انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اپنوں اور پرایوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے ضرورت مندوں پر صدقہ کا اجروثواب حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس مسلم نے کسی دوسرے مسلم بھائی کو جس کے پاس کپڑا نہیں تھا، پہننے کو کپڑا دیا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبزلباس پہنائیگا اور جس مسلم بھائی نے دوسرے مسلم بھائی کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائیگا اور جس مسلم نے پیاس کی حالت میں دوسرے مسلم بھائی کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی مہرلگی ہوئی شرابِ طہور پلائیگا۔ (ترمذی، باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض، حدیث نمبر:۲۳۷۳۔ ابوداؤد، حدیث نمبر:۱۴۳۲) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپؐ فرماتے تھے، جس بندے نے کسی مسلم کو کپڑا پہنایا وہ یقینا اس وقت تک اللہ کے حفظ وامان میں رہیگا جب تک کہ اس کے جسم پر اس کپڑے میں سے کچھ بھی رہے۔ (ترمذی، باب منہ بعد ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض، حدیث نمبر:۲۴۰۸) جانوروں کو کھلانا بھی صدقہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بدچلن عورت اس عمل پر بخش دی گئی کہ وہ ایک کنویں کے پاس سے گزری اور اس نے دیکھا کہ ایک کتا زبان نکالے ہوئے ہے (اور اس کی حالت ایسی ہے کہ) گویا وہ پیاس سے مرہی جائیگا (اس عورت کے دل میں ترس آیا، وہاں پانی نکالنے کے لیے رسی، ڈول کچھ موجود نہیں تھا) اس نے اپنے چمڑے کا موزہ پاؤں سے نکالا اور (کسی طرح اس کو) اپنی اوڑھنی سے باندھا اور (محنت مشقت کرکے) اس کے ذریعہ کنویں سے پانی نکال کر اس کو پلایا، وہ عورت اپنے اسی عمل کی وجہ سے بخش دی گئی… کسی نے عرض کیا: یارسول اللہ (ﷺ) کیا جانوروں کو کھلانے پلانے میں بھی ثواب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! ہرحساس جانور (جس کو بھوک پیاس کی تکلیف ہوتی ہو) اس کو کھلانے پلانے میں اجروثواب ہے۔ (بخاری، باب اذاوقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ، حدیث نمبر:۳۰۷۴۔ مسلم، حدیث نمبر:۴۱۶۴) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان بندہ کوئی درخت لگائے یاکھیتی کرے تو اس درخت یااس کھیتی سے جو پھل اور جو دانہ کوئی انسان یاکوئی پرندہ یاکوئی چوپایہ کھائیگا وہ اس بندہ کے لیے صدقہ اور اجروثواب کا ذریعہ ہوگا۔ (بخاری، باب فضل الزرع والغرس اذا اکل منہ، حدیث نمبر:۲۱۵۲۔ مسلم، حدیث نمبر:۲۹۰۰) اہل وعیال پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے اپنے اہل وعیال کی ضروریات پر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کم وبیش خرچ تو سب ہی کرتے ہیں لیکن اس خرچ کرنے سے لوگوں کو وہ روحانی خوشی حاصل نہیں ہوتی جو اللہ کے نیک بندوں، دوسرے ضرورت مندوں اور مساکین وفقراء پر صدقہ کرنے سے ہوتی ہے؛ کیونکہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے کو لوگ کارِ ثواب نہیں سمجھتے؛ بلکہ اس کو مجبوری کا ایک تاوان یانفس کا ایک تقاضا سمجھتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ اپنے اہل وعیال اور اعزہ واقارب پر بھی لوجہ اللہ اور ثواب کی نیت سے خرچ کرنا چاہیے اس صورت میں جو خرچ اس مد میں ہوگا وہ سب صدقہ کی طرح آخرت کے بینک میں جمع ہوگا؛ بلکہ دوسرے لوگوں پر صدقہ کرنے سے زیادہ اس کا ثواب ہوگا۔ (بخاری، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ، حدیث نمبر:۵۳، مسلم، حدیث نمبر:۱۶۶۹) ایک اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل وہ دینار ہے جس کو اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے۔ (مسلم، باب فضل النفقۃ علی العیال والمملوک، حدیث نمبر:۱۶۶۰) رسول اللہ ﷺ کی اس تعلیم سے ہمارے لیے خیروسعادت کا ایک بہت بڑا دروازہ کھل جاتا ہے اب ہم جو کچھ اپنے بیوی بچوں کے کھانے، کپڑے پر حتی کہ ان کے جوتوں پر جائز حدودمیں خرچ کریں وہ ایک طرح کا صدقہ اور کارِ ثواب ہوگا، بس شرط یہ ہے کہ ہم اُس ذہن سے اور اس نیت سے خرچ کریں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میرے پاس ایک دینار ہے (بتائیے کہ میں وہ کہاں خرچ کروں اور کس کو دے دوں؟) آپ ﷺ نے فرمایا (سب سے مقدم یہ ہے) کہ اپنی ضرورتوں پر خرچ کرو، اس نے کہا کہ اس کے لیے میرے پاس اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تو اس کو اپنی اولاد کی ضروریات پر خرچ کرو، اس نے کہا: اس کے لیے میرے پاس اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کو اپنی بیوی کی ضروریات پر خرچ کرو، اس نے کہا: اس کے لیے میرے پاس اور ہے، آپ نے فرمایا: پھر اس کو اپنے غلام اور خادم پر صرف کردو، اس نے کہا: اس کے لیے میرے پاس اور ہے، آپ نے فرمایا: پھر تم ہی زیادہ واقف ہو (کہ تمہارے اہل قرابت میں کون زیادہ ضرورت مند اور مستحق ہے)۔ (ابوداؤد، باب فی صلۃ الرحم، حدیث نمبر:۱۴۴۱۔ نسائی، حدیث نمبر:۲۴۸۸) غالباً ان صاحب کے ظاہری حال سے رسول اللہؐ نے یہ اندازہ کیا تھا کہ یہ خود ضرورت مند اور تنگ حال ہیں اور ان کے پاس بس ایک دینار ہے اور یہ اس کو ثواب آخرت اور اللہ کی رضا کے لیے کہیں خرچ کرنا چاہتے ہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں کہ مؤمن بندہ جو کچھ اپنی ضرورتوں پر خرچ کرے یا اپنی بیوی بچوں پر اور غلاموں پر (جن کی اس پر ذمہ داری ہے) خرچ کرے وہ سب بھی صدقہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کا وسیلہ ہے، اس لیے آپؐ نے ان کو بالترتیب یہ مشورہ دیا، عام اصول اور حکم یہی ہے کہ آدمی پہلے ان حقوق اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جن کا وہ ذاتی اور شخصی طور پر ذمہ دار ہے اس کے بعد آگے بڑھے، ہاں وہ خاصان خداجن کو توکل واعتماد علی اللہ کا بلند مقام حاصل ہو اور ان کے اہل وعیال کو بھی اس دولت میں سے حصہ ملا ہو ان کے لیے یہ صحیح ہے کہ خود وہ فاقہ سے رہیں، پیٹوں پر پتھر باندھیں اور گھر میں جو کھانا ہو وہ دوسرے اہل حاجت کو کھلادیں، خود رسول اللہ ﷺ اور خواص صحابہ کا حال اور طرزِ عمل یہی تھا: "وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ"۔ (الحشر:۹) ترجمہ: "اپنے سے مقدم رکھتے ہیں؛ اگرچہ اُن پر فاقہ ہی ہو"۔ رشتہ داروں پر صدقہ میں دوہرا ثواب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک خطبہ میں خاص طور سے عورتوں کو مخاطب کرکے) فرمایا: اے خواتین! تم کو چاہیے کہ راہِ خدا میں صدقہ کیا کرو؛ اگرچہ تم کو اپنے زیورات میں سے دینا پڑے (آگے زینب بیان کرتی ہیں کہ) میں نے جب حضورﷺ کا یہ ارشاد سنا تو میں اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود کے پاس آئی اور میں نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہم عورتوں کو خاص طور سے صدقہ کی تاکید فرمائی ہے (اور میں چاہتی ہوں کہ میرے پاس جو کچھ ہے اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرنے کی سعادت حاصل کروں) اور تم بھی تنگ حال اور خالی ہاتھ ہو اب تم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کرو (اگر میں تم کو ہی دے دوں تو کیا میرا صدقہ ادا ہوجائیگا) اگر میرا تم کو دینا صحیح ہو تو میں تم ہی کو دے دوں گی ورنہ دوسرے ضرورت مند پر خرچ کردوگی، کہتی ہیں کہ عبداللہ بن مسعود نے مجھ سے کہا: تم خود ہی جاکر حضور ﷺ سے دریافت کرو میں خود گئی، وہاں پہنچی تو دیکھا کہ انصار میں سے ایک عورت آپ کے دروازے پر کھڑی اور اس کی غرض بھی وہی ہے جو میری غرض ہے (وہ بھی یہی مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حاضر ہوئی تھی) اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص ہیبت دی تھی (جس کی وجہ سے ہرایک کو آپ سے دوبدو بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی اس لیے ہمیں خود آپ کے قریب پہنچ کر پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی) اتنے میں (آپ کے خاص خادم اور مؤذن) حضرت بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے ہم دونوں نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیجئے کہ دوعورتیں دروازے پر کھڑی ہیں اور آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہیں کہ اگر وہ اپنے ضرورت مند شوہروں اور یتیموں پر جو خود ان کی گود میں پرورش پاتے ہیں صدقہ کریں تو کیا یہ صدقہ ادا ہوجائیگا (اور ہم کو اس صدقہ کا ثواب ملے گا) اور رسول اللہ ﷺ کو یہ نہ بتانا کہ ہم کون دوعورتیں ہیں؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں عورتوں کا سوال آپ کی خدمت میں عرض کیا، آپ ﷺ نے پوچھا: وہ کون عورتیں ہیں؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ایک عورت تو انصار میں سے ہے اور دوسری زینب ہے آپ نے پوچھا: کونسی زینب؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ہاں! (ان کا صدقہ ادا ہوجائیگا؛ بلکہ اس صورت میں) ان کو دوہرا ثواب ملے گا، ایک صدقہ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا ثواب۔ (بخاری، باب الزکاۃ علی الزوج والایتام فی الحجر، حدیث نمبر:۱۳۷۳۔ مسلم، حدیث نمبر:۱۶۶۷) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کھجور کے باغات کے لحاظ سے مدینہ کے انصار میں سب سے زیادہ دولت مند حضرت ابوطلحہ انصاری تھے اور انہیں اپنے باغات اور جائیدادوں میں سب سے زیادہ محبوب "بیرحاء" تھا (یہ ان کے ایک قیمتی باغ کا نام تھا) اور یہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا اور رسول اللہ ﷺ اس میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس کا نفیس پانی (شوق سے) نوش فرماتے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی "لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّاتُحِبُّوْنَ" (آل عمران:۹۲) (نیکی اور مقبولیت کا مقام تم کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک اپنی محبوب چیزوں کو تم راہِ خدا میں خرچ نہ کرو) حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: "لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّاتُحِبُّوْنَ" (آل عمران:۹۲) اور مجھے اپنی ساری مالیات میں سب سے زیادہ محبوب "بیرحاء" ہے اس لیے اب وہی میری طرف سے اللہ کے لیے صدقہ ہے، مجھے امید ہے کہ آخرت میں مجھے اس کا ثواب ملے گا اور میرے لیے ذخیرہ ہوگا؛ لہٰذا آپ ﷺ اس کے بارے میں وہ فیصلہ فرمادیں جو اللہ تعالیٰ آپ کے ذہن میں ڈالے (جو مصرف اس کا مناسب سمجھیں معین فرمادیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: واہ واہ! یہ تو بڑی نفع مند اور کارآمد جائیداد ہے، میں نے تمہاری بات سن لی (اور تمہارا منشاء سمجھ لیا) میں سمجھتا ہوں کہ تم اس کو اپنے ضرورت مند قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ (ﷺ)! میں یہی کروں گا؛ چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے قریبی رشتہ داروں میں اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ (بخاری، باب اذا قال الرجل لوکیلہ ضعہ، حدیث نمبر:۲۱۵۰۔ مسلم، حدیث نمبر:۱۶۶۴) بعض روایات میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا یہ باغ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق اپنے خاص اقارب ابی بن کعب، حسان بن ثابت، شداد بن اوس اور نبیط بن جابر پر تقسیم کردیا تھا، یہ باغ کس قدر قیمتی تھااس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ بعد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے صرف حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا حصہ ایک لاکھ درھم میں خریدا تھا۔ (بخاری، باب من تصدق الی وکیلہ ثم ردالوکیل الیہ، حدیث نمبر:۲۵۵۲،۔ مسلم، باب فضل النفلۃ والصدقۃ علی الاقربین والزوج، حدیث نمبر:۱۶۶۵) چونکہ آدمی کا زیادہ واسطہ اپنے عزیزواقارب ہی سے رہتا ہے اور زیادہ ترمعاملات انہیں سے پڑتے ہیں، اس لیے اختلافات اور تنازعات بھی زیادہ تراقارب ہی سے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس دنیا کی زندگی بھی عذاب بن جاتی ہے اور آخرت بھی برباد ہے؛ اگر رسول اللہﷺ کی اس تعلیم وہدایت پر عمل کیا جائے اور لوگ اپنے قرابت داروں پر اپنی کمائی خرچ کرنا اللہ کی رضا کا وسیلہ سمجھیں تودنیا اور آخرت کے بڑے بڑے عذاب سے محفوظ رہیں، کاش دنیا رسول اللہؐ کی تعلیم وہدایت کی قدر سمجھے اور اس سے فائدہ اٹھائے۔ مرنے والوں کی طرف سے صدقہ صدقہ کیا ہے؟ اللہ کے بندوں کے ساتھ اس نیت سے اور اس امید پر احسان کرنا کہ اس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا، رحمت اور مہربانی نصیب ہوگی اور بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا کرم واحسان حاصل کرنے کا خاص الخاص وسیلہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی بتایا کہ جس طرح ایک آدمی اپنی طرف سے صدقہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے ثواب وصلہ کی امید کرسکتا ہے اسی طرح اگر کسی مرنے والے کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اِس کا ثواب وصلہ اس مرنے والے کو عطا فرمائے گا؛ لہٰذا مرنے والوں کی خدمت اور ان کے ساتھ ہمدردی واحسان کا ایک طریقہ ان کے لیے دعا واستغفار کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ان کی طرف سے صدقہ کیا جائے یااسی طرح ان کی طرف سے دوسرے اعمال خیر کرکے ان کو ثواب پہنچایا جائے، اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے: حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا میری والدہ کا بالکل اچانک اور دفعۃً انتقال ہوگیا اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ موت واقع ہونے سے پہلے کچھ بول سکتیں تو وہ ضرور کچھ صدقہ کرتیں تو اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کا ثواب ان کو پہنچ جائیگا؟ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! پہنچ جائیگا۔ (بخاری، باب موت الفجأۃ البغتۃ، حدیث نمبر:۱۲۹۹۔ مسلم، حدیث نمبر:۱۶۷۲) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ کی والدہ کا انتقال ایسے وقت ہوا کہ خود سعد موجود نہیں تھے (رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے ہوئے تھے جب ان کی واپسی ہوئی) تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں انہوں نے عرض کیا: میری عدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہوگیا، تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا وہ ان کے لیے نفع مند ہوگا؟ (اور ان کو اس کا ثواب پہنچے گا؟) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں! پہنچے گا، انہوں نے عرض کیا: میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا باغ "مخراف" اپنی والدہ مرحومہ کے لیے صدقہ کردیا۔ (بخاری، باب اذاقال أرض وبستانی صدقۃ للہ عن أمی، حدیث نمبر:۲۵۵۱۔ سنن کبریٰ للبیھقی، حدیث نمبر:۱۳۰۰۷) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: حضرت! میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے ترکہ میں کچھ مال چھوڑا ہے اور (صدقہ وغیرہ کی) کوئی وصیت نہیں کی ہے، تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا میرا یہ صدقہ ان کے لیے کفارہ سیئات اور مغفرت ونجات کا ذریعہ بن جائیگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں! (اللہ تعالیٰ سے اس کی امید ہے)۔ (مسلم، باب وصول ثواب الصدقات الی المیت، حدیث نمبر:۳۰۸۱۔ ابن ماجہ، حدیث نمبر:۲۷۰۷) حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانۂ جاہلیت میں سواونٹ قربان کرنے کی نذرمانی تھی (جن کو وہ پورا نہیں کرسکے تھے) تو ان کے ایک بیٹے ہشام بن عاص نے تو پچاس اونٹوں کی قربانی (اپنے باپ کی اس نذر کے حساب میں) کردی اور دوسرے بیٹے عمروبن عاص نے (جن کو اللہ نے اسلام کی توفیق دیدی تھی) رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہارے باپ ایمان لے آئے ہوتے اور پھر تم ان کی طرف سے روزے رکھتے یاصدقہ کرتے تو ان کے لیے نفع مند ہوتا (اور اس کا ثواب ان کو پہنچتا؛ لیکن کفر وشرک کی حالت میں مرنے کی وجہ سے اب تمہارا کوئی عمل ان کے لیے کام نہیں آسکتا)۔ (مسنداحمد، مسند عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ، حدیث نمبر:۶۷۵۴) رسول اللہ ﷺ نے ان حدیثوں میں (او ران کے علاوہ بھی بہت سی حدیثوں میں جو کتب حدیث کے مختلف ابواب میں مروی ہیں) یہ بات پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ صدقہ وغیرہ جو قابل قبول نیک عمل کسی مرنے والے کی طرف سے کیا جائے یعنی اس کا ثواب اس کو پہنچایا جائے وہ اس کے لیے نفع مند ہوگا اور اس کو ثواب پہنچے گا۔ "سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہِ" اللہ تعالیٰ کا کتنا عظیم فضل واحسان ہے کہ اس راستے سے ہم اپنے ماں باپ اور دوسرے عزیز واقارب اور دوست واحباء اور محسنین کی خدمت ان کے مرنے کے بعد بھی کرسکتے ہیں اور اپنے ہدیہ اور تحفے ان کو برابر بھیج سکتے ہیں۔