انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یزد جرد کی ہلاکت ایرانی سلطنت تو فاروق اعظمؓ ہی کے عہد خلافت میں برباد ہوچکی تھی،سلطنت کے بعد سرحدی صوبے یا بعض شہر جو باقی تھے وہ خلافت عثمانی میں مسخر ہوگئے تھے،لیکن یزد جرد شاہ فارس کی حالت یہ تھی کہ کبھی رے میں ہے کبھی بلخ میں کبھی مرو میں ہے تو کبھی اصفہان میں کبھی اسطخر میں ہے تو کبھی جیحون کو عبور کرکے ترکستان کو چلا گیا ہے کبھی چین میں ہے کبھی پھر فارس کے اضلاع میں آگیا ہے،غرض اس کے ساتھ کئی ہزار ایرانیوں کی جمعیت تھی،اور وہ اپنی خاندانی عظمت اورساسانی اقتدار وبزرگی کی بدولت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلینے میں کامیاب ہوجاتا اورلوگ بھی اس توقع میں کہ شاید اس کا ستارۂ اقبال پھر طلوع ہو، اس کے ساتھ ہوجاتے تھے،یہی سب سے بڑی وجہ تھی کہ ایران کے اکثر صوبوں ،ضلعوں اورشہروں میں کئی کئی مرتبہ بغاوت ہوئی،اورمسلمان سرداروں نے اس کو بار بار فرو کیا، اس مرتبہ یعنی ۳۱ ھ میں یزد جر د چین وترکستان کی طرف سے ایک جمعیت کے ساتھ نواح بلخ میں آیا، یہاں اس نے بعض شہروں پر چند روز قبضہ حاصل کیا لیکن اس کے اقبال کی نحوست نے اُس کو ناکام فرار ہونے اور مسلمان کی قید میں پڑنے کے لئے بھاگ کر ایک پن چکی والے کی پناہ میں جانے پر مجبور کیا پن چکی والے نے اس کے قیمتی لباس کے لالچ میں جب کہ وہ سورہا تھا قتل کردیا اورلباس و زیور اورہتھیار وغیرہ اُتار کر اس کی لاش کو پانی میں ڈال دیا،یہ واقعہ نواح مرو میں مقام مرغاب کے متصل ۲۳ اگست ۶۵۱ ء کو وقوع پذیر ہوا ،یزد جرد کے چار سال تو عیش وعشرت کی حالت میں گذرے،سولہ برس تباہی وآوارگی میں بسر ہوئے ان سولہ برس میں آخری دس سال مفروری کے عالم میں گذرے، اس کے بعد ایرانی فتنے سب فرو ہوگئے۔ اسی سال محمد بن ابی حذیفہؓ اورمحمد بن ابی بکرؓ نے جو مصر میں والی مصر عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے پاس مقیم تھے عبداللہ بن سعد سے مخالفت وناخوشی کا اظہار کیا،عبداللہ بن سعد کے ساتھ اُن دونوں بزرگوں کی ناخوشی بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے علانیہ حضرت عثمان غنیؓ پر اعتراض وطعن کیا کہ انہوں نے عبداللہ بن سعد جیسے شخصوں کو جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناخوش رہے صوبوں کا گور نر بنا رکھا ہے اوران کی زیادتیاں اورمظالم دیکھ کر بھی معزول نہیں کرتے۔