انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنتیوں کی شکل وصورت اور حسن وجمال جنتیوں کا قد اور شکل وصورت: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ لَهُ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ وَهُمْ نَفَرٌ مِنْ الْمَلَائِكَةِ جُلُوسٌ فَاسْتَمِعْ مَايُحیوْنَكَ فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ قَالَ فَذَهَبَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَقَالُوا السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکَاتُہُ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ قَالَ فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ يَزَلْ يَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّى الْآنَ۔ (مسنداحمد:۲/۳۱۵۔ بخاری شریف:۳۳۲۶۔ مصنف عبدالرزاق:۱۰/۳۸۴) ترجمہ:اللہ تعالیٰ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کوان کی (بہترین) صورت پرپیدا فرمایا ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا، جب اللہ تعالیٰ نے ان کوپیدا کیا توفرمایا آپ جاکر اس جماعت کوسلام کیجئے یہ فرشتوں کی ایک جماعت تھی جوبیٹھی ہوئی تھی اور (ان سے) سنئے یہ آپ کوکیا جواب دیتے ہیں؛ یہی آپ کا اور آپ کی اولاد کا سلام ہوگا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں چنانچہ حضرت آدم تشریف لے گئے اور فرمایا السلام علیکم، توانہوں نے جواب میں کہا السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ان فرشتوں نے سلام میں ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا اضافہ کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ پس جوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ حضرت آدم علیہ السلام کی شکل وشباہت پرہوگا اس (کے قد کی لمبائی) ساٹھ ہاتھ ہوگی؛ لیکن (حضرت آدم کے) دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سے اب تک حسن وجمال اور قدکاٹھ کم ہی ہوتا جارہا ہے۔ فائدہ:جنتی مردوں کے جسم کی لمبائی توساٹھ ہاتھ ہوگی اور چوڑائی سات ہاتھ ہوگی جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ابونعیم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۵۵۔ احمد:۲/۲۹۵) ایک روایت میں آتا ہے کہ یہ ساٹھ ہاتھ کی لمبائی اللہ جل شانہ کے ہاتھ کی ہے اور اس کا اندازہ آدمی کے اپنے ہاتھ کے ساتھ لگانا درست نہیں نہ معلوم کتنا طوالت ہوگی؛ بہرحال اتنا زیادہ بھی نہ ہوگی جوغیرمانوس ہوجائے، واللہ اعلم۔ چاند ستاروں جیسی شکلیں: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب سیددوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَوَّلَ زُمْرَةٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ عَلَى أَشَدِّ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ إِضَاءَةً لَايَبُولُونَ وَلَايَتَغَوَّطُونَ وَلَايَتْفِلُونَ وَلَايَمْتَخِطُونَ أَمْشَاطُهُمْ الذَّهَبُ وَرَشْحُهُمْ الْمِسْكُ وَمَجَامِرُهُمْ الْأَلُوَّةُ الْأَنْجُوجُ عُودُ الطِّيبِ وَأَزْوَاجُهُمْ الْحُورُ الْعِينُ عَلَى خَلْقِ رَجُلٍ وَاحِدٍ عَلَى صُورَةِ أَبِيهِمْ آدَمَ سِتُّونَ ذِرَاعًا فِي السَّمَاءِ۔ (بخاری،كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ، بَاب خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَذُرِّيَّتِهِ،حدیث نمبر:۳۰۸۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:پہلا گروہ جوجنت میں داخل ہوگا اس کی صورت چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوگی اور وہ لوگ جوان کے بعد داخل ہوں گے ان کی صورت کی چمک دمک آسمان میں تیز روشن ستارے کی طرح ہوگی، یہ جنتی نہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ نہ تھوک نہ ناک کی غلاظت، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کا پسینہ کستوری کا ہوگا، ان کی انگیٹھیاں اگرکی ہوں گی، ان کی بیویاں حورعین ہوں گی، ان کے اخلاق ایک ہی آدمی کے خلق جیسے ہوں گے ان کی صورت اپنے ابا حضرت آدم کی صورت پرہوگی لمبائی میں ساٹھ ہاتھ کا قد ہوگا۔ فائدہ: تفصیل کے لیے دیکھئے عنوان امت محمدیہ میں سب سے پہلے جنت میں جانے والے۔ کالی رنگت والوں کا حسن: حدیث:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک (حبشی) شحص جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر کچھ سوال کرنے لگا، آپ نے اس سے ارشاد فرمایا پوچھ لواور خوب سمجھ لو، تواس نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ کوہم پرشکل وصورت میں خوبصورتی اور نبوت میں ہم پرفضیلت بخشی گئی ہے آپ کیا فرماتے ہیں اگرمیں اس طرح سے ایمان لے آؤں جس طرح سے آپ اللہ تعالیٰ پرایمان لائے اور میں بھی ویسے ہی عمل کروں جس طرح کے اعمال آپ کرتے ہیں توکیا میں جنت میں آپ کے ساتھ ہوں گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا ہاں! پھرآپ نے ارشاد فرمایا: والذي نفسي بيده، إنه ليرى بياض الأسود في الجنة من مسيرة ألف عام، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من قال: لاإله إلاالله كان له بها عهد عند الله، ومن قال: سبحان الله وبحمده، كتب له مائة ألف حسنة، وأربع وعشرون ألف حسنة فقال رجل: كيف يهلك بعد هذا يارسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الرجل ليأتي يوم القيامة بالعمل لووضع على جبل لأثقله، فتقوم النعمة، أونعم الله فيكاد أن يستنفذ ذلك كله إلاأن يتطاول الله برحمته ونزلت هذه السورة هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ إلى قوله وَمُلْكًا كَبِيرًا ، قال الحبشي: وإن عيني لتريان ماترى عيناك في الجنة؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم «نعم» فاستبكى حتى فاضت نفسه، قال ابن عمر: لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يدليه في حفرته بيده۔ (مجمع الزوائد:۱۰/۴۲۹۔ بحوالہ طبرانی:۱۲/۴۳۶، وفیہ ایوب بن عتبہ وہوضعیف) ترجمہ:مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کالے رنگ والے شخص کی سفیدی جنت میں ایک ہزار سال کی مسافت سے دیکھی جاتی ہوگی؛ پھررسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ پڑھا اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس (نجات اور جنت کا) ایک پروانہ لکھ دیا جاتا ہے اور جس نے سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ پڑھا اس کے لیے اس کے بدلہ میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں (یہ سن کر) اس شحص نے کہا: یارسول اللہ ایسے (انعامات حاصل کرنے) کے بعد ہم کس طرح سے ہلاک ہوسکتے ہیں، توجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی ایسا عمل کرکے لائے گا کہ اگراس کوپہاڑ پررکھ دیا جائے تواس پربھی بوجھل ہوجائے (یعنی باوجود مضبوط اور طاقتور ہونے کے اس عمل کے وہ پہاڑ وزن کواٹھانے کی طاقت نہ رکھے) پھراللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے (کوئی سی دنیا کی ایک نعمت مقابلہ میں پیش ہوگی جواس کی تمام نیکی کوبے وزن کردے گی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ بندی کے) دستگیری کریں گے (اور اس کے نیک اعمال کا درجہ بڑھاکر اس کوجنت کا مستحق کردیا جاے گا) اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں. هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ سے وَإِذَارَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا۔ (الدھر:۱ تا۲۰) اس حبشی نے عرض کیا: کیا میری آنکھیں بھی وہ کچھ دیکھیں گی جوآپ کی آنکھیں جنت میں دیکھیں گی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں! تووہ حبشی (خوشی کے مارے) اتنا رویا کہ اس کی جان نکل گئی، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ خود اپنے دست مبارک سے اس حبشی کوقبر میں اتار رہے تھے۔ مردوں کا حسن وجمال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے اس ذات کی قسم جس نے قرآن حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمایا ہے جنت میں رہنے والے (مرد وعورت، حور ووغلمان کے) حسن وجمال میں اس طرح سے اضافہ ہوتا رہے گا جس طرح سے ان کا دنیا میں (آخر عمر میں) بدصورتی اور بڑھاپے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳/۱۱۴۔ صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۲۶۴) ارشادِ خداوندی ہے: كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ (الطور:۲۴) گویا کہ وہ (خدمتگار) لڑکے محفوظ رکھے ہوئے موتی ہیں، اس ارشاد کی تفسیر میں حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ عرض کیا گیا یارسول اللہ! یہ تونوکراور خدمتگار ہیں لؤلؤ موتی کی طرح تومخدوم کیسے ہوں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: وَالَّذِيْ نَفْسِي بِيَدهِ إنَّ فَضْلَ مَابَيْنَهُمَا كَفَضْل الْقَمَر لَيْلَة البَدْر عَلَى النُّجُوْم۔ (درمنثور:۶/۱۱۶، بحوالہ ابن جریر:۲۷/۲۹۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۶۵) ترجمہ:مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ان کے درمیان ایسی فضیلت ہے جیسے چودھویں کے رات کے چاند کی ستاروں پرہوتی ہے۔ حدیث:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إنَّ في الجَنَّةِ سُوقاً يَأتُونَهَا كُلَّ جُمُعَةٍ، وَتَهُبُّ رِيحُ الشَّمَالِ، فَتَحْثُی وُجُوهِهِم وَثِيَابِهِمْ، فَيَزدَادُونَ حُسناً وَجَمَالاً فَيَرْجِعُونَ إلَى أَهْلِيهِمْ، وَقَد ازْدَادُوا حُسْناً وَجَمَالاً، فَيقُولُ لَهُمْ أَهْلُوهُمْ: وَاللهِ لقدِ ازْدَدْتُمْ بَعَدْنَا حُسْناً وَجَمَالاً! فَيقُولُونَ: وَأنْتُنَّ وَاللهِ ازْدَدْتُن حُسْناً وَجَمالاً۔ (صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۴۱۷۔ حلیہ ابونعیم:۶/۲۵۳۔ مسلم:۲۸۳۳) ترجمہ:جنت میں ایک بازار ہوگا، جنتی ہرجمعہ کو اس میں آیا کریں گے، شمال سے ایک خوشبو چلے گی جوان کے چہروں اور لباس پرپڑے گی اور یہ حسن وجمال میں بڑھ جائیں گے پھریہ اپنے گھروالوں کے پاس لوٹیں گے جب کہ یہ حسن وجمال میں خوب ترقی کئے ہوئے ہوں گے ان کوان کی بیویاں کہیں گی آپ توہم سے جدا ہونے کے بعد حسن وجمال میں بہت بڑھ گئے ہیں، تویہ مرد کہیں گے آپ بھی توخدا کی قسم حسن وجمال میں بڑھ چکی ہو۔ فائدہ:یہ ہوا مشک کے ٹیلوں سے چلائی جائے گی، جنتی مردوعورتیں ہرگھڑی حسن وجمال میں ترقی کرتے رہیں گے جب ایک دوسرے سے کچھ دیر اوجھل ہوں گے توچونکہ اس حالت میں بھی ان کے حسن وجمال میں اضافہ ہوتا رہے گا اس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے حسن وجمال میں اضافہ کودیکھ کرحیران اور لطف اندوز ہوں گے، جنت کے بازار میں حسن وجمال میں من پسند حسین وجمیل صورتیں بھی ہوں گی جنتی جس صورت کوپسند کریگا اس میں تبدیل ہوسکے گا تفصیل کے لیے اسی کتاب میں جنت کا بازار کا مضمون ملاحظہ کریں۔ حسنِ یوسف حدیث:حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: يُحْشَرُ مَابَيْنَ السِّقْطِ إِلَى الشَّيْخِ الْفَانِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي خَلْقِ آدَمَ، وَقَلْبِ أَيُّوبَ، وَحُسْنِ يُوسُفَ مُرْدًا مُكَحَّلِينَ۔ (البدورالسافرہ:۲۱۶۸۔ البعث والنشور:۴۶۵) ترجمہ:ضائع ہونے والے بچے سے لیکر بوڑھے تک (مؤمن) قیامت کے دن حضرت آدم کی صورت، حضرت ایوب کے دل اور حضرت یوسف کے حسن پربغیرداڑھی کے آنکھوں میں سرمہ لگائے ہوئے (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔ جنت میں صرف حضرت آدم اور موسیٰ علیہما السلام کی ڈاڑھی ہوگی حدیث:حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ليس أحد من أهل الجنة إلايدعى باسمه إلاآدم عليه السلام فإنه يكنى أبا محمد، وليس أحد من أهل الجنة إلاوهم جرد مرد إلاماكان من موسى بن عمران فإن لحيته تبلغ سرته۔ (البدورالسافرہ:۲۱۷۲۔ہامش صفۃ الجنۃ لابی نعیم:۲/۱۱۰) ترجمہ:جنت والوں میں ہرشخص کواس کے نام سے بلایا جائے گا؛ مگرحضرت آدم علیہ السلام کوابومحمد کی کنیت کے ساتھ پکارا جائے گا اور جنت میں سب بغیربالوں کے بغیرداڑھی کے ہوں گے سوائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان کے داڑھی ان کی ناف تک پہنچتی ہوگی۔ فائدہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت والوں کے جسم پربال نہیں ہوں گے مگرموسیٰ بن عمران علیہ السلام کے ان کی داڑھی ان کی ناف تک پہنچتی ہوگی اور سب جنتیوں کوان کے ناموں کے ساتھ پکارا جائے گا؛ مگرحضرت آدم علیہ السلام کوان کی کنیت ابومحمد ہوگی۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۱۱۱) چونکہ بچپن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے وقت کے سب سے بڑے دشمنِ خدا فرعون کی داڑھی کوکھینچا تھا اس کی قدردانی اور حضرت موسیٰ کے اعزاز کے لیے جنت میں داڑھی عطاء کرکے دوام بخشا ہوگا، واللہ اعلم (امداداللہ) حضرت کعب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ جنت میں کسی کی داڑھی سیاہ ہوگی اور ناف تک پہنچتی ہوگی، اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان کی داڑھی نہیں آئی تھی بلکہ داڑھی حضرت آدم کے بعد سے اترنا شروع ہوئی ہے اور کسی کی کنیت باقی نہ رہے گی؛ سوائے حضرت آدم کے کہ ان کی کنیت ابومحمد ہوگی۔ (البدور السافرہ:۲۱۷۳، بحوالہ ابن عساکر) حضرت ہارون علیہ السلام کی بھی داڑھی ہوگی علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جنت میں تمام مردبغیر داڑھی کے ہوں گے سوائے حضرت ہارون علیہ السلام کے کیونکہ ان کی داڑھی سب سے پہلی داڑھی ہے جس کواللہ کے راستہ میں اذیت دی گئی تھی جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: قَالَ يَبْنَؤُمَّ لَاتَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَابِرَأْسِي۔ (طٰہٰ:۹۴) ترجمہ:فرمایا اے میرے ماں جائے میری ڈاڑھی اور سر سے نہ پکڑ۔ فائدہ: مذکورہ روایات سے فرداً فرداً ثابت ہوتا ہے کہ تمام انسانوں میں سے صرف تین انبیاء علیہم السلام کی داڑھی ہوگی، واللہ اعلم۔ تاج کی شان وشوکت حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ عَلَيْهِمْ التِّيجَانَ إِنَّ أَدْنَى لُؤْلُؤَةٍ مِنْهَا لَتُضِيءُ مَابَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ (ترمذی،كِتَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ مَالِأَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْ الْكَرَامَةِ،حدیث نمبر:۲۴۸۶، شاملہ، موقع الإسلام)