انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** باغیوں کا استیصال فتح قرمونہ کے بعد امیر عبدالرحمن نے اپنے خادم بدر اور تمام بن علقمہ کو فوج دے کر طلیطلہ کی جانب آیا ایک سخت اور خونریز جنگ کے بعد بدر اور تمام کو باغیان طلیطلہ پر فتح مبین حاصل ہوئی ،ہشام بن عبدربہ فہری،حیوۃ بن ولید،یحصبی،عثمان بن حمزہ بن عبیداللہ بن عمر بن خطاب وغیرہ باغیوں کے بڑے بڑےسردار گرفتار ہوئے ان سرداروں کو لےکرجب بدر اور تمام قرطبہ کے قریب پہنچے توشہر سے باہر ہی ان باغی سرداروں کو سر وریش مونڈ کر اور ذلت کے ساتھ گدھوں پر سوار کراکر شہر کے اندر لےگئے جہاں امیر عبدالرحمن کے حکم سے اس کو قتل کردیاگیا۔ علاء بن مغیث کے ساتھ بہت سے یمنی قبائلشامل ہوگئے تھے اور ان میں سے اکثر آدمی جنگ قرمونہ میں عبدالرحمن اور اس کے ہمراہیوں کہ ہاتھوں سے مقتول ہوئے ،یمنی لوگوں کو اپنے ان مقتولین کا قصاص لینے کی خواہش تھی،چنانچہ اسی سال یعنی۱۴۷ھ میں سعید یحصبی نے جو مطری کےنام سے مشہور تھا خروج کیا اور شہر لبلہ میں فوجیں فراہم کرکے اشبیلیہ پر قابض ومتصرف ہوگیا،امیر عبدالرحمن یہ خبر پاکر قرطبہ سے فوج لےکرمطری کی سرکوبی کے لیے اشبیلیہ کی جانب روانہ ہوا ،مطری نے اشبیلیہ کے ایک قلعہ میں بند ہوکر مدافعت شروع کی اور عبدالرحمن نے اشبیلیہ کا محاصرہ کرلیا ،عتاب بن علقمی شہر شدونہ میں تھا وہ مطری کے ساتھ اس بغاوت میں شرکت کاوعدہ کرچکا تھا ،چنانچہ مطری کے محصور ہونے کی خبر سن کر عتاب بن علقمی شدونہ سے فوج کےلر روانہ ہوا۔ امیر عبدالرحمن نے یہ خبر سن کر اپنے خادم بدر کو ایک حصہ فوج دے کر روانہ کیا کہ عتاب کو مطری تک نہ پہنچنےدیاجائے اور دونوں کے درمیان خود حائل رہے ادھر سعید معروف بہ مطری ماراگیا اہل قلعہ نے ایک شخص خلیفہ بن مروان کو اپنا سردار بنالیا مگر آخر مجبور ہوکر امن کی درخواست دی عبدالرحمن نے اس درخوست کو منظور کرکے قلعہ کو مسمار کرادیا اور خود قرطبہ کی جانب واپس آیا اس کے بعد ہی علاقہ جیان میں عبداللہ بن خراشہ اسدی نے علم بغاوت بلند کیا اور امیر عبدالرحمن کے مقابلہ کو فوجیں جمع کیں امیر عبدالرحمن نے فوراً ایک فوج اس طرف روانہ کی عبداللہ کے ہمراہیوں نہ یہ سن کر عبدالرحمن کی فوج آرہی ہے عبداللہ کا ساتھ چھوڑدیا عبداللہ اسدی نے امیر عبدالرحمن سے معافی کی درخوست کی امیر نے اس معافی دی ۱۵۰ھ میں غیاث بن میر اسدی نے علم بغاوت بلند کیا ولایت باجہ کے عامل نے فوجیں فراہم کرکے اس کا مقابلہ کیا معرکہ کا رزار میں غیاث ماراگیا اس کی فوج شکست کھاکر منتشر ہوگئی عامل باجہ نے غیاثکاسر کاٹ کر بشارت نامہ کے ساتھ عبدالرحمن کی خدمت میں بھیج دیا اسی سال یعنی ۱۵۰ھ میں امیر عبدالرحمن نے شہر قرطبہ کی شہر پناہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ ۱۵۱ھ میں ایک شخص شقنہ بن عبدالواحد نے