انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ہجرت کا دوسرا سال قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے صحیح سالم تشریف لے آنے کے بعد اپنے آپ کو شکست خوردہ سمجھنے لگے تھے اور ان کی تمام کوششیں،تمام جوش وخروش اورتمام خواہشات ،مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے صرف ہونے لگیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کو تباہ وقتل کرنے کا اہتمام تمام قریشِ مکہ کا سب سے زیادہ اہم،سب سے زیادہ ضروری اورمقدم کام تھا، اس کام کی اہمیت ان کے لئے تمام کاموں اور مشغلوں پر غالب آگئی تھی،اسی لئے ان کی آپس کی رقابتیں اور معمولی مخالفتیں بھی سب دُور ہوکر ساری قوم اپنی تمام طاقتیں اسی ایک کام میں صرف کردینے پر آمادہ ومستعد ہوگئی تھی ،مکہ اور مدینہ کے درمیان قریباً تین سو میل کا فاصلہ تھا،مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے خاص اہتمام اورجنگی تیاریوں کی بھی ضرورت تھی،راستے کے قبائل اورملکِ عرب کی دوسری قوموں کو بھی اس کام کی طرف متوجہ کرنا یا کم از کم اپنا ہمدرد بنا لینا ضروری سمجھا تھا، اس آنے والے خطرے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک ذی ہوش سردار اورمآل اندیش سپہ سالار کی حیثیت سے محسوس فرماچکے تھے،خدائے تعالیٰ کی طرف سے حفاظت خود اختیاری اور مدافعت کی اجازت مل چکی تھی،دین اسلام کی اشاعت اوردینِ اسلام میں داخل ہونے والوں کے راستہ کی بے جارکاوٹیں دُور کردینا بھی لازمی امر تھا،مسلمانوں کی جمعیت مدینہ منورہ میں تین چار سو مردوں سے زیادہ نہ تھی،مسلمان اگرچہ تعداد اورسامان کے اعتبار سے بہت ہی کم اور ضعیف تھے مگر کفار کی شرارتیں اورمظالم دیکھ دیکھ کر اُن کی عربی حمیت وشجا عت جوش میں آتی تھی اور وہ بار بار کفار کا مقابلہ کرنے اور شمشیر وتیر سے جواب دینے کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چاہتے تھے، اب جبکہ اسلام کی صداقت اورایمان کی طاقت پورے طور پر ثابت ہوگئی اور مسلمانوں نے روح فرسامصائب برداشت کرکے دنیا کے سامنے یہ ثبوت بہم پہنچادیا کہ اسلام کے ساتھ عشق وشیفتگی کسی خوف یا لالچ سے تعلق نہیں رکھتی تو خدائے تعالیٰ کی طرف سے شریروں کو سزائیں دینے اور اپنی حفاظت آپ کرنے کی اجازت آگئی ،تاہم واقعات کے تسلسل پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ جنگ پر صلح کو اور انتقام پر درگذر ہی کو ترجیح دی،کفار مکہ کے ایک سردار کرز بن جابر نے ایک جماعت کو ہمراہ لے کر اور مکہ سے چل کر مدینہ منورہ کی متصلہ چراگاہ پر چھاپہ مارا اور مسلمانوں کے بہت سے اونٹ پکڑ کر چل دیا،مسلمانوں کو جب اس چھاپہ کا حال معلوم ہوا تو اس کے تعاقب میں مقام صفوان تک گئےلیکن دشمن نکل چکا تھا،مجبوراً لوٹ آئے،یہ مکہ والوں کی طرف سے نہایت صاف اورکھلی ہوئی دھمکی اورجنگ کا اعلان تھا، انہوں نے مدینہ والوں کو یہ بتادیا کہ ہم ڈھائی سو میل چل کر تمہارے گھروں میں سے تمہارے اموال کو لوٹ کر لاسکتے ہیں،اُدھر دوسری تدبیروں سے بھی وہ غافل نہ تھے،انہوں نے ایک طرف عبداللہ بن ابی اور دوسری طرف مدینہ کے یہودیوں سے برابر خط وکتابت جاری کر رکھی تھی اوراُن کو اندر ہی اندر مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ کردیا تھا،اسی سال کے ماہِ شعبان میں تحویلِ قبلہ کا حکم خدائے تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اورچند ہی روز کے بعد کہ ماہِ شعبان بھی ختم نہ ہوا تھا،رمضان کے روزے فرض ہوگئے،شروع رمضان میں یہ خبر مدینہ منورہ میں پہنچی کہ مکہ والوں کا ایک قافلہ شام سے آرہا ہے اوروہ مدینہ کے قریب ہو کر گذرے گا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں پر ایک قسم کا رعب قائم کرنے اور کرز بن جابر کی حملہ آوری کا جواب دینے کے لئے مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کو روانہ فرمایا کہ مکہ والوں کے قافلے کو روکیں تاکہ ان کو یہ معلوم ہوجائے کہ مدینہ والوں سے بگاڑ کرنا اُن کی تجارت کے لئے بے حد مضر ہے اور اُن کی تجارت ملک شام سے منقطع ہوسکتی ہے، یہ جمعیت جنگ کے ارادے سے روانہ نہیں کی گئی تھی ؛بلکہ اس کا مدعا تخویف وتادیب ہی تھا، اس لئے اس کی روانگی میں جنگی احتیاطیں بھی ملحوظ نہیں رکھی گئیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکہ والوں کا قافلہ مسلمانوں کی اس جمعیت کے روانہ ہونے سے فوراً مطلع اورباخبر ہوگیا ،امیر قافلہ ابو سفیان راستے سے کتراکر اور بچ کرا پنے قافلہ کو نکال کر لے گیا اوراُس نے ضمضم بن عمرو غفاری کو اُجرت دے کر راستے ہی سے مکہ کی طرف دوڑادیا کہ ہم کو مسلمانوں کے حملے کا خطرہ ہے،ہماری مدد کرو اور اپنے اموال کو بچاؤ،اس خبر کے پہنچتے ہی ابو جہل مکہ سے قریباً ایک ہزار جرار فوج جس میں سات سوا ونٹ اورتین سو گھوڑے تھےلے کر بڑے جوش وخروش کے ساتھ مکہ سے نکلایہ تمام لشکر ہر طرح کیل کانٹے سے درست اورسپاہی سب زرہ پوش تھے،گانے والے اورخبر پڑھنے والے بھی ہمراہ تھے،عباس بن عبدالمطلب،عتبہ بن ربیعہ،اُمیہ بن خلف، نضر بن حارث، ابو جہل بن ہشام وغیرہ کل تیرہ آدمی کھانا کھلانے والے تھے،ابو سفیان کا قافلہ بہ حفاظت مکہ میں پہنچ گیا،مسلمانوں کی جمعیت جو قافلہ والوں کو صرف ڈرانے کے لئے بھیجی گئی تھی،واپس مدینہ کی طرف روانہ ہوئی۔