انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کعب احبار رحمہ اللہ نام ونسب کعب نام، ابواسحاق کنیت، نسبا یمن کے مشہور حمیری خاندان کی شاخ آل ذی روعین سے تھے، نسب نامہ یہ ہے، کعب بن مانع بن ہینوع بن قیس بن معن بن جشم ابن وائل بن عوف بن جمہر بن عوف بن زہیر بن ایمن بن حمیر بن سبا بن حمیری۔ اسلام اور ورودِ مدینہ کعب مشہور تابعی ہیں، قبولِ اسلام سے پہلے یہود کے جید علماء میں شمار کیے جاتے تھے، عہدِ رسالت میں موجود تھے؛ لیکن صحیح روایت کے مطابق اس عہد بابرکت میں وہ اسلام کی سعادت حاصل نہ کرسکے اور ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی زمانہ میں مشرف باسلام ہوگئے تھے، کعب کا بیان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جب یمن آئے توان کی خدمت میں حاضر ہوکر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف پوچھے توانھوں نے بتایا تومیں مسکرایا، علی رضی اللہ عنہ نے مسکرانے کا سبب پوچھا، میں نے کہا: ہمارے یہاں (نبی آخرالزماں کے) جوعلامات بتائے گئے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرصادق آتے ہیں؛ اسی لیے مجھے ہنسی آگئی، اس سوال وجواب کے بعد میں مسلمان ہوگیا اور لوگوں کواسلام کی دعوت دینے لگا؛ لیکن قیام یمن ہی میں رہا، عمررضی اللہ عنہ کے عہد میں ہجرت کرکے مدینہ گیا، کاش میں نے اس سے پہلے ہجرت کی ہوتی(اصابہ:۵/۳۲۲) (کعب کے حالات، تابعین سے نقل کیے گئے ہیں، آخر میں اور کہیں کہیں درمیان میں کچھ اضافہ وترمیم ہے) ایک روایت یہ ہے کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اسلام لائے۔ (اصابہ:۵/۳۲۲) لیکن یہ دونوں روایتیں کمزور ہیں، اس باب میں صحیح ترین روایت وہ ہے جوطبقاتِ ابن سعد میں کعب کے حلیف حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس سے خود کعب کی زبان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ان کا اسلام لانا ثابت ہوتا ہے، سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کعب کے اسلام لانے کے بعد ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قبولِ اسلام میں کیا چیز مانع تھی کہ عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسلام لائے، جواب دیا کہ میرے والد نے مجھ کوتوراۃ سے ایک تحریر نقل کرکے دی تھی اور ہدایت کی تھی کہ اسی پرعمل کرنا، دوسرے اپنی تمام مذہبی کتابوں پرمہر لگاکرمجھ سے حق ابوت کا واسطہ دلاکر وعدہ کیا تھا کہ اس کونہ توڑنا، تومیں نے اس کونہیں توڑا اور والد جوتحریر دے گئے تھے اس کے مطابق میں عمل کرتا رہا، جب اسلام کی اشاعت اور اس کا غلبہ ہونے لگا اور کسی کا خوف باقی نہیں رہ گیا تواس وقت میں نے دل میں خیال کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ والد نے مجھ سے کچھ علم چھپایا ہے، مجھے ان کتابوں کوکھول کردیکھنا چاہیے؛ چنانچہ میں نے مہرتوڑ کرکتابیں پڑھیں تومجھ کونظر آیا کہ ان میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُن کی اُمت کے اوصاف لکھے ہیں، اس وقت مجھ پراصل حقیقت روشن ہوئی اور آکرمسلمان ہوگیا (ابن سعد:۷/۱۵۶) قبولِ اسلام کے بعد وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حلیف بن گئے تھے۔ فضل وکمال کعب یہود کے بڑے ممتاز اور نامور علماء میں ہے، یہودی مذہب کے متعلق ان کی معلومات نہایت وسیع تھیں، حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ وہ علم کا ظرف اور اہلِ کتاب کے علمائے کبار میں تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۵) امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان کے وفور علم اور توثیق پرسب کا اتفاق ہے، وہ اپنی وسعتِ علم کی وجہ سے کعب احبار اور کعب البر کہے جاتے تھے، ان کے مناقب بکثرت ہیں اور ان کے اقوال وحکم بہت مشہور ہیں (تہذیب الاسماء:۱/۶۹) اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ان کی وسعتِ نظر کے معترف تھے، ابودرداء رضی اللہ عنہ انصاری کا حمص میں بڑا ساتھ رہا تھا، فرماتے تھے کہ ابن حمیریہ کے پاس بڑا علم ہے (ابن سعد:۲/۱۵۶) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہتےتھے کہ ابودرداء رضی اللہ عنہ حکماء میں ہیں اور کعب علماء میں، ان کے پاس سمندر جیسا اتھاہ علم تھا۔ (اصابہ:۵/۳۳۳) چونکہ ایک مذہب کے وہ ایک بڑے عالم تھے، اس لیے اسلامی علوم کے ساتھ بھی انھیں خاص مناسبت ہوگئی تھی، مدینہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے انھوں نے کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی تھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان سے اہلِ کتاب کے علوم سیکھے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۵) کتاب وسنت میں انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے استفادہ کیا تھا اور اسرائیلیات میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور تابعین میں حضرت مالک بن ابی عامر رحمہ اللہ، حضرت اصبحی رحمہ اللہ، حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ، حضرت عبداللہ بن رباح انصاری رحمہ اللہ، حضرت عبداللہ بن حمزہ سلولی رحمہ اللہ، حضرت ابورافع صائغ رحمہ اللہ، حضرت عبدالرحمن بن شعیب رحمہ اللہ اور ایک کثیر جماعت ان سے فیض یاب ہوئی تھی۔ (تہذیب التہذیب:۵/۴۲۸) علم اور علماء اور زوالِ علم ایک مرتبہ عبداللہ بن سلام نے ان سےپوچھا کہ کعب! علماء کون لوگ ہیں، جواب دیا جوعلم جانتے ہیں، ابن سلام نے پوچھا کونسی شئے علماء کے دلوں سے علم کوزائل کردے گی، فرمایا: طمع، حرص اور لوگوں کے سامنے اپنی حاجت پیش کرنا، عبداللہ ابن سلام نے کہا: تم نے سچ کہا۔ (اصابہ:۵/۲۲۴) شام کا قیام کعب کا آبائی مذہب یہودیت تھا، اس لیے پہلے سے ان کوارضِ شام کے ساتھ دلی لگاؤ تھا، مسلمانو کے نزدیک بھی یہ سرزمین مقدس ومحترم ہے، اس لیے چند دن مدینہ میں قیام کرنے کے بعد کعب شام چلے گئے اور حمص میں جاکر سکونت اختیار کرلی۔ (ابن سعد:۷/۱۵۶) مواعظ شام کے زمانۂ قیام میں ان کا مشغلہ زیادہ تراسرائیلی قصص کے مواعظ تھے، ایک مرتبہ عوف بن مالک نے دورانِ وعظ میں ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ امیر، مامور اور مکلف کے علاوہ لوگوں کے سامنے اور کسی کومواعظ وقصص نہ بیان کرنے چاہئیں یہ سن کرکعب نے وعظ گوئی چھوڑ دی؛ لیکن پھرامیر کے حکم سے دوبارہ وہ سلسلہ جاری کردیا۔ (اصابہ:۵/۳۲۳) اسلامی روایات میں اسرائیلیات کا شمول کعب کی علمی جلالت میں کوئی شک نہیں وہ یہودی مذہب کے بڑے نامور عالم تھے؛ لیکن چونکہ خود یہودیوں کا سرمایہ علم زیادہ ترقصص وحکایات تھیں، اس لیے کعب کا سرمایہ معلومات بھی تمامتریہی تھا، اس سے ایک نقصان یہ ہوا کہ بہت سی بے سروپااسرائیلی روایات ان کے ذریعے اسلامی لٹریچر میں داخل ہوگئیں؛ اسی بناء پربعض ائمہ حدیث کعب کوروایات میں ساقط الاعتبار سمجھتے ہیں۔ وفات حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سنہ۳۲ھ میں شام میں وفات پائی۔ (ابن سعد:۷/۱۵۶، ان کے حالات تابعین سے نقل کیے گئے ہیں)