جوبربر کے قبیلہ مکناسہ سے تعلق رکھتا تھا اور تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے معلمی کا پیشہ کرتا تھا یہ دعی کیا کہ میں حضرت حسیب بن علی کی اولاد سے ہوں اور میرا نام عبداللہ بن محمد ہے اس شخص کو عباسیوں کی سازشی کاروائیوں اور کامیابیوں کا علم تھا نیز علویوں کے دعاۃ مکناسہ اور علاقہ بربر میں آتے رپتے تھے جن کا اس کو علم تھا لہذا اس نے اندلس کی حکومت کو درہم برہم کرنے کی جرأت وجسارت کی ،اس کی یہ اولالعزمی کچھ زیادہ عجیب نہ تھی کیونکہ بہت جلد بربریوں کی ضعیف الاعتقادی قوم اس کے گرد جمع ہوگئی بربریوں کے علاوہ بعض اور لوگ بھی معتقد ہوگئے،ابن الواحد نے اپنی کرامت اور خرق عادات باتوں کا بھی ان لوگوں کو یقین دلادیا،ایک مجمع کثیر جب اس کے معتقدین کافراہم ہوگیا تو اس نے علم بغاوت بلند کیا اور اندلس کے مشرقی صوبہ بلنیسہ کے مقام شیطران پر قابض ومتصرف ہوگیا امیر عبدالرحمن یہ خبر سن کر اس کی سرکوبی کے لیے قرطبہ سے روانہ ہوا ۔ ابن الواحد امیر عبدالرحمن کی آمد کا حال سن کر اپنی جماعت کے ساتھ پہاڑوں میں جاچھپا اور مقابلہ نہیں کیا امیر عبدالرحمن قرطبہ کی جانب واپس لوٹ آیا طلیطلہ کی حکومت پر حبیب بن عبدالملک کو مامور کرکے ابن الواحد کی سرکوبی کی ہدایت کیئحبیب بن عبدالملک نے اپنی طرف سے سلیمان بن عثمان بن مروان بن عثمان بن ابان بن عثمان بن عفانؓ کو ابن الوحدکی گرفتاری وسزا دہی پر مامور کیا ،سلیمان فوج لےکر ابن الواحد کے تعاقب میں روانہ ہوا ابن الوحاد نے مقابلہ کیا اور سلیمان کو گرفتار کرکے قتل کرڈالا اور اطراف قوریہ پر قابض ومتصرف ہوگیا۔ یہ حالت سن کر۱۵۲ھ میں امیر عبدالرحمن نے قرطبہ سے کوچ کیا ،ابن الوحد امیر کی خبر سن کر فوراً پہاڑوں میں بھاگ گیا اور امیر عبدالرحمن پریشان ہوکر واپس چلاآیا۔ ۱۵۳ھ میں امیر عبدالرحمن نے اپنے خادم بدر کو ایک فوج دے کر روانہ کیا اور بدر جب قلعہ شیطران کے قریب پہنچا تو ابن الواحد شیطران کو خالی چھوڑکر پہاڑوں میں چلاگیا ،۱۵۴ھ میں پھر امیر عبدالرحمن خودگیا مگر حسب سابقہ شقنہ بن عبدالواحد ہاتھ نہ آیا۔ ۱۵۵ھ میں امیر عبدالرحمن ابوعثمان عبیداللہ بن عثمان کو ایک زبردست فوج دے کر روانہ کیا لیکن اس مرتبہ بھی کوئی نتیجہ حسب مراد پیدا نہ ہوا بلکہ ابن الواحد نے ابوعثمان کی فوج کے ایک بڑے حصہ کو دھوکہ دے کر قتل کرڈالا اور کئی شہروں کو لوٹ لیا،مجبور ہوکر امیر عبدالرحمن ۱۵۶ھ میں پھر قرطبہ سے خود ہی فوج لےکر روانہ ہوا اور قتطبہ میں اپنے بیٹے سلیمان کو بجائے اپنے حاکم بناگیا ،جب قلعہ شیطران کے قریب پہنچا تو خبر پہنچی کہ یمنی قبائل اور اہل اشبیلیہ نے علم بغاوت بلند کردیا ہے مجبوراً امیر عبدالرحمن شیطران اور ابن الواحد کو اس کے حال پر چھوڑ کر اشبیلیہ کی طرف متوجہ ہوا اور عبدالملک بن عمر کو حکم دیا کہ وہ آگے برھ کر اشبیلیہ پر حملہ کرے۔ عبدالملک نے اشبیلیہ کے قریب پہنچ کر اپنے بیٹے امیہ بن عبدالمک کو اہل اشبیلئیہ پر شب خون مارنے کے لیے بطور ہر اول روانہ کیا ،امیہ نے اہل اشبیلیہ کو ہوشیار پاکر حملہ نہ کیا اور باپ کے واپس آیا عبدالملک نے واپسی کی وجہ پوچھی تو امیہ نے کہا اہل اشبیلیہ ہوشیار تھے اور حملہ کرنے کا موقع نہ تھا عبدالملک نے کہا تو نے موت سے ڈر کر حملہ نہ کیا تو بڑا بزدل ہے میں بزدل کو محبوب نہیں رکھتا یہ کہہ کر اس نے اسی وقت اپنے بیمے امیہ کی گردن اڑدای اور اپنے ہمراہیوں کو مخاطب کرکے کہاتم جانتے ہو ہم لوگ کس طرح قتل کیے گئے اور اپنے وطن سے بے وطن ہوئے اتفاق سے اس قدر دور دراز فاصلہ پر زمین کا ایک ٹکڑا یعنی اندلس ہاتھ آیا ہے جو بمشکل ہماری گزران کے لیے کافی ہے ،بزدلی کے ساتھ اس کو بھی ہاتھ سے دینا اور ضائع کرنا کسی طرح شیان شان نہیں ہے مناسب ہے کہ ہم اپنی زندگی کو موت پر ترجیح نہ دیں اور بہادری کے ساتھ لڑکر مارے جائیں سب نے اس کی تائید کی اور مارنے مرنے کی قسمیں کھائیں ،اشبیلیہ میں یمنی قبائل کی نہایت زبردست جمعیت اور پوری طاقت فراہم تھی اور یہ ان کی طاقت وقوت کی گویا آخری نمائش تھی لہذا اشبیلیہ کو فتح کرنا کوئی آسان کام نہ تھا،عبدالملک بن عمر نے حملہ کیا اور اس کی فوج نے اس حملہ میں متفقہ طور پر اس کا ساتھ دیا بڑی خونریز جنگ ہوئی آخر اہل اشبیلیہ کو ہزیمت ہوئی ،عبدالملک کے جسم پر کئی زخم آئے مگر اس نے دشمنوں کے قتل کرنے میں حیرت انگیز طور پر تیز دستی اور بہادری دکھائی،لڑائی کے خاتمہ پر عبدالملک نے جب تلوار ہاتھ سے رکھنی چاہی تو اس کی انگلیاں نہیں کھل سکیں اور تلوار ہاتھ سے نہیں چھوٹی ،اسی حالت میں امیر عبدالرحمن بھی پہنچ گیا اس نے عبدالملک کے ہاتھ میں خون آلود تلوار دیکھ کر اور لڑائی کی روداد سن کر کہا کہ بھائی عبدالملک میں اپنے لڑکے ہشام کی شادی آپ کی لڑکی سے کرنا چاہتا ہوں اس کے بعد امیر عبدالرحمن نے عبدالملک بن عمر کو اپنا وزیر بنالیا۔ یمنی قبائل یعنی اہل اشبیلیہ کے دو سر دار عبدالغفاربن حامد حاکم شہر بنیلہ اور حیوۃ بن فلاقش حاکم اشبیلیہ اور عمروحاکم بیجہ ا سمعرکہ سے بچ کر فرار ہوگئے تھے انہوں نے پھر اپنے گرد عربی قبائل کو جمع کیا۱۵۷ھ میں امیر عبدالرحمن نے ان پر حملہ کیا اور شکست دے کر ان کے ہواخواہوں کوقتل کرڈالا ان واقعات سے امیر عبدالرحمن کو عرب قبائل کی طرف سے بڑی بدگمانی اور بے اعتباری ہوگئی چنانچہ اس نے عجمیوں اور غلاموں کو بھرتی کرنا شروع کردیا تاکہ انلوگوں یعنی عرب قبائل کی بغاوتوں اور سرکشیوں سے امن مل سکے یہی مجبوریاں غالباً خلفائے عباسیہ کو بھی پیش آئی ہوس گی جس کی وجہ سے انہوں نے باوجود اس کے کہ وہ خود عرب تھے عربوں پر دوسری قوتوں کو ترجیح دی اور عربوں کی غداری سے ہمیشہ ڈرتے ہی رہے،۱۶۰ھ میں عبدالرحمن نے ایک لشکرابن عبدالواحد کی