انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بیعتِ عقبہ ثانیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قافلے کے آنے کی اطلاع مل چکی تھی،رات کے وقت آپ مکان سے نکلے حضرت عباسؓ اگرچہ مسلمان نہ ہوئے تھے لیکن ہمیشہ سے اُن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمدردی تھی،قریش کی عام مخالفت میں بھی اُن کے در پردہ ہمدرد انہ طرزِ عمل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واقف تھے وہ اتفاقا رات کی تاریکی میں وادی عقبہ میں پہنچے،وہاں مدینہ سے آیا ہوا مومنوں کا قافلہ آپ کا منتظر تھا،اس جگہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مدینہ سے صرف مسلمان ہی نہیں آئے تھے ؛بلکہ مشرکین حسبِ دستورِ قدیم حج کے لئے آئے تھے،ان لوگوں نے مکہ سے باہرہی ایک جگہ قیام کیا تھا،مگر عقبہ کی گھاٹی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے تجویز کردی گئی تھی، اس لئے مدینہ کے مسلمان اوربعض غیر مسلم بھی جو اسلام کو پسند کرتے اورمسلمانوں سے ہمدردی رکھتے تھے اس گھاٹی میں آکر آپ کے منتظر تھے،باقی مشرکین مدینہ کو عقبہ کی اس ملاقات کا علم نہ تھا، وہ سب اصل قیام گاہ پر سورہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ میں پہنچ کر منتظر مسلمانوں سے ملاقات کی،مدینہ میں تشریف لے جانے کی خواہش سُن کر حضرت عباسؓ نے ایک مناسب اورضروری تقریر کی،انہوں نے فرمایا: "مدینہ والو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان میں ہے، اس کا خاندان اس کی حفاظت کرتا ہے تم اس کو اپنے یہاں لے جانا چاہتے ہو،یہ یاد رکھو،تم کو اس کی حفاظت کرنی پڑے گی،اس کی حفاظت کوئی آسان کام نہیں،اگر تم عظیم الشان اورخوں ریز لڑائیوں کے لئے تیار ہو تو بہتر ہے ورنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لے جانے کا نام نہ لو"۔ براء بن معرورؓ نے کہا: عباسؓ! ہم نے تمہاری بات سُن لی،اب ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خود اپنی زبان سے کچھ فرمائیں؛چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریر فرمائی اورقرآن مجید کی آیات پڑھ کر سُنائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر میں حقوق اللہ اورحقوق عباد کا بیان تھا، آپ نے ان ذمہ داریوں کو بھی بیان فرمایا مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لے جانے سے مدینہ والوں پر عائد ہوتی تھیں، براء بن معرورؓ نے تمام باتیں سُننے کے بعد کہا ہم سب باتوں کے لئے تیار ہیں،ابو الہثیم بن تیہانؓ نے کہا: آپ یہ تو وعدہ کریں کہ ہم کو چھوڑکر واپس تو نہیں آجائیں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں میرا جینا اورمرنا تمہارے ہی ساتھ ہوگا،عبداللہ بن رواحہ بولے:یا رسول اللہ ہم کو اس کے معاوضہ میں کیا ملےگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت اورخدائے تعالیٰ کی رضا مندی ،عبداللہ نے کہا: بس سودا ہوچکا، اب نہ آپ اپنے قول سے پھریں نہ ہم پھریں گے، اس کے بعد سب نے بیعت کی اس بیعت میں براء بن معرورؓ سب پر سابق تھے اس بیعت کا نام بیعت عقبہ ثانیہ مشہور ہے ،جب بیعت ہوچکی تو اسعد بن زرارہ نے سب کو مخاطب کرکے کہا کہ لوگو! آگاہ رہو کہ اس قول وقرار کا یہ مطلب ہے کہ ہم ساری دنیا کے مقابلہ کے لئے تیار ہیں،سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہاں ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم کو ساری دنیا کا مقابلہ کرنا پڑے گا،اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں میں سے بارہ بزرگوں کو منتخب فرمایا اوران کو تبلیغ اسلام کے متعلق ہدایات دے کر اپنا نقیب مقرر کیا اوران کا کام اسلام کی تبلیغ فرمایا،ان نقبا کے نام یہ ہیں: (۱)سعد بن زرارہؓ (۲)اُسید بن حصیرؓ (۳)ابو الہثیم بن التیہانؓ (۴)براء بن معرورؓ (۵)عبداللہ بن رواحہؓ (۶)عبادہؓ بن صامتؓ (۷)سعد بن الربیعؓ (۸)سعد بن عبادہؓ (۹)رافع بن مالکؓ (۱۰)عبداللہ بن عمرو (۱۱)سعد بن حیثمہؓ (۱۲)منذر بن عمروؓ۔ ان بارہ سرداروں میں نو آدمی قبیلہ خزرج کے تھے اورتین قبیلہ اوس کے ان بارہ آدمیوں سے مخاطب ہوکر آپ ﷺنے فرمایا کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری ذمہ دار تھے،اسی طرح میں تم کو تمہاری قوم کی تعلیم کا ذمہ دار بناتا ہوں اور میں تم سب کا ذمہ دار ہوں،جس وقت عقبہ کی گھاٹی میں یہ بیعت ہو رہی تھی اس وقت پہاڑ کی چوٹی پر سے ایک شیطان نے زور سے اہل مکہ کو آواز دی اورکہا کہ دیکھو ،محمد اوراس کی جماعت کے آدمی تمہارے خلاف مشورے کررہے ہیں،آپ نے اورمومنوں کی اس جماعت نے اُس طرف کوئی التفات نہیں کیا، جب تمام مراتب طے ہوچکے تو آپ نے مدینہ کی طرف تشریف لے جانے کی تاریخ کا تعین اذن الہی پر موقوف رکھا، اس کے بعد ایک ایک دو دو کرکے سب آدمی خاموشی کے ساتھ وہاں سے نکل گئے تاکہ اس جلسہ کا حال کسی کو معلوم نہ ہو،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عباس دونوں مکہ میں چلے آئے مگر صبح ہوتے ہی قریش کو رات کے اس اجتماع کا حال معلوم ہوا وہ اسی وقت مدینہ والوں کی قیام گاہ پر پہنچے اوردریافت کیا کہ رات تم لوگوں کے پاس محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے،مدینہ والوں میں جو لوگ غیر مسلم یعنی بُت پرست تھے ان کو خود رات کے اس اجتماع کا حال معلوم نہ تھا، انہیں میں عبداللہ بن اُبی بن سلول بھی تھا جو بعد میں منافقوں کا سردار بنا، اُس نے قریش سے کہا: بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مدینہ والے کوئی اہم معاملہ کریں اور مجھ کو اُس کی اطلاع نہ ہو، قریش کا شک جاتا رہا اوروہ واپس چلے گئے،اُسی وقت اہل مدینہ نے کوچ کی تیاری کردی اوروہاں سے روانہ ہوگئے،قریش کو مکہ میں آکر پھر کسی دوسرے معتبر ذریعہ سے رات کی اس مجلس کا حال معلوم ہوا اورمسلح ہوکر دوبارہ آئے لیکن قافلہ روانہ ہوچکا تھا صرف سعد بن عبادہؓ اورمنذر بن عمروؓ کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے،منذر تو قریش کو دیکھ کر چل دئے اوران کے ہاتھ نہ آئے،لیکن سعد بن عبادہؓ قریش کے ہاتھ میں گرفتار ہوگئے،قریش ان کو مارتے ہوئے مکہ میں لائے،سعد بن عبادہ کا بیان ہے کہ جب قریش مجھے مکہ میں لا کر زود کوب کررہے تھے تو میں نے دیکھا کہ سرخ و سفید رنگت کا خوبصورت شخص میری طرف آرہا ہے،میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر کسی شخص سے اس قوم میں مجھ کو بھلائی کی توقع ہوسکتی ہے تو وہ یہی ہوگا ،مگر جب میر سے پاس آیا تو اُس نے نہایت زور سے میرے منھ پر طمانچہ مارا، اس وقت مجھ کو یقین ہوا کہ ان لوگوں میں کوئی بھی نہیں ہے جس سے مروت ورعایت کی توقع ہوسکے اتنے میں ایک اور شخص آیا، اس نے کہا کہ قریش کے کسی شخص سے تیری شناسائی نہیں؟ میں نے کہا کہ جبیر بن مطعم اورحارث بن اُمیہ کو جو عبد مناف کے پوتے ہیں جانتا ہوں، اُس نے کہا کہ پھر تو انہیں دونوں کا نام لے کر کیوں نہیں پکارتا،مجھ کو یہ تدبیر بتا کر وہی شخص ان دونوں کے پاس گیا اور کہا کہ ایک قبیلہ خزرج کا شخص پٹ رہا ہے اور وہ تمہارا نام لے لے کر دہائی دے رہا ہے، انہوں نے پوچھا: اس کا کیا نام ہے،اس شخص نے بتایا کہ اس کا نام سعد بن عبادہ ہے،وہ بولے: ہاں اس کا ہم پر احسان ہے،ہم تجارت کے لئے اس کے یہاں جاتے اور ان ہی کی حفاظت میں اس کے یہاں ٹھہرتے رہے ہیں؛چنانچہ ان دونوں نے مجھےچھڑایا اورمیں چھوٹتے ہی مدینہ (یثرب) کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس جگہ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بیعتِ عقبہ ثانیہ سے بہت پہلے خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ بتادیا گیا تھا کہ آپ کو ہجرت کرنی پڑے گی اورایک مرتبہ خواب میں مقامِ ہجرت کا نظارہ بھی دکھایا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ یمامہ کے علاقہ میں ہجرت کرنی پڑے گی کیونکہ وہاں بھی کھجوریں بکثرت ہوتی ہیں، بعد میں اب معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یثرب (مدینہ) کی طرف ہجرت کرنی ہوگی۔