انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مختار کا قتل اور کوفہ پرقبضہ جب مہلب آگیا تومصعب بن زبیر نے اس کوحکم دیا کہ جبراکبر پراپنے لشکر کومرتب کردو عبدالرحمن بن احنف کوکوفہ کی طرف روانہ کی کہ وہاں جاکر قیام کرو اور پوشیدہ طور پرلوگوں سے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نام پربیعت لو، عباد بن حصین حطمی تمیمی کومقدمۃ الجیش کا افسر بنایا، میمنہ پرعمربن عبیداللہ بن معمر کواور میسرہ پرمہلب بن ابی صفرہ کومامور کیا اور قلب لشکر کی سرداری خود مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس رکھی؛ اس طرح یہ لشکر مرتب ہوکر بصرہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوا۔ مختار کوجب اس فوج کشی کا حال معلوم ہوا تووہ بھی فوج لے کرکوفہ سے نکلا، ابراہیم بن مالک اس زمانے میں موصل کی حکومت پرمامور تھا اور وہ بصرہ سے نہیں آسکا تھا، بصرہ کی فوج میں ایک دستہ فوج ان لوگوں کا بھی تھا جوکوفہ سے بھاگ کربصرہ پہنچے تھے، اس دستہ فوج کی سرداری محمد بن الاشعث کودی گئی تھی، دونوں فوجوں کا مدآزانامی گاؤں کے قریب مقابلہ ہوا، خوب زور وشور کی لڑائی ہوئی، آخرمختار کوشکست ہوئی اور وہ فرار ہوکر کوفہ میں داخل ہوا، قصرامارت کی مضبوطی کرکے محصور ہوبیٹھا۔ میدانِ جنگ سے جب کوئی لشکر بھاگا تومحمد بن الاشعث نے فراریوں کا تعاقب کیا اور بھاگتے ہوؤں کودور تک قتل کرتا چلا گیا، مصعب بن زبیر نے دارالامارۃ کا محاصرہ کرلیا، یہ محاصرہ کئی روز تک جاری رہا، مختار کے ساتھ ایک ہزار آدمی قصر کے اندر محصور تھے، آخرسامانِ رسد کی کمی سے مجبور ہوکر مختار نے قلعہ کا دروازہ کھولنے اور مقابلہ کرکے مرنے کا ارادہ کیا، اس کے ہمراہیوں نے اس کومنع کیا اور مشورہ دیا کہ مصعب سے جان کی امان طلب کرکے دروازہ کھولو، یقین ہے کہ مصعب ضرور امان دیدے گا؛ لیکن مختار نے اس مشورہ کوناپسند کیا، سرمیں خوشبودار تیل ڈالا، کپڑوں کوعطرملا اور ہتھیار لگاکرقصر سے نکلا، صرف انہیں آدمیوں نے اس کا ساتھ دیا، باقی قصر کے اندر ہی رہے، مختار نے نکل کرحملہ کیا اور طرفہ وطراف پسران عبداللہ بن وجاجہ حنیفی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ مختار ۱۴/رمضان المبارک سنہ۶۷ھ کومقتول ہوا، مختار کے ہمراہیوں میں عبیداللہ بن علی بن ابی طالب بھی مقتول ہوئے، مصعب بن زبیر نے ان لوگوں کوجوقصر امارت کے اندر محصور تھے گرفتار کیا، تمام وہ لوگ بھی جومیدانِ جنگ میں گرفتار ہوئے تھے، کوفہ کے اندر لائے گئے اور ایک وسیع مقام پر ان تمام قیدیوں کوفراہم کرکے ان کی نسبت مشورہ لیا گیا، مہلب بن ابی صفرہ نے کہا کہ ان سب کوچھوڑ دینا چاہیے؛ لیکن محمد بن الاشعث اور تمام دوسرے کوفیوں نے یہ سن کرمصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کواس رائے پرعمل کرنے سے منع کیا۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ حیران تھے کہ میں کیا کروں؟ کوفی کہتے تھے کہ ان لوگوں نے مختار کے ہاتھ پربیعت کرکے کوفہ میں کوئی گھرایسا نہیں چھوڑا جس میں کوئی نہ کوئی قتل نہ کیا ہو؛ اگریہ لوگ اب چھوڑدیئے گئے تواسی وقت تمام کوفہ باغی ہوجائے گا، ان لوگوں کی کل تعداد چھ ہزار تھی جن میں صرف سات سوعرب اور باقی اریانی لوگ تھے، مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آخر سوچ کریہی فیصلہ کیا کہ ان لوگوں کوقتل کردیا جائے؛ چنانچہ وہ سب قتل کردیئے اور اہلِ کوفہ کواطمینان میسر ہوا، مصعب نے مختار کے دونوں ہاتھ کٹواکر جامع مسجد کوفہ کے دروازے پرلٹکادیئے جووحجاج کے عہدامارت تک وہاں لٹکے رہے۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کوفہ پرقابض ہوکر ابراہیم بن مالک کوجوموصل پرقابض اور مختار کی طرف سے مامور تھا، ایک خط لکھا تھا کہ تم کومیری اطاعت کرنی چاہیے، میں تم کوملکِ شام کی سنددیدوں گا، ساتھ ہی وعدہ کرتا ہوں کہ شام سے مغرب کی جانب جس قدر ممالک پرتم قبضہ کرتے چلے جاؤ گے، وہ سب تمہاری جاگیر سمجھے جایں گے، ادھر مختار کے مارے جانے کی خبر سن کرعبدالملک بن مروان نے دمشق سے ابراہیم کے پاس خط بھیجا کہ تم میری اطاعت اختیار کرو، میں تم کوعراق کی سند دیدوں گا اور جس قدر ممالک تم مشرق کی طرف فتح کرتے چلے جاؤ گے وہ سب تمہاری حکومت میں شامل رہیں گے، دونوں طرف سے ایک ہی قسم کے خطوط ابراہیم کے پاس پہنچے، اس نے عبدالملک پرمصعب کوترجیح دی اور کوفہ میں آکرحضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت تسلیم کرکے مصعب کے ہاتھ پربیعت کی، مصعب نے موصل وجزیرہ کی حکومت پرمہلب بن ابی صفرہ کومامور کرکے بھیج دیا اور ابراہیم کواپنے پاس مہلب کی جگہ سپہ سالاری پررکھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کوجب مختار کے مارے جانے اور کوفہ پرقبضہ ہونے کا حال معلوم ہوا توانھوں نے مصعب کوکوفہ کی گورنری پرنامزد کرکے بصرہ کی گورنری پراپنے بیٹے حمزہ بن عبداللہ کوبھیجا، حمزہ نے اہلِ بصرہ کوناراض کردیا اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کوخطوط لکھے کہ حمزہ کومعزول کرکے مصعب کوبصرہ کی حکومت پربھیج دیجئے، آخرسنہ۶۸ھ میں مصعب کوبصرہ کی حکومت بھی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سپرد کردی۔