انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** گجرات میں علمِ حدیث گجرات کے علاقہ احمدآباد کے ایک عالم راجح بن داؤد (۹۰۴ھ) حرمین پہنچے اور حافظ شمس الدین سخاوی سے حدیث کی سند حاصل کی، ان کی تین روایات عشاریات (حضورﷺ تک دس واسطوں سے پہنچنے کی سند) میں سے ہیں، جن میں سے ایک حضرت امام ابوحنیفہؒ کے واسطہ سے مروی ہے، حافظ سخاویؒ نے الضوء اللامع میں راجح بن داؤد کوشیخ فاضل اور بارع کامل کے الفاظ سے ذکر کیا ہے، گجرات میں اس سے پہلے (۸۵۱ھ) کا لکھا ہوا صحیح بخاری کا ایک نسخہ ملا ہے، جو کسی گجراتی عالم کے ہاتھ کا لکھا ہے، مکہ کے شیخ ابوالقاسم بن احمد جب گجرات آئے تواپنے ساتھ فتح الباری کا ایک قلمی نسخہ بھی لائے تھے، شیخ علی المتقی (۵۷۵ھ) گجرات سے حجاز گئے اور حافظ سخاوی سے حدیث کی سند حاصل کی۔ شیخ محمدبن طاہر (۹۸۶ھ) صاحب مجمع البحار گجرات کے نامور عالم ہیں، آپ حجاز سے ہی حدیث پڑھ کر آئے تھے، آپ کی لغاتِ حدیث کی کتاب "مجمع البحار" بڑی صخیم کتاب ہے اور اپنی مثال آپ ہے، آپ کے گجرات واپس آنے سے یہاں علمِ حدیث کوبہت فروغ ہوا، آپ کے عہد میں یہاں علمِ حدیث کا بہت چرچا تھا اور صحیح بخاری، صحیح مسلم اور مؤطا بڑے اہتمام سے پڑھی جاتی تھیں، شیخ عبدالقادر الحضرمی الگجراتی نے "النورالسافر" سنہ۹۷۴ھ کے وقائع میں لکھا ہے کہ امیرصالح الغ خان کے ہاں ۲۷/رجب کوختم بخاری بڑے اہتمام سے ہوتا ہے اور امیر کی طرف سے اس کے لیے ایک بڑی دعوت کاانتظام کیا جاتا ہے، یہ صورتحال بتاتی ہے کہ علمِ حدیث اس علاقے میں اس سے بہت پہلے متعارف ہوچکا تھا، علاقہ گجرات میں جوعلماء باہر سے آئے اور یہاں درسِ حدیث دیتے رہے، اِن میں شیخ احمد بن محمدالنہروانی (۹۴۹ھ) اور شیخ احمد بن بدرالدین مصریؒ (۹۹۲ھ) مشہور ہیں، شیخ احمد بن بدرالدین شیخ الاسلام زکریا انصاری کے شاگرد تھے اور انہوں نے حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (۸۵۲ھ) سے حدیث کی سند لی تھی۔