انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ابو قحافہ سے ملاقات اس سے قبل جب مسلمانوں کا لشکر مکہ کی طرف جارہا تھا تو ایک ۹۲ سال یا ۹۴ سال کا بوڑھا شخص اپنی کم سن پوتی کی مدد سے جبل بو قبیں پر چڑھ رہا تھا ، اس کی بینائی زائل ہوچکی تھی، جب کافی بلندی پر پہنچ گیا تو اپنی پوتی سے پوچھا کہ تیرے سامنے کیا منظر ہے ، پوتی نے جواب دیا فوجوں کا ایک امڈتا ہوا سیلاب ہے جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہے ، اور ان کے ہاتھوں میں نیزے ہیں، بوڑھے نے پوچھا کیا یہ سب ایک جگہ جمع ہیں ، کہا نہیں یہ سب چار حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ، پھر بعد میں پوتی نے بتایا کہ یہ سب ہماری جانب بڑھ رہے ہیں، بوڑھے کو اپنی جوانی کا زمانہ یاد آیا جبکہ ان کی جوانی کے زمانہ میں یمن کے بادشاہ ابرہہ اشرم ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبہ کو ڈھانے کے مذموم ارادہ سے آیا تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی تھی اور ابرہہ کے لشکر کو تباہ کردیا تھا، بوڑھے نے خیال کیا کہ آج بات ہی کچھ اور ہے اور ان اللہ والوں کے لشکر کا ارادہ کعبہ کی تطہیر ہے ، وہ اپنی پوتی کا ہاتھ تھامے جلدی نیچے اترنے لگے اور پوتی سے کہا بیٹی آج اس فوج کو مکہ میں داخل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ، اس کے بعد جب حضوراکرم ﷺ مسجد حرام میں تشریف رکھے ہوئے تھے حضرت ابو بکرؓ صدیق ان مرد بزرگ کا ہاتھ پکڑے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اور ان کا ہاتھ حضورﷺکے ہاتھ میں دے دیا، فرمایا ان بزرگ کو کیوں تکلیف دی ‘ میں خود گھر جاکر ان سے مل لیتا ، وہ بزرگ حضرت ابو بکرؓ صدیق کے والد حضرت عثمانؓ بن عامر ( جن کی کنیت ابو قحافہ تھی ) تھے جن کا تعلق قبیلہ بنو تیم سے تھا ، حضرت ابو بکرؓ انہیں مسلمان بنا کر قبیلہ بنو تیم کو اعزاز دلانا چاہتے تھے، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے ان کو حضور ﷺ کے سامنے بٹھا دیا، آپﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیر کر فرمایا " اسلام قبول کرلو" چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے، یہ وہ گھرانہ تھا جس کی چار پشتیں مقام صحابیت پر فائز ہوئیں یعنی ان کے صاحبزادے حضرت ابو بکرؓ صدیق اور ان کے بیٹے عبداللہؓ ، عبد الرحمنؓ اور محمدؓ (سیرت احمد مجتبیٰ)