طرف روانہ کیا اس لشکر نے جاکر قلعہ شیطران کا محاصرہ کیا اور ایک مہینے تک محاصرہ کیے رہنے کے بعد بلانیل ومرام واپس آیا آخر ۱۶۲ھ میں ابن الواحد قلعہ شیھران سے نکل کر علاقہ شتت بریہ کے ایک گاؤں میں آیا اس کے ہمراہیوں میں سے دو شخص ابومعین اور ابوجریم نے اسے قتل کرڈالا او راس کا سرلےکر امیر عبدالرحمن کی خدمت میں حاضر ہوگئے اس طرح اس فتنہ کا عرصہ دراز کے بعد خاتمہ ہوا۔ ابھی ابن الواحد قتل نہ ہوا تھاکہ۱۶۱ھ میں عبدالرحمن بن فہری معروف بہ صقلبی نے افریقہ میں فوجیں آراستہ کرکے اندلس پر قبضہ کرنے کے ارادے سے چڑھائی کی اور تدمیر کے میدان میں پہنچ کر قیام کیا یہاں اندلس کے بہت سے بربری آکر اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئے عبدالرحمن بن حبیب نے سلیمان بن یققان والی برشلونہ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم خلافت عباسیہ کی اطاعت قبول کرلو ورنہ مجھ کو اپنے سر پر پہنچا ہوا سمجھو ،سلیمان نے انکار کیا اور عبدالرحمن بن حبیب نے سلیمان پر حملہ کیا مقابلہ ہوا اور سلیمان نہ عبدالرحمن بن حبیب فہری کو شکست دے کر بھگادیا عبدالرحمن بن حبیب نے میدان تدمیر میں آکر دم لیا امیر عبدالرحمن بن معاویہ کو جب یہ حال معلوم ہوا تو وہ قرطبہ سے فوج لےکر میدان تدمیر کی طرف روانہ ہوا امیر عبدالرحمن نے آنے کی خبر سن کر عبدالرحمن بن حبیب کو ہ بنیسہ میں جاکر پناہ گزین ہوا،امیر عبدالرحمن بن معاویہ نے اشتہار دے دیا کہ جو شخص عبدالرحمن بن حبیب کا سرکاٹ کر لائےگا اس کو اس قدر انعام دیا جائے گا،اس انعام کے مشتہر ہوتے ہی ایک بربری کی جو عبدالرحمن بن حبیب کے ہمراہیوں میں تھا نیت بگڑی اس نے موقع پاکر عبدالرحمن بن حبیا کا سر کاٹ لیا اور امیر عبدالحمن کی خدمت میں لاکر پیش کیا پھر انعام وصول کرکے چل دیا اس۱۶۲ھ میں عبدالرحمن بن حبیب کے مارے جانے پر اس مہم کا خاتمہ ہوگیا اور امیر عبدالرحمن قرطبہ کی طرف واپس آیا۔ چند ہی روز کے بعد ۱۶۲ھ میں دحیہ غسانی نے علاقہ البیرہ کے ایک قلعہ میں جاگزیں ہوکر علم بغاوت بلند کیا امیر عبدالرحمن نے شہید بن عیسی کو اس کر سرکوبی پر مامور کیا شہید بن عیسی نے اس باغی سردار کو شکست دے کر قتل کرڈالا ،اس کے چند روز بعد بربریوں نے سر اٹھایا اور ابراہیم بن سجرہ کی سرکردگی میں علم بغاوت بلند کیا امیر عبدالرحمن نےابراہیم بن سجرہ کی سرکوبی پر بدر کو مامور کیابدر نے ابراہیم کو قتل کرکے بربریوں کی جمعیت کو منتشر کردیا،انھیں دنوں سلمی نامی ایک سپہ سالار نے قرطبہ سے فرار ہوکر طلیطلہ کارخکیا اور طلیطلہ پر قبضہ کرکے علم بغاوت بلند کیا امیر عبدالرحمن نے حبیب بن عبدالملک کو سلمی کی سرکوبی پر مامور کیا حبیب نے جاکر طلیطلہ کا محاصرہ کیا اور عرصہ دراز تک یہ محاصرہ جاری رہا آخر سلمی کا بحالت محاصرہ انتقال ہوگیا اور اس کے ہمراہی منتشر ہوگئے۔