انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بیعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا حال سُن کر ایک طرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لوگ جمع ہوگئے تھے اُن میں قریباً سب ہی مہاجرین تھے،کیونکہ مہاجرین کے مکانات اسی محلہ میں زیادہ تھے،یہاں انصار بہت کم تھے،دوسری طرف بازار کے متصل سقیفۂ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کا اجتماع تھا،اس مجمع میں تقریباً سب انصارہی تھے کوئی ایک دو مہاجر بھی اتفاقاً وہاں موجود تھے،اسلام کی ابتداء اوراس کی نشو ونما،مخالفین کی کوششیں جنگ وپیکارکے ہنگامے، شرک کا مغلوب ومعدوم ہونا اوراسلامی قانون واسلامی آئین کے سامنے سب کا گردنیں جھکادینا ،سب کچھ ان لوگوں کے پیش نظر تھا اور وہ جانتے تھے کہ یہ نظام اب وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دنیا میں اسی وقت بحسن وخوبی قائم رہ سکتا ہے کہ آپ کا جانشین منتخب کرلیا جائے۔ مسجد نبوی میں حضرت عمر فاروقؓ کے عاشقانہ جذبہ نے لوگوں کو کچھ سوچنے اور مسئلہ خلافت پر غور کرنے کا موقع ہی نہ دیا حضرت ابوبکر صدیقؓ وفات نبوی کی خبر سن کر اگر جلد یہاں نہ پہنچ جاتے تو خدا جانے مسجد نبوی میں عشاقِ نبوی کی یہ حیرت واضطراب کی حالت کب تک قائم رہتی؛ لیکن دوسرے مجمع کی جو سعد بن عبادہ کی نشست گاہ میں تھا یہ حالت نہ تھی وہاں انتخاب خلیفہ کے متعلق گفتگو ہوئی؛ چونکہ وہ مجمع انصار کا تھا اورایک سردارِ قبیلہ کی نشست گاہ میں تھا جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے اورقبیلہ خزرج تعدادِ نفوس اورمال و دولت میں انصار کے دوسرے قبیلہ اوس سے فائق وبرتر تھا،لہذا اس مجمع کی گفتگو اوراظہار خیالات کا نتیجہ یہ تھا کہ حضرت سعد بن عبادہ کو خلیفہ یعنی جانشین رسول اللہ تسلیم کیا جائے۔ مہاجرین کی تعداد اگرچہ مدینہ میں انصار سے کم تھی،لیکن ان کی اہمیت اوران کی بزرگی وعظمت کا انصار کے قلوب پر ایسا اثر تھا کہ جب حضرت سعد نے خلافت کو انصار ہی کا حق ثابت کرنا چاہا تو انصار کے ایک شخص نے اعتراض کیا کہ مہاجرین انصار کی خلافت کو کیسے تسلیم کریں گے، اس پر ایک دوسرے انصاری نے کہا کہ اگر انہوں نے تسلیم نہ کیا تو ہم ان سے کہہ دیں گے کہ ایک خلیفہ تم اپنا مہاجرین میں سے بنالو اورایک خلیفہ ہم نے انصار میں سے بنالیا ہے، حضرت سعد نے کہا کہ نہیں ایک کمزوری کی بات ہے،ایک اور انصاری نے کہا کہ اگر مہاجرین نے ہمارے خلیفہ کو تسلیم نہ کیا تو ہم ان کو بذریعہ شمشیر مدینہ سے نکال دیں گے اُس مجمع میں جو چند مہاجرین تھے انہوں نے انصار کی مخالفت میں آواز بلند کی، اس طرح اس مجمع میں بحث وتکرار شروع ہوگئی ممکن تھا کہ یہ ناگوار صورت ترقی کرکے جنگ وپیکار تک نوبت پہنچ جاتی۔ یہ خطرناک رنگ دیکھ کر حضرت مغیرہؓ بن شعبہ وہاں سے چلے اور مسجد نبوی میں آکر سقیفۂ بنی ساعدہ کی روداد سنائی ،یہاں مسجد نبوی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی تقریر ختم کرکے تجہیز و تکفین کے سامان کی تیاری میں مصروف ہوچکے تھے،اس وحشت انگیز خبر کو سُن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے ہمراہ حضرت عمر فاروقؓ اورحضرت ابو عبیدہؓ کو لے کر سقیفۂ بنی ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ اوردوسرے صحابہ کو تجہیز وتکفین کے کام کی تکمیل میں مصروف چھوڑ گئے، اگر اُس وقت ابو بکر صدیقؓ ذرا بھی تامل فرماتے تو خدا جانے کیسے کیسے خطرات رونما ہوجاتے یہ تینوں بزرگ اس مجمع میں پہنچے تو وہاں ایک عجیب افرا تفری اور تو تو میں میں کا عالم برپا تھا،حضرت عمر فاروقؓ نے وہاں اس مجمع کو خطاب کرکے کچھ بولنا چاہا،لیکن حضرت ابوبکرصدیقؓ نے روک دیا اور خود کھڑے ہوکر نہایت وقار وسنجیدگی کے ساتھ تقریریر فرمائی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ابھی تھوڑی دیر ہوئی حضرت عمر فاروق کی از خود رفتگی دیکھ چکے تھے وہ مسجد نبوی میں شمشیر بدست پھر رہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ جو کوئی یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے،میں اُس کا سر اڑادوں گا لہذا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اندیشہ ہوا کہ یہاں بھی کہیں فرط جوش اور وفور غم میں کوئی اسی قسم کی بات نہ کہہ گزریں،لہذا انہوں نے خود مجمع کو مخاطب فرما کر تقریر شروع کی اوراسی کی ضرورت تھی؛چنانچہ انہوں نے فرمایا اول مہاجرین اُمراہوں گے اور انصار وزارء، آپ کی تقریر سن کر حضرت حباب بن المنذر بن الجموح نے فرمایا مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اورایک تم میں سے ،حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت حباب انصاری کو جواب دیا کہ تم کو خوب یاد ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو وصیت کی ہے کہ انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنا،انصار کو وصیت نہیں کی کہ مہاجرین کے ساتھ رعایت کا برتاؤ کرنا یہ دلیل اس بات کی ہے کہ حکومت وخلافت مہاجرین میں رہے گی، حباب بن المنذرؓ نے فوراً حضر عمر فاروقؓ کے کلام کو قطع کیا اور خود کچھ فرمانے لگے نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عمر فاروقؓ اورحضرت حبابؓ دونوں زور زور سے باتیں کرنے لگے، حضرت ابو عبیدہؓ نے دونوں کو روکنے اورخاموش کرنے کی کوشش کی اتنے میں حضرت بشیرؓ بن النعمان بن کعب بن الخزاج انصاری کھڑے ہوئے اورانہوں نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے شک قبیلۂ قریش سے تھے لہذا ان کی قوم یعنی قریش کے لوگ ہی خلافت کے زیادہ مستحق ہیں، ہم لوگوں نے بے شک دین اسلام کی نصرت کی اورہم سابق بالایمان ہیں،لیکن ہمارا اسلام لانا اور رسول اللہ کی امداد کے لئے مستعد ہوجانا محض اس لئے تھا کہ خدائے تعالی ہم سے راضی ہوجائے،اس کا معاوضہ ہم دنیا میں نہیں چاہتے اور نہ ہم خلافت اورامارت کے معاملہ میں مہاجرین سے کوئی جھگڑا کرنا پسند کرتے ہیں، حباب بن المنذر نے کہا کہ بشیرؓ تونے اس وقت بڑی بزدلی کی بات کہی اور بنے بنائے کام کو بگاڑناچاہا حضرت بشیرنے کہا کہ میں نے بزدلی کا اظہار نہیں کیا ؛بلکہ میں نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ ایک ایسی قوم سے خلافت وامارت کے متعلق جھگڑا کروجو خلافت وامارت کی مستحق ہے،کیا اے حبابؓ تونے سنا نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الا ئمۃ من قریش (امام قریش میں سے ہوں گے) حضرت بشیرؓ کے اس کلام کی بعض دوسرے انصار نے بھی تائید و تصدیق کی اوراس باخدا قوم نے اپنے دنیوی اور مادی خدمات کو اپنے دینی اور روحانی جذبات پر غالب نہ ہونے دیا، حضرت حباب بن المنذر بھی یہ باتیں سن کر خاموش ہوگئے اور انہوں نے فوراً اپنی رائے تبدیل کرلی۔ ان کے خاموش ہوتے ہی یک لخت تمام مجمع پر سکون وخاموشی طاری ہوگئی اور خلافت کے متعلق مہاجرین وانصار کا نزاع یکایک دور ہوگیا،اب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ یہ عمراؓ اور ابو عبیدہ موجود ہیں تم ان دونوں میں سے ایک کو پسند کرلو،حضرت ابو عبیدہؓ اورحضرت عمرؓ نے کہا کہ نہیں حضرت ابوبکر صدیقؓ مہاجرین میں سب سے افضل ہیں،یہ غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق تھے،نماز کی امامت کرانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا قائم مقام بنایا ؛حالانکہ نماز اموردین میں سب سے افضل شئے ہے،پس حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا خلافت وامارت کا مستحق نہیں ہوسکتا، یہ فرمانے کے بعد سب سے پہلے حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اوران کے بعد حضرت ابو عبیدہؓ اورحضرت بشیرؓ بن سعد انصاری نے بیعت کی پھر تو یہ کیفیت پیدا ہوگئی کہ چاروں طرف سے لوگ بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے،یہ خبر باہر پہنچی اورلوگ سنتے ہی دوڑ پڑے، غرض تمام مہاجرین وانصار نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ پر بلا اختلاف متفقہ طور پر بیعت کرلی۔ انصار میں سے صرف حضرت سعد بن عبادہؓ نے اورمہاجرین میں سے ان لوگوں نے جو تجہیز و تکفین کے کام میں مصروف تھے اس وقت سقیفہ بنو ساعدہ میں بیعت نہیں کی، حضرت سعد نے تھوڑی دیر بعد اسی روز حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی،حضرت علی کرم اللہ وجہہ اورحضرت زبیرؓ وطلحہؓ نے مہاجرین میں سے چالیس روز تک محض اس شکایت کی بناء پر بیعت نہیں کی کہ سقیفہ بنو ساعدہ کی بیعت میں ہم کو کیوں شریک مشورہ نہیں کیا گیا۔ حضرت علی ایک دن حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے اورکہا کہ میں آپ کی فضیلت و استحقاق خلافت کا منکر نہیں ہوں ،لیکن شکایت یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہیں،آپ نے سقیفہ بنو ساعدہ میں ہم سے مشورہ کئے بغیر کیوں لوگوں سے بیعت لی،آپ اگر ہم کو بھی وہاں بلوالیتے تو ہم بھی سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنا مجھ کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ عزیز ومحبوب ہے، میں سقیفہ میں بیعت لینے کی غرض سے نہیں گیا تھا؛بلکہ مہاجرین وانصار کے نزاع کو رفع کرنا نہایت ضروری تھا،دونوں فریق لڑنے اورمارنے مرنے پر تیار تھے،میں نے خود اپنی بیعت کی درخواست نہیں کی ؛بلکہ حاضرین نے خود باتفاق میرے ہاتھ پر بیعت کی، اگر اس وقت میں بیعت لینے کو ملتوی رکھتا تو اس اندیشہ اورخطرہ کے دوبارہ زیادہ طاقت سے نمودار ہونے کا قوی احتمال تھا،تم جب کہ تجہیز وتکفین کے کام میں مصروف تھے تو میں اس عجلت میں تم کو کیسے وہاں سے بُلواسکتا تھا، حضرت علی کرم اللہ نے یہ باتیں سن کر فوراً شکایت واپس لی اور اگلے روز مسجد نبوی میں مجمع عام کے روبرو حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