندان والوں کو بلاکر رجاء کو حکم دیا کہ اس وصیت نامہ کو لے جاکر خاندان والوں سے کہو کہ میں نے اس میں جس کو خلیفہ بنایا ہے وہ لوگ اس کی بیعت کریں،رجاء نے اس کی تعمیل کی سب نے بالاتفاق سمعنا واطعنا کہا پھر ان کی خواہش پر انہیں سلیمان کو دیکھنے کی اجازت دی گئی،جب یہ لوگ اندر گئے تو سلیمان نے وصیت نامہ کی طرف جو رجاء کے ہاتھ میں تھا،اشارہ کرکے ان لوگوں سے کہا، اس میں میں نے جس کو خلیفہ بنایا ہے اس کی بیعت کرو اوراس کے مطیع رہو سلیمان کے کہنے پر دوبارہ سب نے فرداً فرداً بیعت کی۔ عمر بن عبدالعزیزؓ کو ظن غالب تھا کہ سلیمان نے ان کو خلافت کے لیے نامزد کیا ہے ،وہ اس بار عظیم کو اٹھانا نہ چاہتے تھے،اس لیے رجاء سے جاکر کہا ،میرے اوپر سلیمان کی جو شفقتیں اورمہربانیاں ہیں ان سے مجھے اندیشہ ہے کہ انہوں نے خلافت کے لیے مجھے نامزد کیا ہو، اگر ایسا ہو تو مجھے بتادیجئے تاکہ قبل اس کے کہ میں مجبور ہوجاؤں ابھی اس سے استعفاء دے دوں،لیکن رجاء نے بتانے سے انکار کیا۔ نامزدگی کے مرحلہ سے فراغت کے بعد سلیمان کا انتقال ہوگیا ،رجاء نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ موت کی خبر مخفی رکھی اور شاہی خاندان کے ارکان کو جمع کرکے دوبارہ ان سے بیعت لی، بیعت کو موکد کرنے کے بعد سلیمان کی موت کا اعلان کیا اوروصیت نامہ پڑھ کر سنایا عمر بن عبدالعزیز کا نام سن کر عبدالملک کے لڑکے ہشام نے کہا ہم کبھی ان کی بیعت نہیں کرسکتے،رجاء نے کہا اٹھ کر خاموشی کے ساتھ بیعت کرلو، ورنہ ابھی سر قلم کردوں گا اورعمر بن عبدالعزیز کا ہاتھ پکڑ کے منبر پر بٹھا دیا انہوں نے اس بارِ عظیم کی ذمہ داری پر اورہشام نے اپنی محرومی قسمت پر انا للہ پڑھا، اس کے بعد سلیمان کی تجہیز وتکفین ہوئی اورعمر بن عبدالعزیز نے نماز جنازہ پڑھائی۔ خلفائے راشدین کا پہلا اسوہ تختِ خلافت پر قد م رکھتے ہی عمر بن عبدالعزیز بالکل بدل گئے اوراب ناز پرور دہ عمر نے ابو ذر غفاریؓ اورابوہریرہؓ کا قالب اختیار کرلیا، سلیمان کی تجہیز وتکفین سے فراغت کے بعد حسب معمول عمر بن عبدالعزیز کے سامنے شاہی سواریاں پیش کی گئیں، انہوں نے پوچھا یہ کیا ہے؟عرض کیا گیا شاہی سواریاں، فرمایا،میرے لیے میرا خچر کافی ہے اورکل سواریاں واپس کردیں۔ (یہ تمام واقعات ابن سعد:۵/۲۴۷،۲۴۹ سے ماخوذ ہیں) ابھی سلیمان کے اہل وعیال قصرِ خلافت میں تھے، اس لیے اپنے خیمہ میں فروکش ہوئے،گھر آئے تو اس بار عظیم کی ذمہ داری سے چہرہ پریشان تھا،لونڈی نے پوچھا آپ شاید کچھ متفکر ہیں،فرمایا اس سے بڑھ کر تشویش کی بات کیا ہوگی کہ مشرق ومغرب میں امتِ محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ اوراطلاع کے اس کا اداکرنا مجھ پر فرض نہ ہو۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۵۲) خلافت سے دستبرداری کا اعلان اورمسلمانوں کا اصرار حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خلافت کی ذمہ داریوں کے بار گراں کا پورا احساس تھا،اگر نامزدگی کے وقت ان کو اس کا علم ہوگیا ہوتا تو وہ اسی وقت اپنا نام واپس لے لیتے، لیکن اب یہ بار پڑچکا تھا،تاہم انہوں نے ایک مرتبہ اس سے سبکدوش ہونے کی کوشش کی اورلوگوں کو جمع کر کے تقرر کی۔ لوگو: میری خواہش اورعام مسلمانوں کی رائے لیے ہوئے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داریوں میں مبتلا کیا گیا ہے، اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمہاری گردن میں ہے میں خود اس کو اتار ے دیتا ہوں، تم جس کو چاہو اپنا خلیفہ منتخب کرلو۔ یہ خطبہ سن کر مجمع سے شور اٹھا ہم نے آپ کو خلیفہ منتخب کیا ہے اورآپ کی خلافت سے راضی ہیں، آپ خدا کا نام لے کر کام شروع کردیجئے۔ پہلا خطبہ جب اس کا یقین ہوگیا کہ آپ کی خلافت سے کسی کو اختلاف نہیں ہے تو آپ نے ایک تقریر کی جس میں لوگوں کو تقویٰ ،فکرِ آخرت اورذکر موت کی طرف توجہ دلائی آخر میں بآواز بلند فرمایا: لوگو:جو شخص خدا کی اطاعت کرے اس کی اطاعت فرض ہے اور جو شخص خدا کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت واجب نہیں،جب تک میں خدا کی نافرمانی کروں تو میری اطاعت تم پر فرض نہیں۔ (ایضاً:۵۳،۵۴) طبقات ابن سعد میں یہ الفاظ ہیں،اما بعد تمہارے نبی کے بعد دوسرا نبی اوراس پر جو کتاب نازل ہوئی ہے ،اس کے بعد کوئی دوسری کتاب نہیں ہے، خدا نے جو چیز حلال کردی وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اورجو حرام کردی وہ قیامت تک کے لیے حرام رہے گی، میں (اپنی جانب سے ) کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں ؛بلکہ صرف (احکام الہی کو) نافذ کرنے والا ہوں، میں خود کوئی بات شروع کرنے والا نہیں ہوں صرف پیرو ہوں،کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے میں تمہاری جماعت کا بہتر آدمی بھی نہیں ہوں ؛بلکہ ایک معمولی فرد ہوں، البتہ خدانے مجھ کو تم سے زیادہ گراں بار کردیا ہے۔ (ابن سعد:۵/۲۵۰،۲۵۱) عبد العزیز بن عبدالملک کی بیعت یہاں دمشق میں یہ سب کچھ ہوچکا تھا،لیکن عبدالعزیز بن عبد الملک کو جو کہیں باہر تھا ان واقعات کی خبر نہیں ہوئی تھی،ا س لیے سلیمان کی موت کی خبر سن کر اس نے اپنے ہمراہیوں سے اپنی بیعت لے لی اوردمشق کے ارادہ سے بڑھا ،راستہ میں اسے سلیمان کی وصیت اورعمر بن عبدالعزیز کی بیعت کا حال معلوم ہوا،یہ سن کر وہ سیدھا ان کے پاس پہنچا، ان کو اس کے بیعت لینے کی خبر ہوچکی تھی،انہوں نے اس سے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنی بیعت لے کردمشق میں داخل ہونا چاہتے تھے،عبدالعزیز نے کہا مجھے اس کا علم نہ تھا کہ سلیمان نے آپ کو خلیفہ نامزد کردیا ہے، اس لیے مجھے خوف تھا کہ لوگ خزانہ نہ لوٹ لیں، عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا،اگر لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کرلیتے اورتم بار خلافت کو سنبھال لیتے تو میں تم سے جھگڑا نہ کرتا اور اپنے گھر میں بیٹھ جاتا، عبدالعزیز نے کہا آپ کے ہوتے ہوئے میں دوسرے کا خلیفہ ہونا پسند ہی نہیں کرتا اورآپ کے ہاتھوں پر بیعت کرلی۔ (ایضاً) خلافت راشدہ کا احیاء ان مراحل سے فراغت کے بعد امورِ خلافت کی طرف متوجہ ہوئے،خلافت کے باب میں عمر بن عبدالعزیز کا نقطۂ نظر گذشتہ خلفاء سے بالکل مختلف تھا، ان کے پیش نظر نظامِ خلافت میں عظیم الشان انقلاب برپاکرنا تھا وہ سلطنت کی ظاہری ترقیوں یعنی فتوحات محاصل اور عمارتوں میں اضافہ کرنا نہیں چاہتے تھے ؛بلکہ اموی حکومت کو خلافتِ راشدہ میں بدل دینا چاہتے تھے، یہ اقدام ایسا اہم اور خطرناک تھا، جس میں ہر طرف سے مخالفتوں کے طوفان کا مقابلہ تھا؛لیکن عمر بن عبدالعزیز نے تمام خطرات سے بے پرواہ ہوکر نہایت جرأت سے انقلاب شروع کردیا۔ غصب کردہ مال وجائداد کی واپسی اسی سلسلہ میں سب سے اہم اورنازک کام رعایا کی املاک کی واپسی تھی،جس کو شاہی خاندان نے اپنی جاگیر بنالیا تھا،اس میں سارے خاندان کی مخالفت کا مقابلہ کرنا تھا ،لیکن عمر بن عبدالعزیز نے سب پہلے یہی کار خیر کیا اور سب سے اول اپنی ذات اوراپنے خاندان سے شروع کیا،جس وقت آپ نے اس کا ارادہ ظاہر فرمایا، اس وقت بعض ہوا خواہوں نے دبی زبان سے عرض کیا کہ اگر آپ جاگیر یں واپس کردیں گے تو اپنی اولاد کے لیے کیا انتظام کریں گے فرمایا ان کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ اس عزم راسخ کے بعد خاندان والوں کو جمع کرکے فرمایا: بنی مروان تم کو شرف اور دولت کا بڑا حصہ ملا ہے،میرا خیال ہے کہ امتِ مسلمہ کا نصف یا دوتہائی مال تمہارے قبضہ میں ہے یہ لوگ یہ اشارہ سمجھ گئے اورجواب میں کہا: خدا کی قسم جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہ ہوں گے اس وقت تک یہ نہیں ہوسکتا،خدا کی قسم نہ ہم اپنے اباواجداد کو کافر بناسکتے ہیں (عمر بن عبدالعزیز اپنے اسلاف کے افعال کو حرام کہتے تھے) اورنہ اپنی اولاد کو مفلس بنائیں گے،عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا خدا کی قسم اگر اس حق میں تم میری مدد نہ کرو گے تو میں تم لوگوں کو ذلیل اور رسوا کر ڈالوں گا تم لوگ میرے پاس سے چلے جاؤ۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز ابن جوزی :۱۱۵) اس کے بعد عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرکے تقریر کی: ان لوگوں (بنی امیہ)نے ہم کو عطایا اورجاگیریں دیں،خدا کی قسم نہ انہیں ان کو دینے کا حق تھا اورنہ ہمیں ان کے لینے کا ،اب میں ان سب میں ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرتا ہوں اوراپنی ذات اوراپنے خاندان سے شروع کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اسناد شاہی کا خریطہ منگایا،مزاحم سب کو پڑھ پڑھ کر سناتے جاتے تھے اورعمرؓ بن عبدالعزیز ان کو لے لے کر قینچی سے کاٹتے جاتے تھے،صبح سے لے کر ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ (ایضا:۲۰۸) اس طرح اپنی اوراپنے پورے خاندان کی کل جاگیریں واپس کردیں اوراپنے پاس ایک نگینہ تک باقی نہ رہنے دیا (ابن سعد:۵/۲۵۲)ان کی بیوی فاطمہ کو ان کے باپ عبدالملک نے ایک قیمتی پتھر دیا تھا، عمر بن عبدؓ العزیز نے اپنی بیوی سے کہا،یا اس کو بیت المال میں داخل کردیا، (ابن سعد:۵/۲۵۲)سب سے اہم معاملہ فدک کا تھا،جومدتوں سے خلفاء اوراہل بیت کے درمیان متنازعہ فیہ چلا آتا تھا اوراب عمر بن عبدالعزیزؒ کے قبضہ میں تھا اوراسی پر اُن کی اوراُن کے اہل وعیال کی معاش کا دارومدار تھا،اس کے متعلق انہوں نے رسول اللہ ﷺ اورخلفاء راشدین کے طرزِ عمل کی تحقیقات کرکے آل مروان سے کہا فدک رسول اللہ ﷺ کا خاصہ تھا، جس کی آمدنی آپ اپنی اور بنی ہاشم کی ضروریات میں صرف فرماتے تھے،خود فاطمہؓ نے آپ سے اس کو مانگا تھا؛ لیکن آپ نے دینے سے انکار فرمایا،حضرت عمرؓ کے زمانہ تک اسی پر عمل ہوتا رہا ،آخر میں مروان نے اس کو اپنی جاگیر بنالیا اوراب وہ راثۃ میرے قبضہ میں ہے؛ لیکن جو چیز رسول اللہ ﷺ نے فاطمہؓ کو نہیں دی، اس پر میرا کوئی حق نہیں ہے، اس لیے میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ فدک کی جو صورت رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھی میں ا س کو اسی حالت پر لوٹاتا ہوں۔ (ابوداؤد کتاب الخراج والامارۃ باب فی صفا یا رسول اللہ ﷺ وطبقات ابن سعد تذکرہ عمر بن عبدالعزیز) اپنی اوراپنے خاندان کی جاگیروں کو واپس کرنے کے بعد عام غصب شدہ مال کی طرف متوجہ ہوئے اورامیر معاویہ کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک ظالمانہ طریقوں سے جس قدر غصب کردہ مال وجائداد تھی ،سب ایک ایک کرکے واپس کرادی اور معاویہ اوریزید کے وارثوں سے لے کر ان کے اصلی مالکوں کے حوالہ کی۔ (ابن سعد:۵/۲۵۲) شام کے علاوہ سارے ممالکِ محروسہ کے عمال کے پاس غصب شدہ مال کی واپسی کے متعلق تاکیدی احکام بھیجے ،عراق میں اس کثرت سے مال واپس کیا گیا کہ صوبہ کی حکومت کا خزانہ خالی ہوگیا اور عمر بن عبدالعزیز کو وہاں کے اخراجات کے لیے دمشق سے روپیہ بھیجنا پڑا۔ (ایضاً) مال کی واپسی کے لیے ہر طرح کی آسانیوں کا لحاظ رکھا گیا،ملکیت کے ثبوت کے لیے کوئی بڑی شہادت کی ضرورت نہ تھی، معمولی شہادت پر مل جاتا تھا۔(ایضاً)جو لوگ مرچکے تھے ان کے ورثا کو واپس کیا گیا (تہذیب الاسماء:۱/۲۰) اوریہ سلسلہ عمر بن عبدالعزیز کی وفات تک برابر قائم رہا۔ (ابن سعد:۵/۱۵۱) اہل خاندان کی برہمی عمر بن عبد العزیز نے نہ صرف علاقے اورجاگیر یں چھین کر بنی امیہ کو تہی دست کردیا؛بلکہ ان کے سارے امتیازات مٹاکر ان کی نخوت اورغرور کو خاک میں ملادیا، اس لیے خاندان میں ان کے خلاف سخت برہمی پھیل گئی اورانہوں نے ان کو ہرطریقہ سے اس عادلانہ طریقے سے ہٹانے کی کوشش کی عمرو بن ولید نے نہایت غضب آلود خط لکھا کہ تم نے گذشتہ خلفاء پر عیب لگایا ہے،اُن کی اوران کی اولاد کی دشمنی میں ان کے خلاف روش اختیار کی ،تم نے قریش کی دولت اور ان کی میراث ظلم وجور سے بیت المال میں داخل کرکے قطع رحم کیا،عمر بن عبدالعزیز خدا سے ڈرو اوراس کا خیال کرو کہ تم نے زیادتی کی ہے،تم ابھی منبر پر اچھی طرح بیٹھے بھی نہ تھے کہ اپنے خاندان والوں کو جوروظلم کا نشانہ بنادیا، اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کو بہت سی خصوصیات کے ساتھ مختص فرمایا، تم اس حکومت میں جس کو تم اپنے لیے آزمائش اورمصیبت کہتے ہو، خدا سے بہت دور ہوگئے ،اس لیے اپنی خواہشوں کو روکو اوراس کا یقین رکھو کہ تم ایک جبار کی نگاہ کے سامنے اوراس کے قبضہ میں ہو اوراس حالت میں چھوڑے نہیں جاسکتے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے بھی اس کا نہایت سخت جواب دیا۔ (یہ خط اوراس کا جواب دونوں سیرت عمر بن عبدالعزیز :۱۱۲ میں ہے) آلِ مروان نے ہشام کو اپنا وکیل بناکر ان کے پاس بھیجا ،اس نے ان کی جانب سے کہا کہ: آل مروان کہتے ہیں کہ ان امور میں جن کا تعلق آپ کی ذات سے ہے جو چاہے کیجئے لیکن گذشتہ خلفاء جو کچھ کر گئے ہیں،اس کو اسی حالت پر رہنے دیجئے،عمر بن عبدالعزیزؓ نے اس کے جواب میں پوچھا اگر ایک ہی معاملہ کے متعلق تمہارےپاس دودوتاویزیں ہوں، ایک امیر معاویہؓ کی دوسری عبدالملک کی،تو تم کسے قبول کرو گے، ہشام نے کہا جو قدیم ہوگی،عمر بن عبدالعزیزؓ نے کہا تو میں نے کتاب اللہ کو قدیم دستاویز پایا، اس لیے میں ہر اس چیز میں جو میرے اختیار میں ہے،خواہ وہ میرے زمانہ کی ہو یا گذشتہ زمانہ سے متعلق ہو اسی کے مطابق عمل کروں گا،یہ سن کر سعید بن خالد نے کہا امیر المومنین جو چیز آپ کی ولایت میں ہے، اس میں آپ حق وانصاف کے ساتھ اپنی رائے سے فیصلہ کیجئے، لیکن گزشتہ خلفاء اوران کی بھلائیوں اوربرائیوں کو ان کے حال پر رہنے دیجئے، اس قدر آپ کے لیے کافی ہے،عمر بن عبدالعزیز نے کہا میں خدا کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک شخص چھوٹے بڑے لڑکوں کو چھوڑ کر مرجائے،اس کے بعد بڑے لڑکے اپنی قوت سے چھوٹے لڑکوں کے مال پر قبضہ کرکے کھاجائیں اور وہ تمہارے پاس مددکے لیے آئیں تو تم کیا کرو گے، سعید نے کہا ان کے حقوق واپس دلاؤں گا، عمر بن عبدالعزیزؓ نے کہا یہی تو میں بھی کررہا ہوں،مجھ سے پہلے خلفاء نے ان لوگوں کو اپنی قوت سے دبایا ان کے ماتحتوں نے بھی ان کی تقلید کی، اب جب میں خلیفہ ہوا تو یہ کمزور لوگ میرے پاس آئے، اس لیے میرے لیے اس کے سوا چارہ کار کیا ہے کہ طاقتور سے کمزور کا اوراعلیٰ سے ادنی کا حق دلاؤں۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۱۱۸،۱۱۹) ایک مرتبہ تمام آل مروان نے آپ کے دروازہ پر جمع ہوکر آپ کے صاحبزادے عبدالملک سے کہا کہیا ہم لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دلواؤ یا اپنے باپ کوجاکر پیام دو کہ ان سے پہلے جو خلفاء تھے وہ ہم کو لیتے دیتے تھے،ہمارے مراتب کا لحاظ رکھتے تھے اور تمہارے باپ نے ہم کو بالکل محروم کردیا ،عبدالملک نے جاکر حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کو یہ پیام سنایا،انہوں نے کہا جاکر ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر میں خدا کی نافرمانی کروں تو عذاب قیامت سے ڈرتا ہوں۔ (سیرت عمربن عبدالعزیز:۱۱۷) خود آپ کے گھر والوں کو آپ سے شکایت ہوگئی۔ اوزاعی کا بیان ہے کہ جب عمر بن عبدالعزیزؓ نے اپنے گھر والوں کے گزارے بند کردئیے تو عنبسہ بن سعد نے آپ سے شکایت کی کہ امیر المومنین آپ پر ہم لوگوں کا حق قرابت ہے،آپ نے جواب دیا میرے ذاتی مال میں تمہارا اس سے زیادہ حق نہیں ہے ،جتنا برک عماد کے آخری حدود کے رہنے والے کا، بخدا اگر ساری دنیا تم لوگوں کی رائے کی ہوجائے تو ان پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ (ایضاً:۱۱۷) اس قبیل کے اوربہت سے واقعات ہیں،مگر ان میں سے کوئی شے عمر بن عبدالعزیزؓ کو قیام عدل سے نہ روک سکی۔ ظالم عہدہ داروں کا تدارک مال مغصوبہ کی واپسی کے بعد دوسری اہم اصلاح عمال کے ظلم وجور کا تدارک تھا، جس کے وہ خوگر ہو رہے تھے،اگرچہ آپ کے مشورہ سے سلیمان ہی کے زمانہ میں بڑی حد تک اس کا تدارک ہوچکا تھا،پھر بھی کچھ آثار باقی رہ گئے تھے،اموی حکومت میں سب سے زیادہ جفاکار حجاج کے خاندان والے اوراس کے ماتحت عہدہ دار تھے،حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے حجاج کے پورے خاندان کو یمن کی طرف جلائے وطن کردیا اوروہاں کے عامل کو لکھا کہ میں تمہارے پاس آل عقیل کو بھیج رہا ہوں، جو عرب میں بدترین خاندان ہے،اس کو اپنی حکومت میں ادھر ادھر منتشر کرو (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۱۱۴،۱۱۵) جو لوگ حجاج کے ہم قبیلہ یا اس کی ماتحتی میں کام کرچکے تھے ان کو ہر قسم کے ملکی حقوق سے محروم کردیا۔ مظالم کا انسداد اموی دور میں بد گمانی اورسوئے ظن پرداروگیر اورسزا عام تھی حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسے بالکل بند کردیا،موصل میں چوری اورنقب زنی کی وارداتیں بکثرت ہوتی تھیں، یہاں کے والی یحییٰ غسانی نے لکھا جب تک لوگوں کو شبہ پر پکڑا نہ جائے گا اور سزا نہ دی جائے گی اس وقت تک یہ وارداتیں بند نہ ہوں گی آپ نے لکھا کہ صرف شرعی ثبوت پر مواخذہ کرو اگر حق ان کی اصلاح نہیں کرسکتا تو خدا ان کی اصلاح نہ کرے۔ (تاریخ الخلظ:۲۳۸) اسی طرح سے جراج بن عبداللہ بن حکمی والی خراسان نے لکھا کہ اہل خراسان کی روش نہایت خراب ہےان کو کوڑے اورتلوار کے علاوہ اورکوئی چیز درست نہیں کرسکتی، اگر امیر المومنین مناسب سمجھیں تو اس کی اجازت مرحمت فرمائیں ،آپ نے جواب میں لکھا تھا تمہارا خط پہنچا، تمہارا یہ لکھنا کہ اہل خراسان کو کوڑے اورتلوار کے سوا کوئی شے درست نہیں کرسکتی، بالکل غلط ہے،ان کو عدل وحق درست کرسکتا ہے،اسی کو عام کرو۔ (ایضاً:۲۴۳) عمال کو رعایا کا مال کم قیمت پر خریدنے کی سختی سے ممانعت کردی، عدی بن ارطاط والی فارس کو لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے عمال پھلوں کا تخمینہ کرکے عام نرخ سے کم قیمت لگاکر اس کو خریدتے ہیں،اور کردوں کے قبیلے مسافروں سے عشر وصول کرتے ہیں،اگر یہ معلوم ہوگیا کہ یہ تمہارے ایما سے ہوتا ہے یا اسے تم پسند کرتے ہو،تو میں تم کو مہلت نہ دوں گا،میں بشر بن صفوان ،عبداللہ بن عجلان اورخالد بن سالم کو اس کی تحقیقات کے لیے بھیجتا ہوں، اگر وہ اس خبر کو صحیح پائیں گے تو پھلوں کو ان کے مالکوں کو واپس کردیں گے ،اس کے علاوہ جن جن باتوں کی مجھے اطلاع ملی ہے،سب کی تحقیقات کریں گے،تم ان لوگوں سے کوئی مزاحمت نہ کرنا۔ (ابن سعد:۵/۲۰۹،۳۲۹) وقتاً فوقتاً عمال کو قیام عدل اورانسدادِ مظالم کے احکام بھیجتے رہتے تھے،ایک مرتبہ ایک گشتی فرمان تمام امراء کے نام بھیجا کہ لوگ بُرے عمال کی وجہ سے جنہوں نے برے دستور قائم کیے اورکبھی انصاف،نرمی اوراحسان کا ارادہ نہیں کیا، احکام الہی میں سخت مصیبت سختی اورظلم وجور میں مبتلا ہوگئے۔ (یعقوبی:۲/۳۶۲) ایک والی عبدالحمید کو پہلا خط لکھا کہ وسوسہ شیطانی اورحکومت کے بعد انسان کی بقا نہیں ہوسکتی،اس لیے جب تم کو میرا خط ملے،اس وقت ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو،جس قدر ناجائز ٹیکس تھے،سب موقوف کردیئے (ایضا:۲۸۳) ان کے علاوہ اور تمام ظالمانہ طریقوں کو روکا۔ بیت المال کی آمدنی کی اصلاح اموی دور میں بیت المال کے مداخل اورمخارج میں بڑی بے عنوانیاں تھیں،جائز اورناجائز آمدنی میں کوئی تفریق نہ تھی، ہر طرح کی ناجائز آمدنیوں سے خزانہ بھرا جاتا تھا، پھر اس بے عنوانی سے اسے خرچ کیا جاتا تھا، بیت المال جو ایک قومی امانت ہے،ذاتی خزانہ بن گیا تھا اوراس کا بڑا حصہ خلفاء کے ذاتی مصارف اوران کے تعیش میں صرف ہوتا تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دونوں بے عنوانیوں کا تدارک کیا۔ شاہی خاندان کے تمام مخصوص وظیفے بند کردیئے،خلافت کے شکوہ وتجمل کے مصارف بالکل ختم کردیے،ان کی تخت نشینی کے بعد شاہی اصطبل کے داروغہ نے سواریوں کے اخراجات طلب کیے تو حکم دیا کہ انہیں بیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں داخل کردی جائے ، میرا خچر میرے لیے کافی ہے۔ (تاریخ الخلفا:۲۳۱) بیت المال کی آمدنی بڑھانے کے لیے حجاج نو مسلموں سے بھی جزیہ لیتا تھا، آپ نے حکم جاری کردیا کہ ‘جو لوگ مسلمان ہوجائیں ان کا جزیہ ساقط کردیا جائے اس حکم پر اتنے آدمی مسلمان ہوئے کہ جزیہ کی آمدنی گھٹ گئی،حیان بن شریح نے شکایت لکھ بھیجی کہ، اس کثرت کے ساتھ لوگ مسلمان ہوئے ہیں کہ مجھے قرض لے کر مسلمانوں کے وظیفے دینے پڑےآپ نے ان کو نہایت سخت خط لکھا کہ جزیہ بہر حال موقوف کرو، رسول اللہ ﷺ ہادی بنا کر بھیجے گئے تھے، محصل خراج بناکر نہیں بھیجے گئے تھے۔ (مقریزی:۲/۱۲۵) اور اس سلسلہ میں یہ فرمانِ عام جاری کردیا کہ اگر جزیہ ترازو میں رکھا جاچکا ہو اوراس حالت میں بھی ذمی اسلام قبول کرلے یا آغازِ سال سے ایک دن پہلے (جبکہ پورے سال کا جزیہ عائد ہوجاتا ہے )اسلام لے آئے تو بھی جزیہ نہ لیا جائے۔ (ابن سعد:۵/۲۶۲) خراج کی اصلاح کے متعلق عبد الحمید بن عبدالرحمن کو فرمان لکھا: زمین کا معائنہ کرو، بنجر زمین کا بار آباد زمین پر اورآباد زمین کا بار بنجر زمین پر نہ ڈالو،بنجر زمین کا معائنہ کرو، اگر اس میں صلاحیت ہو تو بقدر گنجائش خراج لواور ان کی اصلاح کرو کہ وہ آباد ہوجائیں، جن آباد زمینوں میں پیدا وار نہیں ہوتی، ان سے خراج نہ لو اورجو زمینیں قحط زدہ ہوجائیں، ان کے مالکوں سے نہایت نرمی سے خراج وصول کرو، خراج میں صرف وزن سبعہ لو، جن میں سونا نہ ہو،ٹکسال اورچاندی پگھلا نے والوں سے ،نو روز اورمہرجان کے ہدیے، عرائض نویسی اورشادی کا ٹیکس، گھروں کا ٹیکس اورنکاحانہ نہ لو، جوذمی مسلمان ہوجائیں ان پر خراج نہیں ہے (کتاب الخراج:۴۹) اس طرح انہوں نے بیت المال سے ہر قسم کی ناجائز آمدنیاں بند کردیں۔ بیت المال کی حفاظت کا انتظام اس کی حفاظت کا نہایت سخت انتظام کیا، ایک مرتبہ یمن کے بیت المال سے ایک دینار گم ہوگیا،حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہاں کے افسرِ خزانہ کولکھا کہ میں تمہاری امانت کو متہم نہیں کرتا، لیکن تمہاری لاپرواہی کو جرم قرار دیتا ہوں اور مسلمانوں کی طرف سے ان کے مال کا مدعی ہوں، تم پر فرض ہے کہ تم شرعی قسم کھاؤ۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز:۸۵) یزید بن مہلب بن ابی صفرہ والیِ خراسان کو خیانت کے جرم میں معزول کرکے قید کردیا۔ (یعقوبی :۲/۳۱۳) ابو بکرہ بن حزم نے سلیمان کے آخری عہد میں کاغذ، قلم، دوات اورروشنی کے دفتر اخراجات کے اضافہ کے لیے لکھا تھا، ابھی اس کا کوئی انتظام نہ ہوا تھا کہ عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ ہوگئے،انہوں نے ابوبکرہ کو لکھا، وہ دن یاد کرو جب تم اندھیری رات میں بغیر روشنی کے کیچڑ میں اپنے گھر سے مسجد نبویﷺ جاتے تھے اور آج بخدا تمہاری حالت اس سے کہیں بہتر ہے،قلم باریک کرلو اورسطریں قریب قریب لکھا کرو، اپنی ضروریات میں کفایت شعاری سے کام لو، میں مسلمانوں کے خزانہ سے ایسی رقم صرف کرنا پسند نہیں کرتا ،جس سے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچے، دوسرے عمال کو بھی ہدایت لکھی کہ کوئی عامل بڑے کاغذ پر جلی قلم سے نہ لکھے، خود آپ کے فرامین ایک بالشت سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ (ایضاً) بیت المال کی آمدنیوں اور مصارف کی علیحدہ علیحدہ مدیں قائم کیں، صدقہ کی علیحدہ ،خمس کی علیحدہ،مالِ غنیمت کی علیحدہ (ایضاً:۲۹۵) گذشتہ خلفاء خمس کے مقررہ مصارف کی پابندی نہیں کرتے تھے،عمر بن عبدالعزیز ؓ نے خمس کو اس کے صحیح مصارف میں لگایا۔ (ابن سعد:۵/۲۵۷) بیت المال کے مصارف بیت المال کو پھر مسلمانوں کی امانت بنادیا اوراس کو ان کی ضروریات کے لیے مخصوص کردیا؛چنانچہ اس کی آمدنی کا بڑا حصہ خالص رعایا کے مفاد کے کاموں میں صرف کیا جانے لگا؛ملک میں جتنے اپاہج تھے، سب کے نام درجِ رجسٹر تھے، ان سب کو وظیفہ ملتا تھا (اصابہ:۸۰) جو عمال اس میں ذرا بھی غفلت یاترمیم کرتے تھے ان کو تنبیہ کی جاتی تھی، دمشق کے بیت المال سے ایک اپاہج کے وظیفہ کے تقرر کے سلسلہ میں میمون بن مہران نے کہا،ان لوگوں کے ساتھ سلوک تو کیا جاسکتا ہے ،لیکن ان کو صحیح وتندرست آدمی کے برابر وظیفہ نہیں دیا جاسکتا،حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اس کی اطلاع ہوئی تو نہایت غضب آلود خط لکھا ۔ (طبقات ابن سعد:۵/۸۱) بہتوں کو نقد کے بجائے جنس ملتی ہے اور فی کس ساڑھے چار اروب کے حساب سے غلہ دیا جاتا تھا، (ایضا:۲۵۵)قرضداروں کی قرض کی ادایگی کے لیے بھی ایک مد تھی (ایضاً:۲۵۷)شیر خوار بچوں کے وظائف مقرر تھے (ایضاً:۲۵۷)ایک عام لنگر خانہ تھا ،جس سے فقرا ومساکین کو کھانا ملتا تھا۔ (ایضاً:۲۷۹) عام مستحقین میں صدقات وخیرات تقسیم ہوتی تھی، ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک شخص کو تقسیم مال کے لیے رقعہ بھیجا،اس نے عذر کیا کہ آپ مجھے ایسی جگہ بھیج رہے ہیں جہاں میں کسی کو نہیں پہچانتا،ان میں امیر وغریب سب ہیں، فرمایا کے مفید مصارف میں صرف کرتے، اس فیاضا نہ داد دہش کا بیت المال پر بہت بار پڑتا تھا، بعض عمال نے اس کی طرف توجہ دلائی تو جواب میں لکھا کہ جب تک ہے دیتے چلے جاؤ، جب خالی ہوجائے تو کوڑا کرکٹ بھردو۔ (طبقات ابن سعد:۵/۲۷۲) ذمیوں کے حقوق کسی حکومت کے عدل وانصاف اورظلم وجورکا ایک بڑا معیار دوسری اقوام اوردوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا سلوک اورطرزِ عمل ہے،اس معیار سے بھی عمر بن عبدالعزیز کا دور سراپا ،عدل تھا، انہوں نے جس طرح ذمیوں کے حقوق کی حفاطت کی اوران کے ساتھ جیسی نرمی برتی اس کی مثال عہد فاروقی کے علاوہ اورکسی دور میں نہیں مل سکتی ،مسلمانوں کی طرح ان کی جان اوران کے مال کی حفاظت کی،ان کے مذہب میں کسی قسم کی دست اندازی نہیں کی،جزیہ کی وصولی میں نرمی اورآسانیاں پیدا کیں، اس کا اندازہ ذمیوں کے ساتھ ان کے طرز عمل اور ان احکام سے ہوگا جو عمال کو بھیجتے رہتے تھے۔ عدی بن ارطاط کو لکھا کہ ذمیوں کے ساتھ نرمی کرو ان میں جو بوڑھا اورنادار ہوجائے اس کی کفالت کرو، اگر اس کا کوئی رشتہ دار ہو تو اسے اس کی کفالت کا حکم دو جس طرح تمہارا کوئی غلام بوڑھا ہوجائے تو اسے آزاد کرنا پڑے گا یامرتے دم تک اس کی کفالت کرنی پڑے گی۔ ذمی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر قرار دی،ایک بار حیرہ کے ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کردیا، عمر بن عبدالعزیز نے وہاں کے عامل کو لکھا کہ قاتل کو مقتول کے ورثا کے حوالہ کردو، وہ چاہیں قتل کریں چاہیں معاف کردیں ؛چنانچہ قاتل حوالہ کیا گیا، اورذمیوں نے اسے قتل کردیا۔ (نصب الرایہ:۳۶۰) کوئی مسلمان ان کے مال پر دست درازی نہیں کرسکتاتھا، جو شخص ایسا کرتا تھا اسے پوری سزاملتی تھی، ایک مرتبہ ایک مسلمان ربیعہ شعودی نے ایک سرکاری کام کے لیے ایک قطبی کا گھوڑا بے گار میں پکڑلیا اور اس پر سواری کی عمر بن عبدالعزیز نے اس کو چالیس کوڑے لگوائے۔ (ابن سعد:۵/۲۷۶) مال مغصوبہ کی واپسی کے وقت شاہی خاندان سے ذمیوں کی زمینیں بھی واپس دلائیں ،اس سلسلسہ میں ایک ذمی نے دعویٰ دائر کیا کہ عباس بن ولید نے میری زمین پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عباس سے فرمایا تم اس کا کیا جواب دیتے ہو انہوں نے کہا ولید نے مجھے جاگیر میں دے دیا ہے اورمیرے پاس اس کی سند موجود ہے ذمی نے عمرؓ بن عبدالعزیز سے کہا میں آپ سے کتاب اللہ کے موافق اس کا فیصلہ چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا خدا کی کتاب ولید کی سند پر مقدم ہے اور ذمی کو زمین واپس دلادی۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز:۱۰۴) ان کے مذہبی حقوق کو جوگذشتہ خلفاء کے زمانہ میں ختم ہوگئے تھے،از سر نو قائم کیا دمشق میں ایک گرجا عرصہ سے ایک مسلمان خاندان کی جاگیر میں چلا آتا تھا، عیسائیوں نے عمر بن عبد العزیز کے پاس اس کا دعویٰ کیا، آپ نے واپس دلادیا، ایک مسلمان نے ایک گرجے کی نسبت دعویٰ کیا کہ وہ اس کی جاگیر میں ہے،حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز نے فرمایا، اگر یہ عیسائیوں کے معاہدہ میں ہے تو تم اس کو نہیں پاسکتے۔ (فتوح البلدان:۱۳۰) آپ کے زمانہ میں ذمیوں کے ساتھ اتنی نرمی برتی گئی کہ اس سے عام لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑا؛چنانچہ غلہ کا نرخ گراں ہوگیا، ایک شخص نے آ پ سے اس کا سبب پوچھا،آپ نے فرمایا پہلے خلفاءذمیوں کو جزیہ کی وصولی میں ناقابل برداشت تکلیفیں دیتے تھے،اس لیے وہ جس نرخ پر بھی ہوسکتا تھا،غلہ فروخت کرڈالتے تھے اورمیں ہر شخص کو اسی قدر تکلیف دیتا ہوں،جس کا وہ متحمل ہوسکے، اس لیے ہر شخص جس طرح چاہتا ہے فروخت کرتا ہے۔ (کتاب الخراج:۷۶) شاہی خاندان کے ارکان اورذمیوں میں مساوات قائم کی،ایک مرتبہ ہشام بن عبدالملک نے ایک عیسائی پر مقدمہ دائر کیا،عمر بن عبدالعزیزؓ نے دونوں کو برابر کھڑا کیا،ہشام نے غرور وتمکنت میں عیسائی سے سخت کلامی کی،عمر بن عبدالعزیز نے ان کو ڈانٹا اورسزا دینے کی دھمکی دی۔ (العیون والحدائق) محاصل میں اضافہ یہ عمر بن عبدالعزیز کی برکت تھی کہ ناجائز آمدنیوں کے سدِ باب اورمصارفِ خیر کی کثرت کے باوجود بیت المال پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا؛بلکہ بعض بعض ملکوں کے محاصل میں حیرت انگیز اضافہ ہوگیا، چنانچہ عراق کی آمدنی حجاج کے ظالمانہ دور سے بھی بڑھ گئی۔ حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز فرمایا کرتے تھے کہ خدا حجاج پر لعنت کرے اس کو نہ دین کا سلیقہ تھا نہ دنیا کا،حجاج کے زمانہ میں باوجود ظالمانہ طریقوں کے عراق سے صرف دو کروڑ اسی لاکھ درہم وصول ہوتے تھے،اس نے کاشتکاروں کو بیس لاکھ درہم زمین کی آبادی کے لیے بطور قرض دیئے تو ایک کروڑ سات لاکھ اضافہ ہوا،اس ویرانی کے بعد جب عراق میرے قبضہ میں آیا تو میں نے بغیر کسی جبر کے بارہ کروڑ وصول کروں گا۔ (فتوح البلدان ذکر سواء) رعایا کی خوشحالی مظالم کے انسداد ،ناجائز ٹیکسوں کی منسوخی،ذمیوں کے ساتھ مراعات اورعام داد ودہش کی وجہ سے ملک نہایت فارغ البال اوررعایا آسودہ حال تھی ملک کے طول وعرض میں افلاس کا نشان باقی نہ رہ گیا تھا،مہاجرین یزید کا بیان ہے کہ ہم لوگ صدقہ تقسیم کرتے تھے،ایک سال کے بعد دوسرے سال وہ لوگ جو پہلے صدقہ لیتے تھے خود دوسروں کو صدقہ دینے لگتے تھے۔ (ابن سعد:۵/۲۵۶) عمر بن عبدالعزیزؒ نے صرف ڈھائی سال حکومت کی اس مختصر مدت میں یہ حالت ہوگئی تھی کہ لوگ ان کے عمال کے پاس،فقراء میں تقسیم کرنے کے لیے صدقہ کا مال لے کر آتے تھے،لیکن کوئی صاحبِ حاجت نہ ملتا تھا اور مال واپس لے جانا پڑتا تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سب کو اس قدر مالا مال کردیا تھا کہ کوئی شخص حاجت مند باقی نہ رہ گیا تھا۔ (فتح الباری:۶/۴۵۱) آپ کے زمانہ میں رعایا کی خوش حالی اس درجہ کو پہنچ گئی تھی کہ اس کے نشہ میں کبر ونخوت میں اس کے مبتلا ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا؛چنانچہ عدی بن ارطاۃ نے آپ کو لکھا کہ اہل بصرہ اس قدر خوشحال ہوگئے ہیں کہ مجھے خوف ہے کہ وہ فخر وغرور نہ کرنے لگیں،آپ نے جواب دیا،کہ خدا جب اہل جنت کو جنت میں داخل کرے گا تو حکم دے گا کہ وہ الحمد للہ کہیں اس لیے تم بھی لوگوں کو حکم دو کہ وہ خد کا شکر بجالائیں۔ (ابن سعد :۵/۲۸۲) رفاہ عام کے کام آپ نے جس قدر اصلاحیں کیں، وہ سب درحقیقت رفاہ عام ہی کے کام ہیں،لیکن ان کے علاوہ مروجہ اصطلاح میں بھی آپ نے بہت سے رفاہِ عام کے کام کیے۔ سارے ممالکِ محروسہ میں نہایت کثرت سے سرائیں بنوائیں، خراسان کے عامل کو لکھا کہ وہاں کے تمام راستوں میں سرائیں تعمیر کرائی جائیں،سمر قند کے والی سلیمان بن ابی السری کے پاس بھیجا کہ وہاں کے شہروں میں سرائیں تعمیر کراؤ،جو مسلمان ادھر سے گزریں ایک شبانہ یوم ان کی مہمان نوازی کرو، ان کی سواریوں کی حفاظت کرو، جو مسافر مریض ہو، اس کو دو دن اور دورات مقیم رکھو، اگر کسی کے پاس گھر تک پہنچنے کا سامان نہ ہو تو وطن تک پہنچنے کا سامان کردو (طبری:۱۳۲۴)ایک عام لنگر خانہ قائم کیا، جس میں فقراء اورمساکین کو کھانا ملتا تھا۔ (طبری:۲۷۹) مذہبی خدمات گویہ تمام اصلاحات درحقیقت مذہب پرستی ہی کا نتیجہ تھیں، ایک حیثیت سے وہ سب مذہبی خدمات کے دائرہ میں داخل ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے بہت سی خالص مذہبی خدمات بھی انجام دیں اورشریعتِ اسلامی میں جو اموی خلفاء کی غفلت شعاری سے بالکل مردہ ہوچکی تھی،دوبارہ جان ڈالی،امویوں کے زمانہ میں کوئی شئے جادۂ شریعت پر نہ رہ گئی تھی ،عمر بن عبدالعزیزؓ نے سب کو پھر صراط مستقیم پر لگایا، عمال کے نام جو فرامین جاتے تھے، ان سب میں احیائے شریعت اوراستیصالِ بدعت کی تاکید ہوتی تھی۔ (ابن سعد:۵/۳۵۲) عدی بن ارطاۃ کو ایک فرمان لکھا کہ ایمان چند فرائض،چند احکام اورچند سنین کا نام ہے، جس نے ان اجزاء کی تکمیل کرلی،اس نے ایمان کو مکمل کردیااور جس نے اس کی تکمیل نہیں کی، اس نے ایمان کو مکمل نہیں کیا، اگر میں زندہ رہا تو ان تمام اجزاء کو تمہارے سامنے واضح کردوں گا تاکہ تم لوگ اس پر عمل کرو اوراگر مرگیا تو مجھے تمہارے ساتھ رہنے کی حرص بھی نہیں ہے۔ (بخاری کتاب الایمان باب قول النبی ﷺ بنی الاسلام علی خمس) آپ نے جس طرح ان اجزاء کا تحفظ کیا اوران کی تبلیغ واشاعت میں جیسی جدوجہد کی اس کی نظیر نہیں مل سکتی، اس کی تفصیلات نہایت طویل ہیں، مختصر یہ ہے کہ مذہبی روح آپ کے عہد کی امتیازی خصوصیت بن گئی تھی،طبری کا بیان ہے کہ: ولید عمارتوں کا بانی تھا، اس لیے اس کے زمانہ میں یہی عام مذاق ہوگیا تھا اورلوگ آپس میں صرف عمارتوں کا تذکرہ کرتے تھے، سلیمان کو عورتوں اورنکاح کا شوق تھا، اس لیے اس کے زمانہ میں لوگ لونڈیوں اورشادیوں کا چرچا کرتے تھے،لیکن جب عمر بن عبدالعزیزؒ نے تختِ خلافت پر قدم رکھا تو لوگوں کا موضوع بدل کر مذہب وعبادت کی تفصیلات ہوگئیں۔ (طبری:۱۲۷۲،۱۲۷۳) مذہبی تعلیم کی اشاعت احیائے شریعت کے لیے عمر بن عبدالعزیز نے مذہبی تعلیم کی اشاعت کا خاص اہتمام کیا،قاضی ابو بکرہ بن حزم کو لکھا کہ لوگوں کو چاہئے کہ عام طور پر علم ( علم شریعت) کی اشاعت کریں، تعلیم کے لیے حلقہ درس میں بیٹھیں تاکہ جو لوگ نہیں جانتے وہ جان لیں۔ ایک اورعامل کو لکھا کہ لوگوں کو حکم دو وہ اپنی مسجدوں میں علم کی اشاعت کریں کیونکہ سنت مردہ ہوچکی ہے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۴) جو علماء اس مقدس کام میں مصروف تھے،ان کو فکرِ معاش سے مطمئن کردیا، حمص کے گورنر کو لکھا،جن لوگوں نے دنیا کو چھوڑ کر اپنے کو فقہ کی تعلیم کے لیے وقف کردیا ہے،بیت المال سے سوسو دینار ان کا وظیفہ مقرر کرو، تاکہ وہ اس حالت کو قائم رکھ سکیں (ایضاً:۹۵) علماء کے علاوہ طلباء کے وظائف مقرر کیے۔ (جامع بنیان العلم:۸۸) دور افتادہ ممالک میں تعلیم کی اشاعت کے لیے علماء بھیجے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے غلام نافع کو جو بڑے نامور عالم تھے، تعلیم حدیث کے لیے مصر بھیجا (حسن المحاضرہ سیوطی:۱/۱۱۹) قاری جعثل بن عامان کو قرأت کی تعلیم دینے کے لیے مصرو مغرب بھیجا (ایضاً)یزید بن ابی مالک دمشقی کو حارث بن یمجدالاشعری کو بدؤں کی تعلیم کے لیے مقرر کیا (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۷۴)یہ صرف چند نام ہیں ورنہ جن جن مقامات پر ضرورت تھی،سب جگہ علماء بھیجے۔ اشاعتِ اسلام سلطنت میں توسیع کے بجائے اسلام کی توسیع واشاعت کو اپنا مقصد قرار دیا اوراسکے لیے ہر قسم کے مادی اوراخلاقی ذرائع اختیار کیے۔امرائےفوج کو خاص طور سے ہدایت تھی کہ رومیوں کے کسی حلقہ اوران کی کسی جماعت سے اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک اسلام کی دعوت نہ دے لو۔ (ابن سعد ترجمہ عمر بن عبدالعزیز) تمام عمال کو حکم دیا کہ ذمیوں کو اسلام کی دعوت دی جائے،جو ذمی اسلام قبول کرلیں ان کا جزیہ معاف کردیا جائے،اس طریقہ سے اسلام کی بڑی اشاعت ہوئی تنہا جراح بن عبداللہ حکمی والی خراسان کے ہاتھوں پر چار ہزار ذمی مسلمان ہوئے۔(ابن سعد:۵/۲۸۵) اسمٰعیل بن عبداللہ بن ابی المہاجر والی مغرب کی تبلیغ سے سارے مغرب میں اسلام پھیل گیا (فتوح البلدان:۳۵۷) اور مختلف ملکوں میں اس کثرت سے ذمی مسلمان ہوئے کہ متعدد والیوں نے خراج کی آمدنی گھٹ جانے کی شکایت کی،لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مطلق اس کی پرواہ نہ کی، بعضوں کو جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ ،ہادی بناکر بھیجے گئے تھے(مقریزی:۱/۱۲۵)بعضوں کو لکھا کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ سارے ذمی مسلمان ہوجائیں اورہماری تمہاری حیثیت صرف ایک کاشتکار کی رہ جائے کہ اپنے ہاتھوں سے کمائیں کھائیں (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز:۹۹) بعض عمال نے تجویز پیش کی کہ ذمی جزیہ کے خوف سے مسلمان ہوتے ہیں،اس لیے ختنہ کرکے ان کا امتحان لیا جائے،آپ نے لکھا کہ رسول اللہ ﷺ ہادی ورہنما تھے،خاتن نہ تھے۔ (ابن سعد:۵:۲۸۵) آپ کے محاسنِ اخلاق کی شہرت اورتبلیغِ اسلام سے آپ کا شغف سن کر بعض ممالک نے خود اپنے یہاں مبلغِ اسلام بھیجنے کی درخواست کی؛چنانچہ تبت کے وفود کی درخواست پر آپ نے سلیط بن عبداللہ حنفی کو تبت روانہ کیا(یعقوبی:۲/۳۶۲) اس طرح آپ کے زمانہ میں اسلام کی غیر معمولی اشاعت ہوئی۔ خلافت کو جمہوری بنانا چاہتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دلی منشا خلافت کو جمہوری شکل میں تبدیلی کرنا تھا، لیکن یہ مستقل تغیر ان کے بس میں نہ تھا،اس لیے کہ اب شاہی خاندان میں موروثی بادشاہت ،اصولی حیثیت سے مسلم ہوچکی تھی اور عام مسلمان بھی اس کے خوگر ہوگئے تھے، عمر بن عبدالعزیزؓ نے بعض مواقع پر اپنے اس خیال کا اظہار بھی کردیا کہ ، اگر خلافت کا معاملہ میرے اختیار میں ہوتا تو میں قاسم بن عبداللہ کو خلیفہ بنادیتا (ابن سعد:۵/۴۵۴) بلکہ ایک مرتبہ آل مروان کو دھمکی بھی دی اس کا واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے جمع ہوکر آپ سے کہا کہ گذشتہ خلفاء ہمارے ساتھ جو کچھ کرتے تھے وہ سب آپ نے ختم کردیا اور اس پر بڑی برہمی ظاہر کی آپ نے فرمایا، اگر آیندہ پھر تم نے میرے سامنے اس قسم کی باتیں کیں تو میں چھوڑ کر مدینہ چلا جاؤں گا اورخلافت کو شوریٰ پر چھوڑدوں گا،میں اس کے اہل (قاسم بن عبداللہ) کو پہچانتا ہوں۔ (ایضاً:۲۵۳) بادشاہت کے امتیازات کا استیصال لیکن سلیمان آپ کے بعد یزید بن عبدالملک کو نامزد کرگیا تھا،اس لیے یہ انقلاب آپ کے اختیار میں نہ رہ گیا تھا، تاہم جہاں تک ہوسکا آپ نے شاہنشاہیت کا زور توڑنے اوراس کے مفاسد کو دور کرنے کی پوری کوشش کی اور ہر شعبہ سے ملوکیت کے اثرات کو بالکل مٹادیا۔ خلفاء کے ساتھ نقیب وعلمبردار چلتے تھے، نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ کی طرح ان پر درود وسلام بھیجا جاتا تھا، سلام میں خاص امتیاز برتا جاتا تھا ،عمر بن ؓ عبدالعزیزنے ان تمام امتیازات کو مٹادیا؛چنانچہ پہلی مرتبہ جب کو توال نے حسب دستور نیزہ لے کر آپ کے ساتھ چلنا چاہا تو آپ نے روک دیا کہ مسلمانوں کا ایک معمولی فرد ہوں (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۵۳) اسلام کے متعلق ہدایت فرمائی کہ عام طریقہ سے سلام کیا جائے (طبقات ابن سعد:۵/۲۸۳) عمال کو فرمان لکھا کہ پیشہ ور واعظ خلفاء پر درود وسلام بھیجتے ہیں، انہیں روک دو اورحکم دو کہ وہ عام مسلمانوں کے لیے دعا کریں، باقی چھوڑدیں (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۲۳۶) مخصوص میرے لیے کوئی دعا نہ کرو ؛بلکہ تمام مسلمان مردوں اورعورتوں کے لیے دعا کرو،اگر میں ان میں ہوں گا تومیں بھی شامل ہو جاؤں گا۔ (ابن سعد:۵/۲۷۸) شاہی خاندان کے متعلق ابوبکر بن محمد کو لکھا کہ کسی کو صرف اس لیے ترجیح نہ دو کہ وہ خاندانِ خلافت سے تعلق رکھتا ہے ،میرے نزدیک یہ لوگ عام مسلمانوں کے برابر ہیں اوراسے عملاً کرکے دکھا دیا، ایک مرتبہ مسلمہ بن عبدالملک ایک مقدمہ میں فریق کی حیثیت سے آپ کے اجلاس میں آیا اورفرش پر بیٹھ گیا،آپ نے اس سے کہا کہ اپنے فریق کی موجودگی میں تم فرش پر نہیں بیٹھ سکتے یا عام لوگوں کے برابر بیٹھو یاکسی دوسرے کو اپنا وکیل مقرر کردو (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۷۳) شاہی خاندان کے وظائف عام مسلمانوں کے برابر کردیئے، غرض آپ نے ملوکیت کے کنگر ے کو پست کرکے عام سطح کے برابر کردیا۔ فتوحات حکومت اورسلطنت کے باب میں آپ کا نقطۂ نظر دوسرے خلفاء سے بالکل جداگانہ تھا، آپ کا مقصداس کی توسیع نہیں ؛بلکہ اس کی اصلاح تھی، اس لیے آپ کے زمانہ میں جو چیز سب سے آخری درجہ پر نظر آتی ہے،وہ فوجی سرگرمی ہے؛چنانچہ سلطنت کے بقا وتحفظ اورقیامِ امن کی ضروریات کے علاوہ جارحانہ اقدام بہت کم ہوا، صرف اندلس کے بعض علاقوں اورسندھ کی بعض فتوحات کے علاوہ کوئی قابل ذکر فتوحات نہیں ہوئیں۔ خوارج کا مقابلہ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت سے لے کر اس وقت تک کی تاریخ مسلمانوں کے خون سے رنگین تھی، اس لیے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس میں اتنی احتیاط برتی کہ مفسدہ پرداز اورفتنہ پرست اسلامی فرقوں کے خلاف بھی تلوار نہ اٹھائی، خوارج امویوں کے پرانے دشمن تھے، ان کی مخالفانہ روش حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں بھی قائم رہی، اپنے ہر ممکن طریقہ سے ان کو سمجھا بجھا کر باز رکھنے کی کوشش کی عبد الحمید والی کوفہ کو جو خوارج کے مقابلہ میں تھے لکھا کہ ،جب تک یہ لوگ خون ریزی اورفساد نہ کریں ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے،ایک دور اندیش اورمستقل مزاج آدمی کو میرا یہ حکم سنا کر تھوڑی سی فوج کے ساتھ بھیج دو اس حکم کے مطابق عبدالحمید نے محمد بن جریر بجلی کو دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ کردیا۔ اس سے بھی زیادہ احتیاط یہ فرمائی کہ خوارج کے سردار بسطام کو خط لکھ کر اصلاح ومناظرہ کی دعوت دی، آؤ ہم تم مناظرہ کرلیں، اگر ہم حق پر ہوں تو تم عام لوگوں کی طرح حلقہ اطاعت میں داخل ہوجاؤ، اگر تم حق پر ہو تو ہم اپنے معاملہ پر غور کریں اس دعوت پر بسطام نے دو شخصوں کو مناظرہ کے لیے بھیجا اور فریقین میں مناظرہ ہوا، اس کی تفصیلات کتابوں میں مذکور ہیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے انہیں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان پر افہام و تفہیم کا کوئی اثر نہ ہوا اوروہ اپنی مفسدانہ روش سے باز نہ آئے، اس لیے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو آخر میں مجبور ہوکر ان شرائط کے ساتھ ان سے جنگ کرنے کی اجازت دینا پڑی کہ: ۱۔عورت ،بچے اورقیدی قتل نہ کیے جائیں ،زخمیوں کا تعاقب نہ کیا جائے۔ ۲۔فتح کے بعد جومالِ غنیمت ہاتھ آئے ،وہ ان کے اہل وعیال کو واپس کردیا جائے۔ ۳۔قیدی اس وقت تک مقید رہیں جب تک راہ راست پر نہ آجائیں۔ ان پا بندیوں کے ساتھ عبد الحمید نے ان پر حملہ کیا،لیکن شکست کھائی ،حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اس کی اطلاع ہوئی تو مسلمہ بن عبدالملک کو روانہ کیا انہوں نے چند دنوں میں قابو حاصل کرلیا۔ (تاریخوں میں ان کی تفصیلات بہت طویل ہمنے مختصر خلاصہ نقل کیا ہے اطبری اور ابن اثیر وغیرہ سب میں یہ حالات ہیں) خصوصیاتِ حکومت پر اجمالی تبصرہ اوپر کے حالات سے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کی خصوصیات کا پورا اندازہ ہوجاتا ہے، اس لیے اس کی بنیادی خصوصیات پر اجمالی تبصرہ کیا جاتا ہے،آپ کی خلافت کی بنیاد کتاب اللہ سنتِ رسول اللہ اورخدا کی اطاعت پر تھی، ان بنیادی اصولوں اوراپنی حیثیت کو اپنی پہلی تقریر میں ان الفاظ میں واضح فرمایا۔ اما بعد لوگو! تمہارے نبی کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہے اوراس پر جو کتاب نازل ہوئی ہے اس کے بعد کوئی دوسری کتاب نہیں ہے خدانے جو چیز حلال کردی وہ قیامت تک حلال رہے گی اورجو چیز حرام کردی وہ قیامت تک حرام رہے گی، میں (اپنی جانب سے) کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں ؛بلکہ محض (احکامِ الہی کو )نافذ کرنے والا ہوں میں خود کوئی بات شروع کرنے والا نہیں ہوں؛بلکہ محض پیرو ہوں، کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ خداکی نافرمانی اس کی اطاعت کی جائے، میں تم کا بہترآدمی بھی نہیں ہوں، البتہ خدانے مجھ کو تمہارے مقابلہ میں زیادہ گراں بار کیا ہے۔ (ابن سعد :۵/۲۵۰،۲۵۱) امورِ خلافت میں خلافتِ فاروق کو اپنے لیے نمونہ عمل بنایا، چنانچہ حضرت عمر ؓ کےپوتے سالم بن عبداللہ بنؓ عمر کو لکھا میں چاہتا ہوں کہ اگر خدا کو منظور ہو اورمجھ میں اس کی استطاعت ہوتو رعایا کے معاملہ میں عمر بنؓ خطاب کی روش اختیار کروں، اس لیے تم میرےلیے عمر کی تحریریں اوران کے فیصلے جو انہوں نے مسلمانوں اورذمیوں کے بارہ میں کیے،بھیجو،اگر خدا کو منظور ہوگا تو میں ان کے نقشِ قدم پر چلوں گا۔ لیکن اب زمانہ بدل چکا تھا،عہد رسالت پر مدت گزرچکی تھی، صحابہ اٹھ چکے تھے،بنی امیہ کی حکومت نے اسلامی حکومت کے بارہ میں عام مسلمانوں کا نقطہ نظر بدل دیا تھا، اس لیے اس زمانہ میں عہد فاروقی کو زندہ کرنا بہت مشکل تھا، سالم نے بھی ان دشواریوں کو محسوس کیا اورآپ کو لکھا کہ عمر نے جو کچھ کیا وہ دوسرے زمانہ میں اور دوسرے آدمیوں کے ذریعہ سے اگر تم نے اس زمانہ میں اوران آدمیوں کے ذریعہ سے عمر بن ؓ الخطاب کی پیروی کی تو تم ان سے افضل ہوگئے۔ (ابوداؤد ،کتاب السنۃ باب فی التفصیل) لیکن حضرت عمر بنؓ عبدالعزیز نے اس تغیر حالات اورہر طرح کے موانع ومشکلات کے باوجود ایک مرتبہ پھر فاروقی خلافت کا نمونہ دنیا کو دیکھا دیا، اسی لیے بعض محدثین آپ کو پانچواں خلیفہ راشد مانتے ہیں۔ علالت لیکن افسوس مسلمانوں کو ڈھائی سال سے زیادہ اس سراپا خیر وبرکت ہستی سے مستفیض ہونے کا موقع نہ ملا اور جب ۱۰۱ھ میں مجددِخلافت نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کے سببِ وفات کے بارہ میں دوروایتیں ہیں، ایک یہ کہ آپ کی موت طبعی تھی،دوسرا بیان یہ ہے کہ بنی امیہ نے جب یہ محسوس کیا کہ اگر آپ کی خلافت کا زمانہ زیادہ بڑھا تو اموی خاندان کی قوت ہمیشہ کے لیے توڑدیں گے،تو انہوں نے آپ کے ایک غلام کو ایک ہزار اشرفی دے کر خفیہ زہر دلوایا، آپ کو اس کا علم ہوگیا، لیکن غلام پر کوئی سختی نہیں کی ؛بلکہ اشرفیاں واپس لے کر بیت المال میں داخل کردیں اورغلام کو آزاد کردیا۔ (تاریخ الخلفاء:۲۴۰) طبیب نے بھی زہرکا علاج تجویز کیا مگر آپ نے علاج کرنے سے انکار کردیا اورفرمایا اگر مجھے یہ بھی یقین ہوجاتا کہ میرے کان کی لو کے پاس میری شفا ہے تو بھی ہاتھ نہ بڑھاتا۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۲۷۶) یزید بن عبدالملک کو وصیت نامہ زندگی سے مایوسی کے بعد اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کو یہ وصیت نامہ لکھا: میں تم کو یہ وصیت نامہ اس حالت میں لکھ رہا ہوں کہ مرض سے لاغر ہوگیا ہوں تم کو معلوم ہے کہ امورِ خلافت کے متعلق مجھ سے سوال کیا جائے گا اورخدا مجھ سے اس کا حساب لے گا اورمیں اس سے اپنا کوئی کام نہ چھپا سکوں گا،خدا خود فرماتا ہے: فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِمْ بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ ہم ان کو علم سے قصہ سناتے ہیں اور ہم غیر حاضر نہ تھے۔ اگر خدا مجھ سے راضی ہوگیا تو میں کامیاب ہوا اور ایک طویل عذاب سے نجات پائی اوراگر مجھ سے ناراض ہوا تو افسوس ہے میرے انجام پر، میں اس خدا سے جس کے سوا کوئی خدا نہیں دعا کرتا ہوں کہ مجھے اپنی رحمت سے دوزخ سے نجات دے اور اپنی رضا مندی سے جنت عطا کرے،تم کو تقویٰ اختیار کرنا چاہئے اوررعایا کا خیال رکھنا چاہئے؛کیونکہ میرے بعد تم بھی تھوڑے ہی دن زندہ رہو گے،تم کو اس سے بچنا چاہئے کہ تم سے غفلت میں ایسی لغزش سرزد ہوجائے جس کی تلافی نہ کرسکو۔ سلیمان بن عبدالملک خدا کا ایک بندہ تھا ،خدانے اسے وفات دی اور اس نے مجھ کو خلیفہ بنایا اورمیرے بعد تم کو ولیعہد مقرر کیا،میں جس حالت میں تھا، اگر وہ اس لیے ہوتی کہ میں بہت سی بیویوں کا انتخاب کروں اور مال ودولت جمع کروں، تو خدانے مجھ کو اس سے بہتر سامان دیئے تھے جو کسی بندہ کو دے سکتا تھا، لیکن میں سخت اور نازک سوال سے ڈرتا ہوں ،بجز اس کے کہ خدا میری دستگیری فرمائے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۲۸۰) اپنی اولاد کے متعلق ارشاد آپ کے اہل وعیال کے متعلق مسلمہ نے آپ سے کہا: امیر المومنین آپ نے ہمیشہ اپنی اولاد کا منہ اس مال و دولت سے خشک رکھا اوران کو ایسی حالت میں چھوڑے جاتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے، کاش آپ ان کے متعلق مجھے یا اپنے خاندان کے کسی اورشخص کو کچھ وصیت کرتے جاتے یہ سن کر فرمایا مجھے ٹیک لگا کر بٹھا دو پھر فرمایا تمہارا یہ کہنا کہ اس مال سے میں نے ہمیشہ اپنی اولاد کا منہ خشک رکھا، تو خدا کی قسم میں نے ان کا کوئی حق تلف نہیں کیا ؛البتہ جس میں ان کا حق نہیں تھا وہ ان کو نہیں دیا، تمہارا یہ کہنا کہ میں تم کو یا کسی اوراہل خاندان کو وصیت کرتا جاؤں،تو اس معاملہ میں میرا وصی اور ولی صرف خدا ہے جو صلحاء کا ولی ہوتا ہے،میرے لڑکے اگر خدا سے ڈریں گے تو خدا ان کے لیے کوئی سبیل نکال دے گا اوراگر وہ گناہ میں مبتلا ہوں گے تو میں ان کو گناہ کرنے کے لیے قوی بناؤں گا اس کے بعد لڑکوں کو بلا کر ان سے باچشم پرنم فرمایا: میری جان تم پر سے قربان جن کو میں نے خالی ہاتھ چھوڑا ہے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں نے تم کو اچھی حالت میں چھوڑا،میرے بچو!تم کسی ایسے عرب اورذمی سے نہ ملو گے جس کا تم پر حق ہو،بچو دوباتوں میں سے ایک بات تمہارے باپ کے اختیار میں تھی ایک یہ کہ تم دولت مند ہوجاؤ اور تمہارا باپ دوزخ میں جائے،دوسرے یہ کہ تم محتاج رہو اور تمہارا باپ جنت میں داخل ہو،ان دونوں میں اس کو یہ زیادہ پسند تھا کہ تم محتاج رہو اوروہ جنت میں جائے اچھا اب جاؤ خدا تم کو حفظ وامان میں رکھے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۵۳) آخری وصیتیں اوروفات بعض لوگوں نے عرض کیا،آپ مدینہ منتقل ہوجاتے اورروضہ نبویﷺ میں جو چوتھی جگہ خالی ہے اس میں رسول اللہ ﷺ ابوبکرؓ وعمرؓ کے ساتھ دفن ہوتے،یہ سن کر فرمایا خدا کی قسم آگ کے سوا اگر خدا مجھے ہر قسم کے عذاب دے تو میں انہیں بخوشی منظور کرلوں گا،لیکن یہ گوارا نہیں کہ خدا کو یہ معلوم ہو کہ میں اپنے کو رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں دفن ہونے کے قابل سمجھتا ہوں۔ (طبقات ابن سعد:۵/۲۸۳) اس کے بعد ایک ذمی سے قبر کے لیے زمین خریدی،اس نے قیمت لینے میں عذر کیا اورکہا یہ میرے لیے خیر وبرکت کا باعث ہے کہ آپ میری مملوکہ زمین میں دفن ہوں، لیکن آپ نے اسے منظور نہ کیا اور بہ اصرار قیمت حوالہ کی۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۲۳۶) پھر کفن اوردفن کے متعلق ضروری وصیتیں کیں اورآنحضرت ﷺ کے ناخن اورموئے مبارک منگا کر انہیں کفن میں رکھنے کی ہدایت کی۔ (ابن سعد: ) دم آخر زبان پر یہ آیت تھی: تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (القصص:۸۳) یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو زمین میں نہ برتری چاہتے ہیں اور نہ فساد کرتے ہیں اورعاقبت پرہیز گاروں کے لیے ہے۔ یہی آیت تلاوت کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے (ابن سعد:۵/۳۷۱) یہ رجب کا مہینہ اور ۱۰۱ھ تھا،تاریخوں میں اختلاف ہے،وفات کے وقت انتالیس یا چالیس سال کی عمر تھی دیر سمعان میں دفن کیے گئے۔ ازواج و اولاد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے چار بیویاں تھیں اوران سب سے اولادیں ہوئیں،لیس بنت علی، ان سے تین لڑکے تھے،عبداللہ،بکر اورام عمار، ام عثمان بنت شعیب، ان سے ایک لڑکا ابراہیم تھا،فاطمہ بنت عبدالملک ،ان سے تین لڑکے تھے،اسحاق،یعقوب اورموسیٰ،ام ولید سے نو اولادیں تھیں، عبدالملک ،ولید،عاصم ،یزید،عبداللہ،عبدالعزیز،زبانا،امۃ اور ام عبداللہ۔ حلیہ صورۃ شکیل تھے،رنگ گورا اورچہرہ نازک تھا، خلافت سے پہلے عیش وتنعم کی زندگی کی وجہ سے جسم نہایت تروتازہ تھا، ازار بند پیٹ کے ٹپوں میں غائب ہوجاتا تھا،لیکن خلافت کے بعد کی زاہدانہ زندگی نے رنگ روپ بالکل بدل دیا تھا،سوکھ کر لاغر ہوگئے تھے،پسلیاں بغیر چھوئے ہوئے گنی جاسکتی تھیں۔ (تاریخ الخلفاء:۲۳۴) فضل وکمال حضرت عمر بن عبدالعزیز کواگر سیاسی حالات تختِ خلافت پر نہ بٹھادیتے تو وہ مسندِ درس کی زینت ہوتے علمی،اعتبار سے وہ آئمہ کبار میں تھے،تمام علماء ومصنفین کا ان کی جلالتِ علمی پر اتفاق ہے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں "کان فقیھا مجتھدا عار فابالسنن وکبیر الشان ثبتا حجۃ جافظا قانتا للہ اد نیا" عمر بن عبدالعزیز امام،فقیہ،مجتہد، عالم،سنت،کبیرالشان،ثبت،حجت،حافظ (حدیث)خدا کے فرماں بردار نرم دل اورخدا کی طرف رجوع کرنے والے تھے، امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت فضیلت،وفورعلم،صلاح ،زہد وورع، عدل،شفقت علی المسلمین،حسن سیرت خدا کی راہ میں ان تھک کوشش، سنت نبوی اورآثار نبوی کے اتباع اورخلفاء راشدین کی اقتداء میں سب کا اتفاق ہے۔ معاصر علماء میں درجہ اس عہد کے اکابر علماء ان کے علمی کمالات کے مقابلہ میں طفل وبستان تھے، میمون بن مہران کہتے تھے کہ علماء عمر بن عبدالعزیز کے سامنے شاگرد معلوم ہوتے تھے، ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ علماء کے معلم تھے؛چنانچہ جو علماء انہیں تعلیم دینے کے خیال سے ان کے پاس آتے تھے،وہ خود ان سے تعلیم حاصل کرتے تھے،مجاہد کا جو بڑے جلیل القدر تابعی عالم تھے بیان ہے کہ ہم لوگ ان کے پاس تعلیم دینے کے لیے گئے تھے، لیکن کچھ دنوں کے بعد ہم خود ان سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۰۶) تفسیر تفسیر قرآن میں نہایت وسیع نظر تھی،بڑے بڑے علماء قرآنی مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے، ایک مرتبہ حجاز اورشام کے کچھ علماء نے آپ کے صاحبزادے عبدالملک سے کہا کہ اپنے والد سے قرآن کی اس آیت: أَنَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ (سبا:۵۲) وہ دور سے کیونکر پاسکتے ہیں۔ کے متعلق پوچھو کہ اس سے کیا مراد ہے،انہوں نے پوچھا،حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا کہ اس سے مراد وہ توبہ ہے جس کی خواہش اس وقت کی جائے جس وقت انسان اس پر قادر نہ ہو۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز:۲۸) حدیث حدیث کے اجلہ حفاظ میں تھے،حافظ ذہبی ان کو امام ،عارف سنت،حجت اورحافظ لکھتےہیں (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۰۵)امام مالک اورابن عینیہ آپ کو امامِ وقت کہتے تھے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۰۵) جتنی مرفوع حدیثیں ان کے حافظہ میں محفوظ تھیں،اتنی کسی تابعی کےعلم میں نہ تھیں،ایوب سختیانی کہتے تھے کہ میں جن جن لوگوں سے ملا،ان میں سے کسی کو عمر بن عبدالعزیز سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنے والا نہیں دیکھا۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۸) احادیث نبوی کا تحفظ حدیث نبوی کی انہوں نے بڑی خدمت کی،ہر ممکن طریقہ سے اس کی اشاعت کی اوراس کو محفوظ کیا،ان کا سب سے بڑا کارنامہ احادیث نبوی کی تدوین اوراس کا تحفظ ہے،اگر آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی ہوتی تو احادیث نبویﷺ کا بڑا حصہ ضائع ہوجاتا۔ آپ کے زمانہ میں مرور زمانہ کے ساتھ اکابر علماء اورحفاظ حدیث اٹھتے جاتے تھے،جب آپ نے دیکھا کہ یہ بہار آخر ہورہی ہے،اگر احادیث کی حفاظت نہ کی گئی تو اس کا بڑا حصہ علماء کے ساتھ دفن ہوجائے گا، تو قاضی ابوبکر بن حزم گورنر مدینہ کو لکھا کہ احادیث نبوی کی تلاش وجستجو کرکے ان کو لکھ لو کیونکہ مجھے علم کے مٹنے اورعلماء کے فنا ہونے کا خوف ہے،لیکن صرف رسول اللہ ﷺ کی احادیث قبول کی جائیں۔ (بخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم) حافظ ابن حجر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام صوبوں کے گورنروں کے نام اسی مضمون کا فرمان بھیجا تھا۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۸) اس حکم کی تعمیل ہوئی اورجمع شدہ احادیث کے مجموعے تیار کراکے تمام ممالکِ محروسہ میں بھیجے گئے،سعد بن ابراہیم کا بیان ہے کہ ہم کو عمر بن عبدالعزیز نے حدیث جمع کرنے کا حکم دیا ہم نے دفتر کی دفتر حدیثیں لکھیں اورانہوں نے ایک ایک مجموعہ جہاں جہاں ان کی حکومت تھی بھیجا۔ (جامع بیان العلم :۳۸) فقہ فقہ میں امامت واجتہاد کا درجہ رکھتے تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں: "کان اماما فقیھا مجتھدا" انہوں نے حضرت عمرؓ کے ان تمام فقہی فیصلوں جو انہوں نے رعایا کے متعلق جمع کیے تھے جمع کرایا تھا۔ شاعری حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اگر مروجہ رسمی شاعری سے ذوق نہ تھا،لیکن اخلاقی اشعار پسند کرتے تھے اورکبھی کبھی خود بھی اس رنگ کے اشعار کہتے تھے،ابن جوزی نے سیرت میں ان کے اشعار نقل کیے ہیں (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۲۲۵) ایک راگ بھی جو مدینہ میں بہت مقبول تھا،آپ کی جانب منسوب تھا،ممکن ہے،مدینہ کی گورنری کے زمانہ میں جب کہ آپ کی طبیعت عیش وتنعم کی طرف راغب تھی یہ راگ ایجاد کیا ہو۔ خطابت اگرچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بحیثیت خطیب کے کوئی شہرت حاصل نہیں کی،لیکن آپ کے خطبات نہایت مؤثر اوردلپذیر ہوتے تھے،ابن جوزی نے آپ کے متعدد خطبات لکھے ہیں، جاحظ نے کتاب البیان والتبیین میں جو بلیغ خطبات کا بہترین مجموعہ ہے،آپ کے ایک دو خطبے نمونتہ نقل کیے ہیں۔ (ایضاً:۲۳۸) علماء کی قدر دانی گذشتہ خلفاء کی بزمِ طرب کی زینت شعراء خطباء اورادیبوں سے تھی،لیکن عمر بن عبدالعزیز کا ذوق ان سے مختلف تھا،اس لیے ان کے زمانہ میں شعراکا ہجوم چھٹ گیا اوراس کی جگہ علمائے دین نے لے لی۔ ان کی تخت نشینی کے بعد حسب معمول حجاز اورعراق کے مشہور شعراء میں نصیب جزیر،فرزدق،احوص،کثیر اوراخطل،قصیدے لے لے کر پہنچے اورعرصہ تک ٹھہرے رہے لیکن کسی کو باریابی کی اجازت نہیں ملی،ان کے بجائے علماء فقہاء کو بلاتے تھے اوران کی قدر دانی کرتے تھے،شعراء کی یہ کس مپرسی دیکھ کر ایک دن جریر نے عون بن عبداللہ کے ذریعہ جو ایک ممتاز فقیہ تھے،یہ اشعار کہہ کر حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں بھیجے: یا یھا القاری المرخی عمامتہ ھذا زمانک انی ندمضی زمنی اے وہ قاری جس کے عمامہ کا شملہ لٹک رہا ہے یہ تیرا زمانہ ہے،میرا زمانہ گزر گیا ابلغ خلیفتنا ان کنت لاقیہ انی لدی البابکا المصفورفی قرن اگر ہمارے خلیفہ سے ملاقات ہو تو میرا یہ پیغام پہنچادے کہ میں دروازہ پر بیڑیوں میں جکڑا ہوں عون بن عبداللہ نے عمر بن عبدالعزیز سے کہا کہ جریر سے میری آبرو بچائیے،آپ نے جریر کو باریابی کی اجازت دی،اس نے قصیدہ سنایا،جس میں اہل مدینہ کے مصائب مشکلات کا حال تھا،حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے ان کے لیے کپڑا،غلہ اورنقد روپیہ بھیجا اور جریر سے پوچھا بتاؤ تم کس جماعت میں سے ہو، مہاجرین میں ،انصار میں، ان کے اعزہ میں ،مجاہدین میں، اس نے کہا کسی میں نہیں، فرمایا پھر مسلمانوں کے مال میں تمہارا کیا حق ہے،اس نے کہا خدا نے میرا حق مقرر کیا ہے،بشرطیکہ آپ اس کونہ روکیں میں ابن سبیل (مسافر) ہوں دور دراز کا سفر کرکے آپ کے آستانہ پر ٹھہراہوں،آپ نے فرمایا،خیر اگر تم میرے پاس آئے ہو تو میں اپنی جیب سے تم کو بیس روپیہ دیتا ہوں،اس حقیر رقم پر خواہ میری تعریف کرویا مذمت،جریر نے اسے بھی غنیمت سمجھا اوراسے لے کر باہر آیا، دوسرے شعراء نے لپک کر پوچھا،کہو ابو حرزہ کیا معاملہ رہا، اس نے جواب دیا اپنا اپنا راستہ لو یہ شخص شاعروں کو نہیں ؛بلکہ گداگروں کو دیتا ہے۔ مگر علماء فقہاء اورقراء کی بڑی قدردانی تھی،ان کو دور دور سے بلاکر خواص میں داخل کرتے تھے۔ (ایضاً:۱۶۶) زمامِ خلافت ہاتھوں میں لینے کے بعد سالم بن عبداللہ بن عمر،محمد بن کعب قرظی اور رجاء بن حیوٰۃ ،ریاح بن عبیدہ سے امور خلافت میں مشورہ لیتے تھے (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۱۶۶)میموں بن مہران،رجاء بن حیواۃ،ریاح ابن عبیدہ آپ کے ندیم خاص تھے،ان کے علاوہ اورمتعدد علماء آپ کے ہم جلیس تھے۔ (ابن سعد:۵/۲۹۲) فضائل اخلاق اگرچہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے مجددانہ کارناموں کے بعد ان کے فضائل اخلاق لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس گلستان سے اس بہا لکا پورا اندازہ ہوجاتا ہے تاہم اس پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لینا مناسب ہوگا۔ خلافت سے پہلے آپ فطرۃ صالح اورسعید تھے،اس لیے زندگی کے کسی دور میں بھی آپ کا دامن اخلاق داغدار نہ تھا، لیکن خلافت سے پہلے آپ کی زندگی بڑے عیش وتنعم اورشان شکوہ کی تھیں۔ ان کا خود بیان ہے کہ مجھے لباس،عیش پرستی اور عطریات کا جب شوق ہوا،تو میں نے اسے اس قدر پورا کیا کہ میرے علم میں میرے خاندان ؛بلکہ دوسرے خاندانوں میں بھی ایسی زندگی کسی کو نصیب نہ ہوئی ہوگی (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۵۶۶) ان کے شوق اورنفاستِ مزاج کا یہ حال تھا کہ جب ان کے کپڑوں پر ایک مرتبہ دوسروں کی نظر پڑجاتی تھی تو پھر انہیں وہ پرانا سمجھتے تھے(ایضاً:۱۴۶)ولید کے زمانہ میں ان کو چار چار سو روپیہ کی قیمت کا کپڑا سخت و کرخت معلوم ہوتا تھا، لیکن پھر چودہ درہم کا کپڑا بھی نرم وملیح معلوم ہونے لگا تھا (تہذیب الاسماء:۱/۲۰)خوشبو کے لیے داڑھی پر عنبر چھڑکتے تھے(سیرت عمر بن عبدالعزیز:۱۵۱)رجاء بن حیوۃ کا بیان ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؓ سب سے زیادہ خوش لباس،سب سے زیادہ معطر اورسب سے زیادہ تنجتر کی چال چلنے والے تھے۔ (ایضاً) لیکن تختِ خلافت پر قدم رکھنے کے بعد زندگی یکسر بدل گئی ،عیش وتنعم کے سارے سامان چھوٹ گئے اور عیش پروردہ عمر بن عبدالعزیز نے ابوذر غفاریؓ اورحسن بصری کا قالب اختیار کرلیا۔ انہوں نے جس طرح دنیا سے دامن جھاڑا،اس کے کچھ حالات اوپر گزر چکے ہیں، ساری املاک بیت المال کو واپس کردی،لونڈی غلام،فرش فروش ،لباس وعطریات عیش وتجمل کے جملہ سامانوں کو بیچ کر اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی (تہذیب الاسماء:۱/۲۱) بیت المال سے گزارہ کے لیے چار سودینار سالانہ لیتے تھے اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ لیتے تھے (ابن سعد:۲۹۶، وسیرت:۲۷۲)لباس بقدر ستر پوشی اورغذا بقدر لایموت سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ لباس لباس میں عموماً صرف ایک جوڑا رہتا تھا، اسی کو دھودھوکر پہنتے تھے (ایضاً:۱۹۷) مرض الموت میں ایک قمیص کے علاوہ دوسری قمیص نہ تھی،آپ کے سالے مسلمہ بن عبدالملک نے اپنی بہن فاطمہ سے کہا کہ قمیص میلی ہوگئی ہے،لوگ عیادت کے لیے آتے ہیں،اس لیے دوسری بدلوادو،وہ خاموش رہیں، سلمہ نے دوبارہ کہا،فاطمہ نے جواب دیا، خدا کی قسم اس کے علاوہ دوسرا کپڑا نہیں ہے (سیرت عمر بن عبد العزیز:۸۰) پھر ایک جوڑا بھی سالم نہ ہوتا تھا ؛بلکہ اس میں پیوند لگے ہوتے تھے۔ (ایضاً:۲۷۵) بچے بھی اسی تنگی سے بسر کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ کی بچی کے پاس کپڑا نہ تھا آپ نے حکم دیا کہ فرش پھاڑ کر کرتہ بنادیا جائے، آپ کی بہن کو خبر ہوئی تو انہوں نے ایک تھان بھجوادیا اورمنع کردیا کہ عمر سے نہ مانگنا۔ (ایضاً:۳۹۸) ایک مرتبہ آپ کے صاحبزادے نے کپڑے مانگے، آپ نے فرمایا میرے کپڑے خیار بن رباح کے پاس رکھے ہیں، ان سے جاکر لے لو، وہ ان کے پاس گئے،انہوں نے گاڑھے کے کپڑے نکال کردیئے،عبید اللہ نے کہا یہ توہمارے پہننے کے لائق نہیں ہیں، خیار نے کہا میرے پاس تو امیر المومنین کے یہی کپڑے ہیں،عبیداللہ نے واپس جاکر حضرت عمر بن عبدالعزیز سے بھی وہی عذر کیا،آپ نے فرمایا میرے پاس تو یہی کپڑے ہیں، یہ جواب سُن کر وہ لوٹنے لگے تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے واپس بلا کے کہا اگر اپنے وظیفہ سے پیشگی لینا چاہو، تولے سکتے ہو؛چنانچہ سو درہم دلوادیے اوروظیفہ تقسیم ہونے کے وقت کاٹ گئے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۲۷۳) غذا غذا نہایت معمولی اورسادہ ہوتی تھی،روٹی اورروغن زیتون یا دال روٹی کھاتے تھے ،آپ کے غلاموں کو بھی یہی ملتا تھا،ایک مرتبہ ایک غلام نے شکایت کی کہ روز،روز دال روٹی ملتی ہے، آپ کی بیوی نے جواب دیا،امیر المومنین کی یہی غذا ہے اوریہ غذا بھی پیٹ بھرکر نہ کھاتے تھے، آپ کے غلام کا بیان ہے کہ جب سے آپ خلیفہ ہوئے اس وقت سے وفات تک کبھی شکم سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا۔ (ایضا:۴۵۴) اگر کبھی کوئی اچھی چیز کھانے کی خواہش بھی ہوتی تھی تو اس کی مقدرت نہ تھی ایک مرتبہ انگور کھانے کو دل چاہا،بیوی سے پوچھا، تمہارے پاس ایک درہم ہے میں انگور کھانا چاہتا ہوں،انہوں نے جھلا کر جواب دیا، امیر المومنین ہوکر تم کو ایک درہم کی استطاعت نہیں، فرمایا یہ جہنم کی ہتکڑیوں سےمیرے لیے زیادہ آسان ہے۔ (تاریخ الخلفاء:۲۳۵) ان کی یہ زندگی دیکھ کر ان کی بیوی فاطمہ نے (جنہوں نے امارت کے گہوارہ میں پرورش پائی تھی، بھی اسی رنگ میں اپنے کو رنگ لیا تھا اوربناؤ سنگار بالکل ترک کردیا تھا،ایک مرتبہ ایک دولت مند گھرانے کی خاتون نے اس حالت میں دیکھ کر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے شوہر کی یہی پسند ہے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۱۵۴) ذمہ داری کا احساس اورخشیتِ الہیٰ حکومت اورسلطنت دلوں کو سخت اورمواخذہ سے بے خوف بنادیتی ہے،لیکن عمر بن عبدالعزیز کے دل کو ا س نے خشیتِ الہیٰ سے لبریز کردیا تھا، وہ خلافت کی ذمہ داریوں کے احساس سے لرزہ براندام رہتے تھے۔ یہ مشغلہ کبھی گھر میں بھی تنہائی میں ہوتا تھا،ایک دن بیوی نے دیکھ لیا، اس کی وجہ پوچھی آپ نے ٹالنا چاہا مگر بیوی نے اصرار کیا اورکہا میں بھی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہتی ہوں، اس وقت آپ نے بتایا کہ میں نے اپنے بارہ میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ میں اس امت کے چھوٹے بڑے اورسیاہ سپید جملہ امور کا ذمہ دار ہوں،اس لیے جب میں بیکس غریب محتاج،فقیر،گم شدہ قیدی اوراس قبیل کے دوسرے آدمیوں کو یاد کرتا ہوں جو سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، جن کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور خدا ان کے بارہ میں مجھ سے سوال کرے گا اوررسول اللہ ﷺ ان کے متعلق مجھ پر دعویٰ کریں گے،اگر میں خدا کے سامنے ان کا کوئی عذر اوررسول اللہ ﷺ کے سامنے کوئی دلیل نہ پیش کرسکا تو مجھے خوف پیدا ہوجاتا ہے اورمیرے آنسو نکل آتے ہیں اورجس قدر میں ان چیزوں پر غور کرتا ہوں اسی قدر میرا دل خوفزدہ ہوتا ہے۔ (ایضاً:۱۸۸،۱۸۹،وتاریخ الخلفاءتذکرہ عمر بن عبدالعزیز) بعض لوگ آپ کے گریہ وبکا پر ملامت کرتے، آپ جواب دیتے تم لوگ مجھے رونے پر ملامت کرتے ہو؛حالانکہ اگر فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ بھی ہلاک ہوجائے تو عمر اس کے بدلہ میں پکڑاجائے گا۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۲۹۱،۲۹۲) ایک مرتبہ آپ نے ایک فوجی افسر سلیمان بن ابی کریمہ کو لکھا خدا کی تعظیم وخشیت کا سب سے زیادہ مستحق وہ بندہ ہے،جس کو اس نے اس آزمایش میں ڈالا جس میں میں ہوں،خدا کے نزدیک مجھ سے زیادہ سخت حساب دینے والا اور اگر اس کی نافرمانی کروں تو مجھ سے زیادہ ذلیل کوئی نہیں ہے میں اپنی حالت سے سخت دل گرفتہ ہوں، مجھے خوف ہے کہ میرے یہ حالات مجھے ہلاک نہ کردیں،مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جانے والے ہو تو برادرِمن جب تم میدان جہاد میں پہنچ جاؤ تو خدا سے دعا کرو کہ وہ مجھے شہادت عطا فرمائے، اس لیے کہ میری حالت نہایت سخت اورمیرا خطرہ بہت بڑا ہے۔ (ابن سعد:۵/۲۹۲) موت اورقیامت کا خوف سلاطین کی بزمِ طرب میں موت اورقیامت کے ذکر اورخوف کا گذر بھی نہیں ہوتا،لیکن عمر بن عبدالعزیزؓ کی مجلس بزم عزا ہوتی تھی،رات کو علماء جمع ہوکر موت اورقیامت کا ذکر کرکے اس طرح روتے تھے ،جیسے ان کے سامنے جنازہ رکھا ہو۔ (تاریخ الخلفاء:۲۳۷) رات رات بھر جاگ کر موت پر غور وفکر کیا کرتے تھے اورقبر کی ہولناکیوں کا ذکر کرکے بے ہوش ہوجاتے تھے،ایک مرتبہ اپنے ایک ہم جلیس سے فرمایا میں رات بھر غور وفکر میں جاگتا رہا، اس نے پوچھا کس چیز کے متعلق،فرمایا قبر اور اہل قبر کے متعلق،اگر تم مردے کو تین دن کے بعد قبر میں دیکھو تو انس ومحبت کےباوجود اس کے پاس جاتے ہوئے خوف زدہ ہوگے تم ایسا گھر دیکھو گے جس میں خوش لباسی اورخوشبو کے بجائے کیڑے رینگ رہے ہوں گے،پیپ بہ رہی ہوگی اوراس میں کیڑے تیررہے ہوں گے،بدبو پھیلی ہوگی،کفن بوسیدہ ہوچکا ہوگا،یہ کہہ کر ہچکی بندھ گئی اوربیہوش ہوکر گرپڑے،ان کی بیوی پانی چھڑک کر ہوش میں لائیں۔ یزید بن حوشب کا بیان ہے کہ میں نے حسن بصری اورعمر بن عبدالعزیز سے زیادہ کسی شخص کو قیامت سے ڈرنے والا نہیں دیکھا،معلوم ہوتا تھا ، گویا دوزخ ان ہی کے لیے بنائی گئی ہے۔ (ابن سعد:۵/۲۹۴) آیات قرآنی سے تاثر قرآن مجید کی موعظت آیات پڑھ کر بے حال ہوتے جاتے ،ایک شب کو یہ آیت: يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ،وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ (القارعۃ:۴،۵) جس دن لوگ مثل بکھرے ہوئے پردانوں کے ہوں گے،اورپہاڑ مثل دھنکے ہوئے اون کے ہوں گے۔ تلاوت کرکے زور سے چیخے: وسوء صباحاہ اوراچھل کر اس طرح گرے کہ معلوم ہوتا تھا کہ دم نکل جائے گا،پھر اس طرح ساکن ہوگئے کہ معلوم ہوتا تھا ختم ہوگئے پھر ہوش میں آگئے، ایک دن نماز میں یہ آیت: وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ (الصافات:۲۴) ان کو بتادو کہ ان سے باز پرس کی جائے گی۔ پڑھی تو اتنے متاثر ہوئے کہ اسی کو بار بار دہراتے رہے اور اس سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ (ایضاً:۱۹۱) دیانت آپ کے فضائل اخلاق میں دیانت کا وصف سب سے زیادہ نمایاں ہے مسلمانوں کے ماں کی حفاظت میں آپ نے دیانت کا جو نمونہ پیش کیا ، اس کی مثال کسی قوم کی تاریخ میں مشکل سے مل سکتی ہے۔ بیت المال سے کبھی معمولی فائدہ اٹھانا بھی گوارانہ کیا،رات کو جب تک خلافت کے کام انجام دیتے تھے، اس وقت تک بیت المال کی شمع جلاتے تھے،اس کے بعد گل کرکے اپنا ذاتی چراغ جلواتے تھے۔ (تاریخ الخلفاء:۲۳۷ وابن سعد:۵/۲۹۵) بیت المال کی جانب سے فقراء اورمساکین کے لیے جو مہمان خانہ تھا،اس کے باورچی خانہ سے اپنے لیے پانی بھی گرم نہ کراتے تھے، ایک مرتبہ غفلت میں آپ کا ملازم ایک مہینہ تک اس مطبخ سے آپ کے وضو کا پانی گرم کرتا رہا،آپ کو معلوم ہوا تو اتنی لکڑی خرید کر باورچی خانہ میں داخل کرادی۔ (ابن سعد:۵/۲۹۵) ایک بار غلام کو گوشت کا ٹکڑا بھوننے کا حکم دیا وہ اسی مطبخ سے بھون لایا آپ نے اسے ہاتھ نہ لگایا اورغلام سے فرمایا تم ہی کھالو،میری قسمت کا نہ تھا۔ (سیرت ابن عبدالعزیز:۶) خلافت کے کاموں کے سلسلہ میں جو لوگ آتے تھے وہ اسی مہمان خانہ میں مہمان ہوتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز ان کے ساتھ کھانا نہ کھاتے تھے،ایک مرتبہ چند مہمانوں نے کھانے سے انکار کردیا کہ جب تک آپ نہ کھائیں گے ہم بھی نہ کھائیں گے،اس دن سے مجبور ہوکر مہمانوں کے ساتھ کھانے لگے،مگر اس کا معاوضہ دے دیتے تھے۔ (ایضاً:۱۶۲) ایک مرتبہ بہت سے سیب آئے، آپ انہیں عام مسلمانوں میں تقسیم فرما رہے تھے،آپ کا چھوٹا بچہ ایک سیب اٹھا کر کھانے لگا،آپ نے اس کے منہ سے چھن لیا وہ رونے لگا اورجاکر اپنی ماں سے شکایت کی ماں نے بازار سے سیب منگادیئے،عمر بن عبدالعزیز گھرآئے تو انہیں سیب کی خوشبو معلوم ہوئی،پوچھا فاطمہ کوئی سرکاری سیب تو تمہارے پاس نہیں آیا ہے،انہوں نے سارا واقعہ بیان کردیا، آپ نے فرمایا خدا کی قسم میں نے اس کے منہ سے نہیں چھینا تھا، اپنے دل سے چھینا تھا،لیکن مجھے یہ پسند نہ تھا کہ میں مسلمانوں کے حصہ کے ایک سیب کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کے حضورمیں اپنے نفس کو برباد کروں۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۱۶۲) آپ کو لبنان کا شہد بہت مرغوب تھا، ایک مرتبہ آپ نے اس کی خواہش ظاہر کی،آپ کی بیوی فاطمہ نے وہاں کے حاکم ابن معدیکرب کے پاس کہلا بھیجا،انہوں نے بہت سا شہد بھجوادیا،فاطمہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سامنے پیش کیا آپ نے شہد دیکھ کر فرمایا معلوم ہوتا ہے،تم نے ابن معدیکرب کے پاس کہلا بھیجا تھا، ان ہی نے بھیجا ہے؛چنانچہ کل شہد بہجواکر اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی اور ابن معدیکرب کو لکھ بھیجا کہ تم نے فاطمہ کے کہلانے پر شہد بھیجا ہے،خدا کی قسم اگر آیندہ ایسا کیا تو اپنے عہدہ پر نہ رہو گے اورتمہارے چہرہ پر نظر نہ ڈالوں گا۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۵۸) ایک مرتبہ آپ کی حاملہ بیوی کے لیے تھوڑے سے دودھ کی ضرورت تھی،لونڈی مہمان خانہ سے ایک پیالہ میں دودھ لے آئی، آپ نے پوچھا یہ کیا ہے، اس نے کہا بی بی کے لیے دودھ کی ضرورت تھی،اگر اس وقت دودھ نہ دیا جائے گا تو اسقاط کا اندیشہ ہے،اس لیے یہ دودھ دارالضیافۃ سے لے آئی ہوں، یہ سن کر لونڈی کا ہاتھ پکڑا اورچلاتے ہوئے بیوی کے پاس لائے اورکہا اگر حمل فقراء ومساکین کے کھانے کے علاوہ اورکسی چیز سے قائم نہیں رہ سکتا تو خدا اس کو قائم نہ رکھے،یہ برہمی دیکھ کر بیوی نے دودھ واپس کرادیا۔ (ابن سعد:۵/۲۷۹) احتیاط کا آخری نمونہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ بیت المال کا مشک آپ کے سامنے لایا گیا،آپ نے ناک بند کرلی کہ اس کی خوشبو نہ جانے پائے،لوگوں نے عرض کیا امیر المومنین اس کی خوشبو سونگھ لینے میں کیا ہرج ہے،فرمایا مشک کا انتقاع یہی ہے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۱۶۰) تختِ خلافت پر قدم رکھنے کے بعد ہدایاوتحائف کا سلسلہ بند کردیا تھا ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ کو سیب اور دوسرے میوے ہدیہ میں بھیجے، آپ نے واپس کردیا،بھیجنے والے نے آپ سے کہا ہدیہ تو رسول اللہ ﷺ قبول فرماتے تھے، آپ نے جواب دیا،لیکن ہمارے لیے اور ہمارے بعد والوں کے لیے وہ رشوت ہے ،ابن جوزی نے اس قبیل کے اوربہت سے واقعات لکھے ہیں۔ توکل توکل اوراعتماد علی اللہ نے تمام خطرات سے بے پرواہ کردیا تھا،جس زمانہ سے امیر معاویہ پر حملہ ہوا تھا، اس زمانہ سے خلفاء کی حفاظت کا بڑا اہتمام رہتا تھا سینکڑوں سپاہی پہرہ پر متعین رہتے تھے،عمر بن عبدالعزیز نے دوسرے سامان تجمل کے ساتھ اس کو بھی ختم کردیا تھا، ایک مرتبہ بعض ہوا خواہوں نے عرض کیا کہ گذشتہ خلفاء کی طرح آپ بھی کھانا دیکھ بھال کر کھایا کریں اورحملہ کی حفاظت کے لیے نماز میں پہرہ کا انتظام رکھا کریں، طاعون میں ہٹ جایا کریں، یہ سُن کر فرمایا خدایا اگر میں تیرے علم میں روز قیامت کے علاوہ اورکسی دن سے ڈروں توتو میرے خوف کو اطمینان نہ دلانا۔ (ابن سعد:۵/۲۹۴) تواضع ومساوات ترفع،کبر،خودنمائی اورعدم مساوات وغیرہ امارت کے لوازم میں ہیں،خود حضرت عمر بن عبدالعزیزمیں خلافت سے پہلے بڑی تمکنت تھی،لیکن خلافت کے بعد سراپا عجزوانکسار اورمساوات کا نمونہ بن گئے تھے۔ اوپر گزر چکا ہے کہ خلافت کے بعد انہوں نے تمام شاہی امتیازات مٹادیئے تھے اور فرمایا تھا کہ میں بھی عام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں ،سرکاری پہرہ داروں کو تعظیم کے لیے اٹھنے کی ممانعت کردی اورخود ان کے ساتھ برابر بیٹھتے تھے۔ (سیرۃ عمر بن عبدالعزیز) لونڈی غلاموں کے ساتھ برتاؤ اتنا مساویانہ تھا کہ کبھی کبھی آپ خود بھی ملازمین کی خدمت کرتے تھے،ایک مرتبہ پنکھا جھلتے جھلتے ایک لونڈی کی آنکھ لگ گئی،آپ نے پنکھا لے کر اس کو جھلنا شروع کردیا،اس کی آنکھ کھلی تو گھبرا کر چلائی، آپ نے فرمایا آخر تم بھی میری طرح انسان ہو،تم کو بھی گرمی لگتی ہوگی،جس طرح تم مجھے پنکھا جھل رہی تھی میں نے تم کوجھلنا مناسب سمجھا۔ (ایضاً:۵۷) جنازہ میں شرکت کے وقت خلفاء کے لیے علیحدہ چادر بچھائی جاتی تھی؛چنانچہ حسب معمول جب آپ کے لیے پہلی مرتبہ بچھائی گئی تو آپ نے اس کو پیروں سے ہٹادیا۔ (ایضاً:۱۷۲) ملازموں کے آرام میں خلل نہ ڈالتے تھے اور ان کے آرام کے اوقات میں خود اپنے ہاتھ سے کام کر لیتے تھے،ایک مرتبہ رجاء بن حیوٰۃ سے گفتگو میں رات گزرگئی اورچراغ جھلملانے لگا،پاس ہی ملازم سویاہوا تھا،رجاء نے کہا اسے جگادوں، فرمایا سونے دو،رجاء نے خود چراغ درست کرنے کا ارادہ کیا،آپ نے روک دیا کہ مہمان سے کام لینا مروت کے خلاف ہے اور خود اٹھ کر زیتون کا تیل لیا اورچراغ ٹھیک کرکے پلٹ کر فرمایا جب میں اٹھاتھا تب بھی عمر بن عبدالعزیز تھا اوراب بھی عمر بن عبدالعزیز ہوں۔ (ایضاً:۱۷۳) اس تواضع اورمساوات کی وجہ سے ان لوگوں کو جو خلیفہ میں جاہ وجلال دیکھنے کے عادی تھے،آپ کے پہچاننے میں دقت ہوتی تھی ،حکم بن عمرو الرعینی کا بیان ہے کہ عمروبن عبدالعزیز ایک حلقہ سے اٹھ کر دوسرے حلقہ میں بیٹھ جاتے تھے اور وہ اجنبی جو آپ کو پہچانتے نہ تھے، انہیں جب تک اشارہ سے بتایا نہ جاتا، اس وقت تک وہ پہنچان نہ سکتے تھے۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز:۱۷۳،۱۷۴) اس مختصر تذکرہ میں ان کے اخلاقی کمال کا احاطہ مشکل ہے اس لیے صرف چند نمونے پیش کیے گئے ہیں۔